حم السجدہ

قرآن مجید کی 41 ویں سورت

قرآن مجید کی 41 ویں سورت جو سورۂ فُصِّلَت بھی کہلاتی ہے۔ اس میں 54 آیات اور 6 رکوع ہیں۔

  سورۃ 41 - قرآن  
سورة فصلت
Sūrat Fuṣṣilat
سورت فصلت
----

عربی متن · audio speaker iconصوتی ·انگریزی ترجمہ


دور نزولمکی
متبادل نام (عربی)سورة ﺣﻢ ﺍﻟﺴﺠﺪﺓ
دیگر نام (انگریزی)Revelations Well Expounded, Distinguished, Clearly Spelled Out
عددِ پارہ24, 25 واں پارہ
اعداد و شمار6 رکوع, 54 آیات

نام

اس سورت کا نام دو لفظوں سے مرکب ہے ایک حٰم دوسرے السجدہ مطلب یہ ہے کہ وہ سورت جس کا آغاز حٰم سے ہوتا ہے اور جس میں ایک مقام پر آیت سجدہ آئی ہے۔

زمانۂ نزول

معتبر روایات کی رو سے اس کا زمانۂ نزول حضرت حمزہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کے ایمان لانے کے بعد اور حضرت عمر رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کے ایمان لانے سے پہلے ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے قدیم ترین سیرت نگار محمد بن اسحاق نے مشہور تابعی محمد بن کعب القرظی کے حوالے سے یہ قصہ نقل کیا ہے کہ ایک دفعہ قریش کے کچھ سردار مسجد حرام میں محفل جمائے بیٹھے تھے اور مسجد کے ایک دوسرے گوشے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تنہا تشریف رکھتے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب حضرت حمزہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ ایمان لا چکے تھے اور قریش کے لوگ مسلمانوں کی جمعیت میں روز افزوں اضافہ دیکھ دیکھ کر پریشان ہو رہے تھے۔ اس موق پر عنبہ بن ربیعہ (ابو سفیان کے خسر) نے سرداران قریش سے کہا کہ صاحبو، اگر آپ لوگ پسند کریں تو میں جا کر محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے بات کروں اور ان کے سامنے تجویزیں رکھوں، شایدکہ وہ ان میں سے کسی کو مان لیں اور ہم بھی اسے قبول کر لیں اور اس طرح وہ ہماری مخالفت سے باز آ جائیں۔ سب حاضرین نے اس سے اتفاق کیا اورعتبہ اٹھ کر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس جا بیٹھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس کی طرف متوجہ ہوئے تو اس نے کہا "بھتیجے! تم اپنی قوم میں اپنے نسب اور خاندان کے اعتبار سے جو حیثیت رکھتے ہو وہ تمھیں معلوم ہے۔ مگر تم اپنی قوم پر ایک بڑی مصیبت لے آئے ہو۔ تم نے جماعت میں تفرقہ ڈال دیا ہے۔ ساری قوم کو بے وقوف ٹھیرایا۔ قوم کے دین اور ان کے معبودوں کی برائی کی اور ایسی باتیں کرنے لگے جن کے معنی ہیں کہ ہم سب کے باپ دادا کافر تھے۔ اب ذرا میری بات سنو میں کچھ تجویزیں تمھارے سامنے رکھتا ہوں ان پر غور کرو شاید کہ ان میں سے کسی کو تم قبول کر لو"۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا "ابو الولید، آپ کہیں، میں سنوں گا"۔ اس نے کہا"بھتیجے! یہ کام جو تم نے شروع کیا ہے، اس سے اگر تمھارا مقصد مال حاصل کرنا ہے تو ہم سب مل کر تم کو اتنا کچھ دیے دیتے ہیں کہ تم ہم میں سب سے زیادہ مالدار ہو جاؤ۔ اگر اس سے اپنی بڑائی چاہتے ہو تو ہم تمھیں اپنا سردار بنا لیتے ہیں، کسی معاملے کا فیصلہ تمھارے بغیر نہ کریں گے۔ اگر بادشاہی چاہتے ہو تو ہم تمھیں اپنا بادشاہ بنا لیتے ہیں اور اگر تم پر کوئی جن آتا ہے جسے تم خود رفع کرنے پر قادر نہیں ہو تو ہم بہترین اطباء بلواتے ہیں اور اپنے خرچ پر تمھارا علاج کراتے ہیں"۔ عتبہ باتیں کرتا رہا اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خاموش سنتے رہے۔ پھر آپ نے فرمایا "ابو الولید آپ کو جو کچھ کہنا تھا کہہ چکے؟" اس نے کہا "ہاں"۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا "اچھا اب میری بات سنو۔ اس کے بعد آپ نے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھ کر اسی سورت کی تلاوت شروع کی اور عنتبہ اپنے دونوں ہاتھ پیچھے زمین پر ٹیکے سنتا رہا۔ آیت سجدہ (آیت 38) پر پہنچ کر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سجدہ کیا اور پھر سر اٹھا کر فرمایا "اے ابو الولید! میرا جواب آپ نے سن لیا، اب آپ جانیں اور آپ کا کام"۔ عتبہ اٹھ کر سرداران قریش کی مجلس کی طرف چلا تو لوگوں نے دور سے اس کو دیکھتے ہی کہ "خدا کی قسم! عتبہ کا چہرہ بدلا ہوا ہے، یہ وہ صورت نہیں ہے جسے لے کر یہ گیا تھا" پھر جب وہ آ کر بیٹھا تو لوگوں نے کہا: کیا سن آئے اس نے کہا : "بخدا! میں نے ایسا کلام سنا کہ کبھی اس سے پہلے نہ سنا تھا۔ خدا کی قسم! نہ یہ شعر ہے، نہ سحر ہے نہ کہانت۔ اے سرداران قریش! میری بات مانو اور اس شخص کو اس کے حال پر چھوڑ دو۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ کلام کچھ رنگ لا کر رہے گا۔ فرض کرو، اگر عرب اس پر غالب آ گئے تو اپنے بھائی کے خلاف ہاتھ اٹھانے سے تم بچ جاؤ گے اور دوسرے اس سے نمٹ لیں گے۔ لیکن اگر وہ عرب پر غالب آ گیا تو اس کی بادشاہی تمھاری بادشاہی اور اس کی عزت تمھاری عزت ہوگی"۔ سرداران قریش اس کی یہ بات سنتے ہی بول اٹھے "ولید کے ابا! آخر اس کا جادو تم پر بھی چل گیا"۔ عتبہ نے کہا "میری جو رائے تھی میں نے تمھیں بتا دی، اب تمھارا جو جی چاہے کرتے رہو۔[1]

اس قصے کو متعدد محدثین نے حضرت جابر رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ بن عبداللہ سے مختلف طریقوں سے نقل کیا ہے، جن میں تھوڑا بہت لفظی اختلاف ہے۔ ان میں سے بعض روایتوں میں یہ بھی آیا ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تلاوت کرتے ہوئے آیت

اب اگر یہ لوگ منہ موڑتے ہیں تو ان سے کہہ دو کہ میں تمہیں عاد اور ثمود کے عذاب جیسے ایک اچانک ٹوٹ پڑنے والے عذاب سے ڈراتا ہوں

پر پہنچے تو عتبہ نے بے اختیار آپ کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا اور کہا "خدا کے لیے اپنی قوم پر رحم کرو"۔ بعد میں اس نے سرداران قریش کے سامنے اپنے اس فعل کی وجہ یہ بیان کی کہ "آپ لوگ جانتے ہیں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زبان سے جو بات نکلتی ہے پوری ہو کر رہتی ہے۔ اس لی میں ڈر گیا کہ کہیں ہم پر عذاب نہ نازل ہو جائے"۔[2][3]

موضوع و مضمون

عتبہ کی اس گفتگو کے جواب میں جو تقریر اللہ تعالٰیٰ کی طرف سے نازل ہوئی، اس میں ان بیہودہ باتوں کی طرف سرے سے کوئی التفات نہ کیا گیا جو اس نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے کہی تھیں۔ اس لیے کہ جو کچھ اس نے کہا تھا وہ دراصل حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نیت اور آپ کی عقل پر حملہ تھا۔ اس کی ساری باتوں کے پیچھے یہ مفروضہ کام کر رہا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نبی اور قرآن کے وحی ہونے کا تو بہرحال کوئی امکان نہیں ہے، اب لا محالہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اس دعوت کا محرک یا تو مال و دولت اور حکومت و اقتدار حاصل کرنے کا جذبہ ہے یا پھر ،معاذ اللہ، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عقل میں فتور آ گیا ہے۔ پہلی صورت میں وہ آپ سے سودے بازی کرنا چاہتا تھا اور دوسری صورت میں یہ کہہ کر آپ کی توہین کر رہا تھا کہ ہم اپنے خرچ پر آپ کی دیوانگی کا علاج کرائے دیتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس طرح کی بیہودگیوں پر جب مخالفین اتر آئیں تو شریف آدمی کا کام ان کا جواب دینا نہیں ہے بلکہ اس کا کام یہ ہے کہ ان کو قطعی نظر انداز کر کے اپنی جو بات کہنی ہو کہے۔

عتبہ کی باتوں سے صرف نظر کرتے ہوئے اس سورت میں اس مخالفت کو موضوع بنایا گیا ہے جو قرآن مجید کی دعوت کو زک دینے کے لیے کفار مکہ کی طرف سے اس وقت انتہائی ہٹ دھرمی اور بد اخلاقی کے ساتھ کی جا رہی تھی۔ وہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے کہتے تھے، آپ خواہ کچھ کریں ہم آپ کی کوئی بات سن کر نہ دیں گے۔ ہم نے اپنے دلوں پر غلاف چڑھا لیے ہیں، اپنے کان بند کر لیے ہیں، ہمارے اور آپ کے درمیان ایک دیوار حائل ہو گئی ہے جو ہمیں اور آپ کو کبھی ملنے نہ دے گی۔

انھوں نے آپ کو صاف صاف نوٹس دے دیا تھا کہ آپ اپنی اس دعوت کا کام جاری رکھیے، ہم آپ کی مخالفت میں جو کچھ ہم سے ہو سکے گا کریں گے۔

انھوں نے آپ کو زک دینے کے لیے کام کا یہ نقشہ بنایا تھا کہ جب بھی آپ یا آپ کے پیرووں میں سے کوئی عام لوگوں کو قرآن سنانے کی کوشش کرے، فوراً ہنگامہ برپا کر دیا جائے اور اتنا شور مچایا جائے کہ کان پڑی آواز نہ سنائی دے۔

وہ پوری سرگرمی کے ساتھ اس کام میں لگے ہوئے تھے کہ قرآن مجید کی آیات کو الٹے معنی پہنا کر عوام میں طرح طرح کی غلط فہمیاں پھیلائیں۔ بات کچھ کہی جاتی تھی اور وہ اسے بناتے کچھ تھے۔ سیدھی بات میں سے ٹیڑھ نکالتے تھے۔ سیاق و سباق سے الگ کر کے کوئی لفظ کہیں سے اور کوئی فقرہ کہیں سے لے اڑتے اور اس کے ساتھ اپنی طرف سے چار باتیں ملا کر نئے نئے مضامین پیدا کرتے تھے تاکہ قرآن اور اس کے پیش کرنے والے رسول کے متعلق لوگوں کی رائے خراب کی جائے۔

عجیب عجیب قسم کے اعتراضات جڑتے تھے جن کا ایک نمونہ اس سورت میں پیش کیا گیا ہے۔ کہتے تھے کہ ایک عرب اگر عربی زبان میں کوئی کلام سناتا ہے تو اس میں معجزے کی کیا بات ہوئی؟ عربی تو اس کی مادری زبان ہے۔ اپنی مادری زبان میں جس کا جی چاہے ایک کلام تصنیف کرے اور دعویٰ کر دے کہ وہ اس پر خدا کی طرف سے نازل ہوا ہے۔ معجزہ تو جب ہوتا کہ یہ شخص کسی دوسری زبان میں، جسے یہ نہیں جانتا، یکا یک اٹھ کر ایک فصیح و بلیغ تقریر کر ڈالتا۔ تب یہ سمجھا جا سکتا تھا کہ یہ اس کا اپنا کلام نہیں ہے بلکہ اوپر کہیں سے اس پر نازل ہو رہا ہے۔

اس اندھی اور بہری مخالفت کے جواب میں جو کچھ فرمایا گیا ہے اس کا ماحصل یہ ہے :

  1. یہ خدا ہی کا ناول کردہ کلام ہے اور عربی زبان ہی میں ہے۔ جو حقیقتیں اس میں صاف صاف کھول کر بیان کی گئی ہیں، جاہل لوگ ان کے اندر علم کی کوئی روشنی نہیں پاتے، مگر سمجھ بوجھ رکھنے والے اس روشنی کو دیکھ بھی رہے ہیں اور اس سے فائدہ بھی اٹھا رہے ہیں۔ یہ تو خدا کی رحمت ہے کہ اس نے انسان کی رہنمائی کے لیے یہ کلام نازل کیا۔ کوئی اسے زحمت سمجھتا ہے تو یہ اس کی اپنی بد نصیبی ہے۔ خوشخبری ہے ان لوگوں کے لیے جو اس سے فائدہ اٹھائیں اور ڈرنا چاہیے ان لوگوں کو جو اس سے منہ موڑ لیں۔
  2. تم نے اگر اپنے دلوں پر غلاف چڑھا لیے ہیں اور اپنے کان بہرے کر لیے ہیں تو نبی کے سپرد یہ کام نہیں کیا گیا کہ جو نہیں سننا چاہتا اسے سنائے اور جو نہیں سمجھنا چاہتا اس کے دل میں زبردستی اپنی بات اتارے۔ وہ تو تمھارے ہی جیسا ایک انسان ہے۔ سننے والوں ہی کو سنا سکتا ہے اور سمجھنے والوں ہی کو سمجھا سکتا ہے۔
  3. تم چاہے اپنی آنکھیں اور کان بند کرلو اور اپنے دلوں پر غلاف چڑھا لو، مگر حقیقت یہی ہے کہ تمھارا خدا بس ایک ہی ہے اور تم کسی دوسرے کے بندے نہیں ہو۔ تمھاری ضد سے یہ حقیقت بہرحال نہیں بدل سکتی۔ مان لو گے اور اس کے مطابق اپنا عمل درست کر لو گے تو اپنا ہی بھلا کرو گے۔ نہ مانو گے تو خود ہی تباہی سے دو چار ہو گے۔
  4. تمھیں کچھ احساس بھی ہے کہ یہ شرک اور کفر تم کس کے ساتھ کر رہے ہو؟ اس خدا کے ساتھ جس نے یہ اتھاہ کائنات بنائی ہے، جو زمین و آسمان کا خالق ہے، جس کی پیدا کی ہوئی برکتوں سے اس زمین میں تم فائدہ اٹھا رہے ہو اور جس کے مہیا کیے ہوئے رزق پر تم پل رہے ہو۔ اس کا شریک تم اس کی حقیر مخلوقات کو بناتے ہو اور سمجھانے کی کوشش کی جاتی ہے تو ضد میں آ کر منہ موڑتے ہو۔
  5. اچھا، نہیں مانتے تو خبردار ہو جاؤ کہ تم پر اسی طرح کا عذاب اچانک ٹوٹ پڑنے کے لیے تیار ہے جیسا عاد اور ثمود پر آیا تھا۔ اور یہ عذاب تمھارے جرم کی آخری سزا نہ ہوگا بلکہ آگے میدانِ حشر کی باز پرس اور جہنم کی آگ ہے۔
  6. بڑا ہی بدقسمت ہے وہ انسان جس کے ساتھ ایسے شیاطین جن و انس لگ جائیں جو اسے ہر طرف ہرا ہی ہرا دکھاتے رہیں۔ اس کی حماقتوں کو اس کے سامنے خوشنما بنا کر پیش کریں اور اسے کبھی نہ خود صحیح بات سوچنے دیں، نہ کسی دوسرے سے سننے دیں۔ اس طرح کے نادان لوگ آج تو یہاں ایک دوسرے کو بڑھاوے چڑھاوے دے رہے ہیں اور ہر ایک دوسرے کی شہ پا کر نہلے پر دہلا مار رہا ہے، مگر قیامت کے روز جب شامت آئے گی تو ان میں سے ہر ایک کہے گا کہ جن لوگوں نے مجھے بہکایا تھا وہ میرے ہاتھ لگ جائیں تو انھیں پاؤں تلے روند ڈالو۔
  7. یہ قرآن ایک اٹل کتاب ہے، اسے تم اپنی گھٹیا چالوں اور اپنے جھوٹ کے ہتھیاروں سے شکست نہیں دے سکتے۔ باطل خواہ سامنے سے آئے یا درپردہ اور بالواسطہ حملہ آور ہو،اسے زک دینے میں کبھی کامیاب نہ ہو سکے گا۔
  8. آج تمھاری اپنی زبان میں یہ قرآن پیش کیا جا رہا ہے تاکہ تم اسے سمجھ سکو تو تم کہتے ہو کہ یہ کسی عجمی زبان میں آنا چاہیے تھا۔ لیکن اگر ہم تمھاری ہدایت کے لیے عجمی زبان میں اسے بھیجتے تو تم ہی لوگ کہتے کہ یہ بھی عجیب مذاق ہے، عرب قوم کی ہدایت کے لیے عجمی زبان میں کلام فرمایا جا رہا ہے جسے یہاں کوئی نہیں سمجھتا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ تمھیں دراصل ہدایت مطلوب ہی نہیں ہے۔ نہ ماننے کے لیے نت نئے بہانے تراش رہے ہو۔
  9. کبھی تم نے یہ بھی سوچا کہ اگر فی الواقع حقیقت یہی نکلی کہ یہ قرآن خدا کی طرف سے ہے تو اس کا انکار کر کے اور اس کی مخالفت میں اتنی دور تک جا کر تم کس انجام سے دو چار ہو گے۔
  10. آج تم نہیں مان رہے ہو، مگر عنقریب تم اپنی آنکھوں سے دیکھ لو گے کہ اس قرآن کی دعوت تمام آفاق پر چھا گئی ہے اور تم خود اس سے مغلوب ہو چکے ہو اس وقت تمھیں پتہ چل جائے گا کہ جو کچھ تم سے کہا جا رہا تھا، وہ حق تھا۔

مخالفین کو یہ جوابات دینے کے ساتھ ان مسائل کی طرف بھی توجہ فرمائی گئی ہے جو اس شدید مزاحمت کے ماحول میں اہل ایمان کو اور خود نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو درپیش تھے۔ ایمان لانے والوں کے لیے اس وقت تبلیغ کرنا تو درکنار، ایمان کر راستے پر قائم رہنا بھی سخت دشوار ہو رہا تھا اور ہر اس شخص کی جان عذاب میں آ جاتی تھی جس کے متعلق یہ ظاہر ہو جاتا تھا کہ وہ مسلمان ہو گیا ہے۔ دشمنوں کی خوفناک جتھہ بندی اور ہر طرف چھائی ہوئی طاقت کے مقابلے میں وہ اپنے آپ کو بالکل بے بس اور بے یار و مددگار محسوس کر رہے تھے۔ اس حالت میں اول تو یہ کہہ کر ان کی ہمت بندھائی گئی کہ تم حقیقت میں بے یار و مددگار نہیں ہو، بلکہ جو شخص بھی ایک دفعہ خدا کو اپنا رب مان کر اس عقیدے اور مسلک پر مضبوطی کے ساتھ جم جاتا ہے، خدا کے فرشتے اس پر نازل ہوتے ہیں اور دنیا سے لے کر آخرت تک اس کا ساتھ دیتے ہیں۔ پھر یہ فرما کر ان کا حوصلہ بڑھایا گیا کہ بہترین ہے وہ انسان جو خود نیک عمل کرے، دوسروں کو خدا کی طرف بلائے اور ڈٹ کر کہے کہ میں مسلمان ہوں۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سامنے اس وقت جو سوال سخت پریشان کن بنا ہوا تھا وہ یہ تھا کہ جب اس دعوت کی راہ میں ایسے سنگِ گراں حائل ہیں تو ان چٹانوں سے تبلیغ کا راستہ آخر کیسے نکالا جائے؟ اس سوال کا حل آپ کو یہ بتایا گیا کہ یہ نمائشی چٹانیں بظاہر بڑی سخت نظر آتی ہیں، مگر اخلاق حسنہ کا ہتھیار وہ ہتھیار ہے جو انھیں توڑ کر اور پگھلا کر رکھ دے گا۔ صبر کر ساتھ اس سے کام لو اور جب کبھی شیطان اشتعال دلا کر کسی دوسرے ہتھیار سے کام لینے پر اکسائے تو خدا سے پناہ مانگو۔

حوالہ جات

  1. ابن ہشام، جلد اول، صفحہ 313، 314
  2. تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو تفسیر ابن کثیر جلد 4، صفحہ 90، 91
  3. البدایہ والنہایہ جلد 3 صفحہ 62