"مخدوم عبد الرشید حقانی" کے نسخوں کے درمیان فرق
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م خودکار: ویکائی > سلطان العارفین، سلسلہ قادریہ، عالم اسلام، ربیع الاول، عبد الرشید، دیہی علاقہ، طرز تعمیر، محمد یوسف، جامع مسجد، تاج الدین، آواز دوست، رکن الدین، محمد شاہ، عالم دین، شاہ حسین، سہ پہر |
Shuaib-bot (تبادلۂ خیال) کی جانب سے کی گئی 3480741 ویں ترمیم رد کر دی گئی ہے۔ (ٹیگ: رد ترمیم) |
||
سطر 18:
}}
'''سلطان العارفین حضرت مخدوم
== ولادت ==
آپ 15
== نسب ==
آپ والد کی طرف سے [[سادات]] [[ہاشمی]] اور والدہ کی جانب سے [[سادات]] حسنی ہیں۔
== ابتدائی تعلیم و تربیت ==
حضرت مخدوم عبد الرشید حقانی نے خالص علمی و روحانی اور صوفیانہ ماحول میں آنکھ کھولی اور بہت کم عمری میں مروجہ علوم کے مراحل طے کیے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے دادا مخدوم کمال الدین علی شاہ خوارزمی کے قائم کردہ مدرسہ میں اپنے دادا اور والد حضرت مخدوم سید وحید الدین احمد غوث کے زیر سایہ کوٹ کروڑ میں ہی حاصل کی اور 15 سال کی عمر میں قرآن پاک کا حفظ مکمل کر لیا۔ بعد ازاں آپ نے ملتان کا رخ کیا جو اس وقت
== شجرہ طریقت ==
سطر 51:
== خاندانی پس و منظر ==
'''مخدوم عبد الرشید حقانی''' کے آبا ؤ اجداد [[بنو ہاشم]] سے تعلق رکھتے تھے، آپ کے خاندان کے ایک بزرگ حضرت امیر
مخدوم کمال الدین علی شاہ کو تاریخ میں وہ کمال حاصل ہے جو پوری تاریخ میں شاید ہی کسی حاصل ہو کیونکہ آپکے فرزند اکبر سے
== بیعت و خلافت ==
سطر 77:
* مخدوم محمد سعید الدین (المعروف شیخ سادن شہید)
* مخدوم محمد فقیر علی شاہ (المعروف پیر ملا فقیر)
* بی بی مخدومہ رشیدہ خاتون (زوجہ شیخ السلام مخدوم بہاؤالدین زکریا، والدہ ماجدہ مخدوم صدر الدین عارف، دادی سید شاہ
* بی بی مخدومہ بصراں
== قرامطیوں کے خلاف تحریک ==
ابو محمد مشتاق عکس و تحریر کے مقالہ ''مخدوم عبد الرشید حقانی رحمتہ اللہ'' میں لکھتے ہیں، یہ اس دور کی بات ہے کہ جب مخدوم عبد الرشید حقانی [[کوٹ کروڑ]] میں جہاں فرائض سلطنت نبھا رہے تھے وہاں اپنے آباؤ اجداد کی طرح علم و عمل کے ذریعے دین اسلام کی اشاعت و تبلیغ میں پوری طرح مصروف تھے یہی وجہ ہے کہ اس دور میں [[کوٹ کروڑ]] میں [[قرامطہ]] اثرات نہ پھیل سکے۔ یہ حقیقت ہے کہ مخدوم عبد الرشید حقانی کی موجودگی میں قرامطیوں کو اپنے عقائد و نظریات کی اشاعت کا موقع نہ مل سکا البتہ [[ملتان]] میں قرامطیوں نے اپنے مذہب کی خوب اشاعت کی اس لیے [[ملتان]] کے گرد و نواح اور
== برصغیر کی پہلی اقامتی درس گاہ کا قیام ==
قرامطیوں سے نمٹنے کے بعد مخدوم حقانی نے ملتان سے جانب مشرق 28 کلومیٹر کے فاصلے پر ابو الفتح مڑل سے قطعہ اراضی خرید کر جنگل و بیابان میں ایک مسجد اور دینی و اخلاقی درس گاہ کی بنیاد رکھی جسے برصغیر میں پہلی اقامتی درس گاہ ہونے کا اعزاز و شرف عطا ہوا۔ (پہلے یہاں نرسنگ پسرایسر دیو کا ستھان تھا) اس درس گاہ کا مقصد علمائے حق و مبلغین اسلام اور صوفیائے کرام کی ایک ایسی جماعت کی آبیاری کرنا تھی جو لوگوں کی اخلاقی و نظریاتی روحانی ودینی تربیت کرنے کی صلاحیت سے بہرہ ور ہو، یہ درس گاہ جلد ہی اقامتی یونیورسٹی کی حیثیت اختیار کر گئی۔ اسی درس گاہ میں علوم دنیاوی کے ساتھ ساتھ علوم دینی فلسفہ و منطق معقولات و منقولات کا علم بھی سکھایا اور پڑھایا جاتا تھا۔ نہایت قلیل عرصہ میں مخدوم حقانی کے علم و رشد اور فقر ولایت کا چرچا چہار دانگ عالم میں پھیل گیا۔ اکناف عالم سے سعید روحیں کھچ کھچا کر یہاں جمع ہونے لگیں حتیٰ کہ قال ﷲ و قال الرسول ﷲ سے ملتان کے در و دیوار گونجنے لگے۔ آپ کی مجلس میں علماءمشائخ جمع ہوا کرتے تھے۔ ایک بار ایسا ہوا آپ کی مجلس میں علمائے مشائخ کی ایک جماعت بحث و مناظرہ میں سرگرم تھی حتیٰ کہ
== روایت گنج شکر ==
سطر 92:
[[لال شہباز قلندر]] مجزوبانہ اور قلندرانہ طریقہ اختیار کرتے تھے، ملتان کے قاضی کاشانی جو خود بھی عالم تھے لیکن قلندرانہ طریقے کو پسند نہیں فرماتے تھے نے لال شہباز قلندر پر فتوی جاری کر دیا، لال شہباز قلندر جو اس وقت ملتان کے قریب کسی گاؤں میں موجود تھے، آپ کے کسی مرید نے آپ کو قاضی صاحب کے فتوی سے آگاہ کیا تو آپ بڑے غضبناک ہوئے اور اپنے مریدوں کے ساتھ [[ملتان]] کی طرف چل دے۔ شیخ السلام مخدوم بہاؤ الدین زکریا کو کسی نے اطلاع دی کے [[لال شہباز قلندر]] نامی کوئی بزرگ قاضی کے فتوی کو سن کر غضبناک ہو کر [[ملتان]] تشریف لا رہے ہیں، مخدوم بہاؤ الدین زکریا نے کسی سے کہا کے انھیں ہماری محفل میں لے آو، اس وقت اس محفل میں مخدوم عبد الرشید حقانی بھی موجود تھے۔ آپ نے اپنے بیٹے مخدوم محمد حسن سے کہا کے جاؤ اور قلندر کو احترام سے ہمارے پاس لے آؤ، جب قلندر خانقاہ پر پہنچے تو عظیم بزرگ ہستیوں کی موجودگی میں اپنا غصہ بھول بیٹھے۔ لال شہباز قلندر اور مخدوم حقانی ایک دوسرے سے بڑے اخلاق اور پیار سے پیش آئے۔
== وصال ==
مخدوم حقانی نے عمر کے آخری حصے میں گوشہ نشینی اختیار کرلی تھی اور ہم وقت یاد الٰہی میں مصروف رہتے اور مریدین سے بھی صرف خاص اوقات میں ملاقات فرماتے۔ ایک دن آپ اپنے حجرے میں یاد الہی میں مصروف تھے، تو ایک نورانی چہرے والے ایک بزرگ ہاتھ میں ایک پھول لیے آپ کے حجرے کے باہر تشریف لائے اور حجرے کے باہر آپ کے پوتے مخدوم سید [[مخدوم سلطان ایوب قتال]] سے مخاطب ہو کر کہا کے یہ پھول حضرت کی خدمت میں پیش کردو، مخدوم سید [[مخدوم سلطان ایوب قتال]] پہلے تو ہچکچائے اور اس کے بعد وہ پھول لے کر اپنے دادا کی خدمات میں حاضر ہوئے اور سارا ماجرا سنایا۔ مخدوم حقانی نے اس پھول کو سونگھا اور اشارہ سمجھ گئے کہ پروردگار کا بلاوا آگیا ہے۔ آپ نے دو رکعت نفل پڑھی اور آخری سجدے میں (بالآخر 669 ھ)
== جامع مسجد حقانی ==
آپ کے مزار کے ساتھ ہی ایک نہایت عالیشان
== کراماتی چشمہ ==
سطر 112:
* انوار غوثیہ از مخدوم حسن بخش ، جلد اول(1909ء) صفحہ 163۔
*مکاشفتہ الطریقت ملفوظ نوابیہ (شجرہ اولاد حضرت شاہ وحید الدین احمد غوث رحمتہ الله علیہ، پدر گرامی حضرت مخدوم عبدالرشید حقانی رحمتہ الله علیہ)۔
*روزنامہ امروز ، 13 دسمبر 1980 پروفیسر بشیر احمد ملک (خاندانی پس و منظر کوٹ کروڑ، سلطان
* کتاب حالات مبارکہ "حضرت پیر شاہ موسیٰ نواب رحمتہ اللہ علیہ، جلد اول، صفحہ 2 تا 7۔ (مصنف محمد عبد للہ تونسوی نظامی، رحیم یار خان)۔
* کتاب تذکرہ حالات حضرت مخدوم عبد الرشید حقانی رحمتہ اللہ علیہ، جلد اول، صفحہ 3 تا 5۔ (پبلشر چشتی پرنٹنگ پریس، کراچی)۔
*مقالات مولوی محمد شفیع جلد پنجم صفحہ 138 ، مجلس ترقی ادب لاہور 1981ء (مخدوم کمال الدین علی شاہ خوارزمی رحمتہ الله علیہ)۔
*سید عبدلقادر گیلانی (حیات ۔اثار) تالیف یونس الشیخ ابراہیم السامرانی، (مطبوعہ بغداد) صفحہ 61۔
*سوانح
*منبع البرکات ملفوظ شیخ شمس الدین (بحوالہ ازواج و اولاد)۔
*مسالک السالکین جلد دوم صفحہ 509 بحوالہ خم خانہ تصوف از ڈاکٹر ظہور الحسن شارب ، صفحہ 43، صابری دارالکتب لاہور1980ء۔
*پنجاب گزیٹیر (ملتان ڈسٹرکٹ) کننگھم رپورٹ۔
*مقالات مولوی محمد شفیع ، جلد پنجم مرتب احمد ربانی صفحہ 194۔علانیہ
*نور محمد تھند"تاریخ لیہ" صفحہ 135-
*ابو محمد مشتاق عکس و تحریر مقالہ مخدوم عبد الرشید حقانی علیہ رحمة۔
سطر 134:
[[زمرہ:عرب نسل کی بھارتی شخصیات]]
[[زمرہ:ہندوستانی صوفی اولیا]]
|