حسام الحرمین
حسام الحرمین مولانا احمد رضا خان کا مرتب کردہ ایک سوالنامہ اور اس پر حرمین شریفین کے مختلف فقہی مکاتب فکر کے سنی علما کا فتویٰ کفر ہے۔ یہ فتوی 1906ء میں مولانا احمد رضا خان نے عربی و اردو میں شائع کرایا۔ اس میں مرزا غلام احمد بانی جماعت احمدیہ، اشرف علی تھانوی، محمد قاسم نانوتوی، رشید احمد گنگوہی، خلیل احمد انبہٹوی کی مختلف کتب کی عبارات کو بطور گستاخی پیش کر کے ان پر حکم شرع طلب کیا گیا تھا،[1][2][3][4] جس پر علمائے مکہ و مدینہ نے حکم کفر جاری کیا اور تصدیقات و تقاریظ لکھیں۔ اس پر بعد میں برصغیر کے 268 علما نے بھی دستخط کیے۔ یہ کتاب چھپنے کے بعد برصغیر میں دیوبندی و بریلوی کی تخصیص شروع ہوئی، جس نے بعد میں دو مکتب فکر دیوبندی اور بریلوی مکتب فکر کو جنم دیا۔ اس کے بعد حسین احمد مدنی نے اور دیگر علمائے دیوبند نے اپنی صفائی میں مل کر ایک کتابچہ مرتب کیا، جس میں اپنے عقائد کا خلاصہ دیا اور اسے حرمین کے بعض علما سے تصدیق کرایا، دیوبندیوں کا موقف تھا کہ مولانا احمد رضا خان نے عرب علما کے سامنے ان کے عقائد کو غلط طور پر پیش کیا ہے مگر بریلوی علما نے اسے قبول نہ کیا، کیوں کہ ان کا اعتراض تھا کہ جن عبارات پر ہم نے فتویٰ لیا ہے، تم ان سے رجوع کرو۔
حسام الحرمین | |
---|---|
(عربی میں: حسام الحرمین علی منحر الکفر والمین) | |
مصنف | احمد رضا خان |
اصل زبان | عربی ، اردو |
ملک | برطانوی ہند |
موضوع | فتوی |
ادبی صنف | نثر |
ناشر | مکتبۃ المدینہ |
تاریخ اشاعت | 1906 |
صفحات | 34 اردو |
درستی - ترمیم |
پس منظر
ترمیماگرچہ مولانا احمد رضا خان نے مختلف جماعتوں کے تیئں اپنی شدید تنقید و اختلاف کا اظہار کر چکے تھے، جن میں اثناعشری شیعہ اور ندوہ العلما دونوں شامل تھے، تاہم جہاں تک تکفیر کی بات ہے تو باضابطہ طور پر 1902ء میں اور پھر 1906ء میں حسام الحرمین لکھ کر انھوں نے بعض مخصوص اشخاص کی تکفیر کی۔ اس وقت تک انھوں نے مختلف مسل مجماعتوں کو بدمذہب، گمراہ، مرتد ہی کہا تھا، ان کی صراحتا تکفیر نہیں کی تھی۔ جس کی وجہ ان کی اپنی تصریح کے مطابق، ان جماعتوں (یا افراد) کی طرف سے ضروریات دین کا انکار تھا، اگرچہ انھوں نے اس مدت کے دوران میں بسا اوقات کافر کی اصطلاح استعمال کی تھی لیکن کسی متعین شخص کے لیے اس کا استعمال نہیں کیا تھا یا دوسرے لفظوں میں متعین طور پر کسی کی تکفیر نہیں کی تھی۔
اس اعتبار سے حسام الحرمین میں مذکور علما پر فتوی کفر کی اہمیت تھی۔ انھوں نے تکفیر کا یہ فتوی لکھ کر علمائے حرمین کی تصدیقات کے حصول کے لیے ان کے سامنے پیش کیا اور انھوں نے ان کے نقطۂ نظر پر مہر تصدیق لگا دی۔ 1906ء میں اپنے دوسرے حج کے دوران میں حسام الحرمین لکھ کر کفر کا جو فتوی مولانا احمد رضا خان نے نے صادر کیا تھا، اس کی نوعیت خالص عوامی تھی۔[5]
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ↑ "Trysts with Democracy"۔ google.co.in۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 دسمبر 2015
- ↑ "Muslimischer Nationalismus, Fundamentalismus und Widerstand in Pakistan"۔ google.co.in۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 دسمبر 2015
- ↑ اوشا سانیال برطانوی ہندوستان میں عقیدت پر مبنی اسلام اور سیاست (اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان اور ان کی تحریک 1870ء - 1921ء)
- ↑ "آرکائیو کاپی" (PDF)۔ 17 مارچ 2016 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 دسمبر 2015
- ↑ اوشا سانیال (2018ء)۔ برطانوی ہندوستان میں عقیدت پر مبنی اسلام اور سیاست (اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان اور ان کی تحریک 1870ء - 1921ء)۔ لاہور: کتاب محل۔ صفحہ: 256-257