"احمد بن حنبل" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
(ٹیگ: ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم)
سطر 129:
== وفات ==
241ھ ربیع الاول میں مرض الموت میں مبتلا ہوئے، تو خلیفہ [[المتوکل علی اللہ|المتوکل]] نے [[ابن ماسویہ]] طبیب کو ان کے علاج کے لیے بھیجا۔ اس نے تشخیص کے بعد تجویز کیا، لیکن وہ علاج کروانے پر آمادہ نہ ہوئے۔ طبیب نے خلیفہ کو یہ رپورٹ پیش کی کہ انہیں کوئی بیماری نہیں ہے، صرف خوراک استعمال نہ کرنے سے کمزوری میں اضافہ ہو رہا ہے، وہ عام طور پر روزے سے ہوتے ہیں اور زیادہ عبادت اور ذکر و اذکار مشغول رہتے ہیں ان کا علاج یہ ہے کہ وہ اچھی خوراک استعمال کریں۔ خلیفہ متوکل طبیب کی یہ بات سن کر خاموش ہو گیا۔ 9 روز طبیعت زیادہ خراب رہی۔<ref>سیرت احمد بن حنبل از عبد الرشید عراقی، ص 60 – 61</ref> وفات سے قبل امام احمد نے وصیت لکھی اور کی بھی۔ جس کے الفاظ یہ تھے:
{{اقتباس|'''شروع اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔ یہ وصیت ہے جو احمد بن حنبل نے کی ہے: وہ اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں، وہی اکیلا ہے اس کی ولایت وعبادت میں کوئی شریک نہیں اور یہ بھی گواہی دیتا ہے کہ محمد اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ جنہیں اللہ نے ہدایت اور دین حق دے کے بھیجا تاکہ وہ اس دین کو تمام مذاہب پر غالب کر دے خواہ مشرکوں کو یہ بات کتنی ہی ناگوار ہو۔ اور میں اپنے اہل اور قرابت داروں کو بھی نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اللہ کی عبادت کریں اس کی حمد و ثنا بیان کریں اور اہل اسلام کی جماعت کی خیر خواہی کریں اور میں اعلان کرتا ہوں کہ میں اللہ تعالیٰ کے رب ہونے پر اور اسلام کے دین ہونے پر اور محمد کے رسول ہونے پر دل و جان سے راضی ہوں۔'''<ref name="حوالہ1"/>}}
وفات سے قبل اپنا وضو کرایا اور ہر حصے کو اچھی طرح دھلوایا۔ پیر کی انگلیوں کا خلال تک کیا۔ درمیان میں اللہ کا ذکر کرتے رہے جب وضو مکمل ہوا تب فوت ہو گئے۔ تاریخ 12 ربیع الاول اور سال 241ھ تھا۔ جمعہ کا دن تھا۔ عمر تقریباً 77 برس تھی۔ تجہیز و تکفین سب کچھ اولاد نے خرید کر کی۔ جنازہ میں 8 لاکھ مرد اور 60 عورتیں شریک ہوئیں<ref>سیرت احمد بن حنبل از عبد الرشید عراقی، ص 61</ref> جن میں اکثریت اہل علم کی تھی۔ علما اس وقت کہا کرتے تھے: بیننا وبین القوم الجنائز (ہمارے اور دوسروں کے درمیان میں جنازے ہی تو فرق کیا کرتے ہیں)۔<ref>ادریس زبیر، فقہ اسلامی ایک تعارف ایک تجزیہ، ص 170 – 171</ref> امیرِ بغداد محمد بن عبد اللہ طاہر نے جنازہ کی نماز پڑھائی۔<ref>طبقات الشافعیہ از تاج الدین السبکی ج 1، ص 203</ref>