رانی لکشمی بائی

جھانسی ریاست کی ملکہ اور آخری حکمران جس نے 21 نومبر 1853ء سے 18 جون 1858ء تک حکومت کی
(جھانسی کی رانی سے رجوع مکرر)

جھانسی کی رانی جن کا نام لکشمی بائی تھا۔ جھانسی ریاست کی رانی تھی جو 19 نومبر 1828ء کو پیدا ہوئی اور 18 جون 1858ء کو وفات پاگئی۔ وہ جنگ آزادی ہند 1857ء میں بھرپور کردار نبھانے والے ان لیڈروں میں سے ایک تھی جنھوں نے ہندوستان کو انگریزوں سے آزاد کرانے میں زبردست کردار آدا کیا۔

رانی لکشمی بائی
(ہندی میں: लक्ष्मी बाई)،(مراٹھی میں: lakshmi bai)،(انگریزی میں: Manikarnika Tambe ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

معلومات شخصیت
پیدائش 19 نومبر 1828ء [1]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بنارس [2]  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 17 جون 1858ء (30 سال)[3]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
گوالیار [4]  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ وفات لڑائی میں مارا گیا   ویکی ڈیٹا پر (P509) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت مراٹھا سلطنت   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شریک حیات گنگا دراؤ نیوالکر [5][4]  ویکی ڈیٹا پر (P26) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مناصب
ملکہ جھانسی ریاست   ویکی ڈیٹا پر (P39) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
برسر عہدہ
21 نومبر 1853  – 18 جون 1858 
عملی زندگی
پیشہ فعالیت پسند ،  جنگجو ،  انقلابی ،  حریت پسند   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عسکری خدمات
لڑائیاں اور جنگیں جنگ آزادی ہند 1857ء   ویکی ڈیٹا پر (P607) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

ابتدائی زندگی

ترمیم

پیدائش

ترمیم

جھانسی کی رانی غالباً 19 نومبر 1828 کو وارانسی میں ایک ہندو براہمن کے گھر پیدا ہوئی۔ ان کے والد کا نام موروپنت اور والدہ کا نام بھاگیرتی تھا۔ ان کے والد ابتدائی طور پر بٹھور ریاست کے راجا کے لیے کام کرتے تھے، لیکن بٹھور کے راجا نے اپنی سگی بیٹی سے بھی زیادہ لکشمی بائی کی پرورش کی۔

شادی اور گھررہستی

ترمیم

ان کی شادی 1842ء میں جھانسی کے راجا گنگا دراؤ نوالکر سے ہوئی۔ رانی کی عمر اس وقت کم یعنی صرف 13 سال تھی۔ تب تک ان کو منیکنیکہ اور منو کہا جاتا تھا لیکن شادی کے بعد لکشمی بائی کے نام سے یاد کی جاتی تھی۔ ان کا ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام دامودر رکھا لیکن انگریزوں کے چال سے اسے سانپ نے کاٹ لیا اور مرگیا اس کے بعد انھوں نے اپنے بھانجے جس کا نام انند راؤ تھا اس کو دائت کیا اور ان کی بہن نے انند کو اپنے مرگ سے پہلے رانی لکشمی کو سونپا۔ اس کے بعد رانی کو چونکہ ہر وقت اپنے بیٹے کے یاد میں ہوا کرتی اس لیے انند کا نام انند سے دامودر رکھ لیا اور اسے اپنا سگا بیٹا قرار دیا۔

مہاراج گنگا کا قتل ان کے بھتیجے علی بہادر نے کیا جو جھانسی کے تخت پر بیٹھنا چاہتا تھا۔ لیکن اس کے بعد رانی نے تخت پر ایسا زبردست قبضہ کیا کہ نہ علی بہادر اور دیگر دعویداروں کو تخت دیا اور نہ انگریزوں کی ایسٹ انڈیا کمپنی کو دیا بلکہ خود رانی بن بیٹھی۔

جنگِ آزادی 1857ء

ترمیم

ابتدا

ترمیم

جیسے کہ جنگ آزادی میں بہت سے ریاستوں نے حصہ لیا جن میں دو بخوبی معلوم ہے ایک مغل سلطنت کے طرف سے بہادر شاہ ظفر اور دوسری جھانسی کی رانی لکشمی بائی۔ جھانسی کی رانی ابتدا سے ہی ایک باہمت خاتون تھی اور انگریزوں کے سامنے انھیں چھٹما دے جاتی تھی۔ وہ کسی ہندوستانی پر ظلم نہیں سہ سکتی تھی اور اگر انگریز ہندوستانی پر ظلم کرتا تو اسے منہ توڑ جواب دیتی تھی۔
تحریک آزادی ابتدائی میں مئی اور جولائی 1857 میں میرٹھ سے شروع ہوئی۔ اصل میں اس تحریک کو اس وقت اصل عرف ملا جب انگریزوں کے فوج میں موجود بے شمار ہندوستانیوں نے گائے اور خنزیر کے چربی والے کارتوس استعمال کرنے سے انکار کر دیا۔ اس وقت انگریزوں کی فوج میں ہندو اور مسلمان دونوں شامل تھے۔ چنانچہ مسلمانوں نے اس لیے انکار کیا کہ وہ خنزیر کو ملعون سمجھتے ہیں اور ہندوؤں نے اس لیے کہ وہ گائے کو بابرکت سمجھتے ہیں۔ لہذا دونوں کو یہ جائز نہ تھا کہ وہ ایسے کارتوس کو استعمال کریں۔

رانی کا ردِ عمل

ترمیم
 
وہ اونچا مقام جہاں سے جھانسی کی رانی اپنے بیٹے انند کو کمر سے باندھے گھوڑے پر جھانسی کے محل سے نیچے چلانگ لگائی۔

رانی لکشمی بائی کی جھانسی پر جب فرنگیوں نے حملہ کیا تو اس میں بہت ہی مشہور واقعات پیش آئے ۔ رانی لکشمی نے اس وقت انگریزوں کا مقابلہ کیا۔ کچھ دن یہ حملہ جاری رہا۔ اس کے باد راؤ دلہاجو نام کا وزیر تھا رانی لکشمی کا، اس کو رانی نے ایک دوار (قلعے کا بڑا گیٹ) پر کھڑا کیا اور اسے یہ ذمہ داری دی گئی کہ اس دوار کا حفاظت کرے،مگر وہ نمک حرامی کر بیٹھا اور انگریزوں کا ساتھ دیا۔ اس دوار کے آس پاس کے تمام فوجیوں کو قلعے کے دوسرے طرف بھیجا اور دوار انگریزوں کے لیے کھولنے لگا اس وقت رانی کی ایک وفادا اور بچپن کی باندھی کاشی نے اسے دوار کھولنے سے روکا تو اسے بھی قتل کر دیا۔ جھانسی کی رانی کو پتہ چلا تو وہ فوراً اس دوار کے طرف بھاگ پڑی انگریزوں کو روکنے مگر تب تک انگریز داخل ہو چکے تھے، رانی کے افواج نے انگریزوں کا مقابلہ کیا مگر انگریزی فوج ،رانی کے فوج سے بیس گنا سے بھی زیادہ تھی،اس لیے اس میں رانی کے پاس بھاگ نکلنے کے علاوہ اور کوئی راہ نہ بچ سکا اور مجبوراً رانی محل سے جانے لگی۔ اس وقت انگریزوں نے انھیں پوری طور پر گھیرلیا تھا،لیکن رانی ایک جانباز تھی وہ محل کے انتہائی بلند ترین مقام سے گھوڑے پر سوار چلانگ لگا ئی اور بھاگ نکلی۔ (اس مقام کا تصویر بائیں طرف موجود ہے)۔
اس کے بعد کچھ دنوں میں رانی نے انگریزوں پر ایک زبردست حملہ کیا اور جھانسی واپس چھین لی۔ پھر رانی در بدر جا جا کہ لوگوں میں انگیزوں کے خلاف آگ پھیلانی لگی۔ اور اسی طر آخر کار جنگ آزاد ہند 1857ء درپیش ہوا۔ جس میں رانی اور ان کے افواج اور کہیں ریاستوں نے حصہ لیا۔

وفات

ترمیم

جنگ جب جنگ آزادی کی تحریک جاری ہوئی۔ تو رانی نے بھی انگریزوں کا سامنا کیا،جنگ کے دوران بے شمار انگریزوں کو موت کی گھاٹ اتارا۔ اس کے بعد اچھانک کسی فوجی نے میدان جنگ میں رانی پر تلوار سے وار کیا جس کے نتیجے میں وہ زخمی ہوئی اور وہ میدان سے ایک بیابان جگہ گئی۔ کہا جاتا ہے کہ وہاں رانی نے ایک بزرگ کو دیکھا اور ان سے کہا کہ وہ لکشمی بائی کو اس طرح جلائے کہ ان کا جسم موت کے بعد بھیانگریزوں کے ہاتھ نہ آئے جیسا زندگی میں کبھی انگریزوں کے ہاتھ نہ آئی۔ اس فقیر نے رانی کو جلایا اور کسی کو خبر بھی نہ ہوئی کے رانی کا جسم کہا گیا۔

وہ اس کام سے انگریزوں کو یہ پیغام دینا چاہتی تھی کہ انگریز نہ تو رانی کو زندگی میں پکڑ سکے اور نہ موت کے بعد۔

اسی طرح رانی کے بدولت ہندوستان میں آزادی کا جذبہ برپا ہو گیا،جس کے نتیجے میں 90 سال بعد آزاد پاکستان اور بھارت وجود میں آیا۔ آج بھی رانی کو بھارت میں ایک ملّی خاتون کا درجہ حاصل ہے۔

مسلمانوں کے ساتھ سلوک

ترمیم

رانی کا مسلمانوں کے ساتھ اچھے سلو کے ساتھ ساتھ بہت محبت بھی تھا۔ رانی مسلمان اور ہندوں کو برابر سمجھتی تھی اور ان کو یکستاں حقوق دیتی تھی،یہی وجہ تھی کہ مسلمانوں کے دلوں میں بھی رانی نے ایک مقام پیدا کیا تھا۔ وہ مسلمانوں کو مساجد وغیرہ کے لیے زمینے بھی دیتی تھی۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. https://pantheon.world/profile/person/Rani_of_Jhansi — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  2. Encyclopædia Britannica — اخذ شدہ بتاریخ: 13 نومبر 2019
  3. Encyclopædia Britannica — اخذ شدہ بتاریخ: 18 جون 2022
  4. ^ ا ب https://www.britannica.com/biography/Lakshmi-Bai
  5. http://www.copsey-family.org/~allenc/lakshmibai/timeline.html — اخذ شدہ بتاریخ: 2 مارچ 2018