"ابو طالب بن عبد المطلب" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م «ابو طالب بن عبد المطلب» کو محفوظ کیا ([ترمیم=محض خود توثیق شدہ صارفین کو اجازت ہے] (اختتام 08:05، 4 دسمبر 2020ء (UTC)) [منتقل=محض خود توثیق شدہ صارفین کو اجازت ہے] (اختتام 08:05، 4 دسمبر 2020ء (UTC)))
غط معلومات کو مستند کتابوں کی دلیل کے ساتھ صحیح کیا گیا
(ٹیگ: حذف حوالہ جات بصری خانہ ترمیم ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم)
سطر 6:
آپ کے والد کا نام [[عبدالمطلب]] اور والدہ کا نام [[فاطمہ بنت عمرو]] تھا۔ آپ حضور {{درود}} کے والد [[عبداللہ بن عبد المطلب]] کے واحد سگے بھائی تھے چونکہ دیگر کی والدہ مختلف تھیں۔<ref name="سیرت ابن ہشام">سیرت ابن ہشام{{مکمل حوالہ درکار}}</ref>
 
== قبولیتِ اسلام و ایمان ==
آپ نے [[اسلام]] قبول نہی کیا تھا. ،لیکن آپ نے تاحیات اشاعت اسلام میں حضور {{درود}} کا ساتھ دیا اور. ان کی [[بت پرستی]] کوئیکی ایکروایات روایتمیں بھیاختلاف نہیںہے ملتیلیکن جبکہکعبہ سیرتمیں ابنموجود ہشام میں انبُتوں کے کلمہوہ پڑھنےساری کازندگی ذکرنگران ہے۔رہے آپاور نےمشرکین حضورکے حج کامیں نکاحمشرکین حضرتکے خدیجہ ع سے کیاطعام اور نکاح پڑھا بھی ۔ {{حوالہ درکار}} عبد المطلبکعبہ کی وفاتدیکھ (578ء)بھال کےکا بعدانتظام انہوں نےآپ ہی حضور {{درود}} کیکے پرورشپاس کی۔تھا۔ آپ کینے تقلیداسلام میںآنے [[ابولہب]]سے کےپہلے سواحضور باقی تمامکا بنونکاح ہاشمحضرت نبیخدیجہ اکرمع صلیسے اللہکیا علیہاور وقبائلی آلہ و سلمرواج کے پشتمطابق پناہنکاح بنےپڑھا، رہےجو اورکہ حضور اکرم {{درود}} کی خاطر بڑی سختیاں جھیلیں۔ [[خدیجہ بنت خویلد]]کسی کے ساتھایمان رسول اللہ {{درود}}لانے کا نکاحثبوت انہوںنہی نےہے.سیدنا ہیمسیب پڑھایابن جسحزن کا آغاز کلمہ بسمرضی اللہ سے ہوا۔<refعنہ name="سیرتبیان ابنکرتے ہشام"/>ہیں:
سیرت ابن ہشام کے مطابق وفات کے قریب آپ نے کلمہ اسلام زبان پر جاری کیا تھا۔<ref name="سیرت ابن ہشام"/> تاہم کئی مؤرخین ان کے قبول اسلام کو مستند نہیں سمجھتے اور رسول اللہ {{درود}} کا نکاح پڑھانے کو قبولیت اسلام کی دلیل نہیں سمجھتے۔<ref>https://www.banuri.edu.pk/readquestion/%D8%A2%D9%BE-%EF%B7%BA-%DA%A9%D8%A7-%D8%AD%D8%B6%D8%B1%D8%AA-%D8%AE%D8%AF%DB%8C%D8%AC%DB%81-%D8%B3%DB%92-%D9%86%DA%A9%D8%A7%D8%AD-%DA%A9%D8%B3-%D8%B4%D8%B1%DB%8C%D8%B9%D8%AA-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D8%B7%D8%A7%D8%A8%D9%82-%DB%81%D9%88%D8%A7/26-11-2018</ref>
ایمان ابو طالب پر علامہ [[صائم چشتی]] اور [[طاہرالقادری|طاہر القادری]] نے بڑے سکہ بند حوالوں کے ساتھ کتابیں تصنیف کی ہیں اور ان اعتراضات کا جواب دیا ہے جو ایمان ابوطالب پر کیے جاتے ہیں۔ دونوں علما مسلک اہل سنت سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کتب کے مطابق عبد المطلب کے دس بیٹے تھے جن میں عبد اللہ آخری نمبر پر تھے اور سب بھائیوں میں بہت زیادہ خوبصورت اور خوب سیرت تھے۔ ان کا انتقال حضور {{درود}} کے ولادت سے پہلے ہی ہو چکا تھا۔ جب ہاشمی خاندان میں آقا {{درود}} کی کفالت کا معاملہ اٹھا تو عبد المطلب نے اپنے تمام بیٹوں کو اپنے سامنے بٹھایا اور ان سب کے دلوں پر روحانی نظر دوڑائی اور ابو طالب کو اپنے پاس بلا کر فرمایا: اے میرے بیٹے میں نے تیرے دل میں اپنے پوتے محمد {{درود}} کی محبت کو دیکھا ہے اس لیے اس کی کفالت تمہارے ذمے ہے اس دن سے ابوطالب نے محمد {{درود}} کو اپنی کفالت میں لے لیا اور آقا {{درود}} کی پرورش شروع کردی۔ آپ کسی بھی وقت اپنے بھتیجے کو اپنے سے الگ نہیں کرتے تھے۔ آپ کی زوجہ [[فاطمہ بنت اسد]] بھی آقا {{درود}} سے والہانہ محبت کرتی تھیں جس کا ثبوت یہ ہے کہ جب ان انتقال ہوا تو محمد {{درود}} ان کو دفن کرنے سے پہلے ان کی قبر مبارک میں لیٹے اور اپنی نورانی چادر ان کے کفن کے ساتھ لپٹا کر ان کو دفن کیا گیا۔ جب آقا {{درود}} کا اس دنیا میں ظہور ہوا تو آقا درود کا نام محمد ({{درود}}) عبد المطلب اور ابو طالب نے تجویز فرمایا جبکہ آقا {{درود}} کا فرمان ہے کہ میرا نام محمد ({{درود}}) عرش معلیٰ پر نور کے ستر ہزار حجابات میں چھپا کر رکھا ہوا تھا۔
 
أَنَّ أَبَا طَالِبٍ لَمَّا حَضَرَتْهُ الوَفَاةُ، دَخَلَ عَلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعِنْدَهُ أَبُو جَهْلٍ، فَقَالَ : أَيْ عَمِّ، قُلْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، كَلِمَةً أُحَاجُّ لَكَ بِهَا عِنْدَ اللَّهِ فَقَالَ أَبُو جَهْلٍ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي أُمَيَّةَ : يَا أَبَا طَالِبٍ، تَرْغَبُ عَنْ مِلَّةِ عَبْدِ المُطَّلِبِ، فَلَمْ يَزَالاَ يُكَلِّمَانِهِ، حَتَّى قَالَ آخِرَ شَيْءٍ كَلَّمَهُمْ بِهِ : عَلَى مِلَّةِ عَبْدِ المُطَّلِبِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : لَأَسْتَغْفِرَنَّ لَكَ، مَا لَمْ أُنْهَ عَنْهُ فَنَزَلَتْ : ﴿مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَنْ يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُرْبَى مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الجَحِيمِ﴾ (التوبة : 113) وَنَزَلَتْ : ﴿إِنَّكَ لاَ تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ﴾ (القصص : 56)
=== ایمان ابوطالب پر اثباتی دلیلیں ===
* اسلام سے پہلے آپ [[دین]] [[ابراہیم علیہ السلام]] پر تھے چنانچہ ان کی بت پرستی کی کوئی ایک روایت بھی نہیں ملتی۔
* آپ نے [[محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم|حضور {{درود}}]] کا نکاح پڑھایا تھا جس کا آغاز کلمہ بسم اللہ سے ہوا تھا۔ اللہ کا نام وہ لوگ استعمال کرتے تھے جو دینِ ابراہیمی پر عمل کرتے تھے۔
* ان کی زوجہ [[فاطمہ بنت اسد]] نے اسلام قبول کیا تو ان کا نکاح فسخ نہ ہوا جبکہ اگر کسی مشرک یا کافر کی زوجہ اسلام قبول کرتی تو اس کی شادی فسخ ہو جاتی۔
* آپ نے [[علی بن ابی طالب]] کو مسلمان ہونے پر کچھ نہ کہا حالانکہ وہ سن و سال میں چھوٹے تھے۔
* آپ کے اشعار جو [[سیرت ابن اسحاق]]، [[سیرت ابن ہشام]]، [[تاریخ الرسل والملوک|تاریخ طبری]] وغیرہ کے علاوہ عربی ادب میں عموماً ملتے ہیں، آپ کے ایمان پر سند ہیں۔
* حضور اکرم {{درود}} اسلام کے عمومی اعلان کے بعد بھی ابو طالب کے دسترخوان پر کھانا کھاتے جبکہ کسی مشرک و کافر کے ساتھ نہ کھاتے۔
* جس سال ابوطالب اور [[خدیجہ بنت خویلد]] کا انتقال ہوا، حضور {{درود}} کو شدید دکھ ہوا اور انہوں نے اس سال کا نام عام الحزن (یعنی غم کا سال) رکھا۔
* ابوطالب نے ہمیشہ حضور {{درود}} کی حفاظت کی یہاں تک کہ ان کے بستر پر بدل بدل کر اپنے بیٹوں خصوصاً حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو سلاتے تاکہ [[قریش]] حضور {{درود}} کو نقصان نہ پہنچا سکیں۔ یہ بھتیجے کی محبت کے علاوہ اسلام سے بھی محبت کا ثبوت ہے کیونکہ بھتیجے کی محبت بیٹوں سے فوقیت نہیں رکھتی۔
* سیرت ابن ہشام و سیرت ابن اسحاق کے مطابق وفات کے وقت ایک [[صحابی]] نے کان لگا کر سنا تو حضور {{درود}} کو کہا کہ خدا کی قسم یہ وہی کلمات کہہ رہے ہیں جو اس سے قبل آپ ان کو کہنے کے لیے کہہ رہے تھے۔ حضور {{درود}} نے انہیں کلمہ پڑھنے کو کہا تھا۔
* سب سے بین دلیل یہ ہے کہ تمام مسلمان دوران نماز جو دورود ابراہیمی پڑھتے ہیں ابوطالب آل ابراہیم سے ہیں۔
* اللّٰہ نے کبھی اپنے انبیا کی پرورش کسی ناپاک شخصیت سے نہیں کروائی اور اسلام کی رو سے کفار ناپاک ہوتے ہیں جبکہ ابو طالب نے تقریبا 42 سال حضور ص کی حفاظت و پرورش کی۔ایمان حضرت ابوطالب ع اور حضرت علی ع
 
”جب ابوطالب کی وفات کا وقت آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لے گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے پاس ابوجہل اور عبداللہ بن ابی امیہ بن المغیرہ کو دیکھا تو فرمایا : اے چچا ! لا اله الا الله کہہ دیں کہ اس کلمے کے ذریعے اللہ کے ہاں آپ کے حق میں گواہی دے سکوں۔ اس پر ابوجہل اور عبداللہ بن ابی امیہ کہنے لگے : اے ابوطالب ! کیا آپ عبدالمطلب کے دین سے منحرف ہو جائیں گے ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسلسل اپنی بات ابوطالب کو پیش کرتے رہے اور بار بار یہ کہتے رہے، حتیٰ کہ ابوطالب نے اپنی آخری بات یوں کی کہ وہ عبدالمطلب کے دین پر ہیں۔ انہوں نے لا اله الا الله کہنے سے انکار کر دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مجھے جب تک روکا نہ گیا، اللہ تعالیٰ سے آپ کے لیے استغفار کرتا رہوں گا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرما دیں : ﴿مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَنْ يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُرْبَى مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الجَحِيمِ﴾ (التوبة : 113) ”نبی اور مؤمنوں کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ مشرکین کے لیے استغفار کریں، اگرچہ وہ قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں، اس کے بعد کہ انہیں ان کے جہنمی ہونے کا واضح علم ہو جائے۔“
١.حضرت امام حسین ع سے روایت ہے کہ میرے والد حضرت علی ع رحبہ میں تشریف فرما تھے اور لوگ آپ ع کے اردگرد بیٹھے ہوئے تھے ایک شخص نے اٹھ کر امام ع سے یوں خطاب کیا
 
اے امیرالمومنین ع آپ ع اس وقت اس مرتبے اور مقام پر ہیں جو اللہ نے آپ ع کو عنایت کیا ہے جبکہ آپکا باپ (نعوذباللہ) دوزخ کے عذاب میں گرفتار ہے
 
امام ع نے جواب دیا ایسا کہنے سے باز رہ خدا تیرا منہ توڑے مجھے قسم ہے اس کی جس نے حضرت محمد ع کو حق کے ساتھ معبوث فرمایا اگر میرا باپ دنیا کے تمام گناہ گاروں کی شفاعت کرے تو اللہ اس کی شفاعت قبول کرے گا کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ میرا باپ تو دوزخ کے عذاب میں گرفتار ہو اور میں اس کا بیٹا ہو کر دوسروں میں بہشت اوروزخ تقسیم کروں ؟ مجھے قسم ہے اس کی جس نے حضرت محمد ع کو حق کے ساتھ معبوث کیا قیامت کے دن حضرت ابوطالب ع کا نور اپنی چمک سے دوسرے لوگوں کے نور کو مات کر دے گا سوائے پانچ اشخاص یعنی حضرت محمد ع حضرت علی ع حضرت فاطمہ ع حضرت حسن ع اور حضرت حسین ع کے نور کے جن میں ائمہ ع مابعد کے انوار بھی شامل ہیں یاد رکھو حضرت ابوطالب ع کا نور ہمارے اس نور سے ہے جسے اللہ نے حضرت آدم ع کی پیدائش سے ہزار ہا سال پہلے تخلیق فرمایا تھا
اللہ تعالیٰ نے ابوطالب کے بارے میں قرآن نازل کرتے ہوئے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا :
 
﴿إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ﴾ (القصص : ٥٦) ”بے شک آپ جسے چاہیں ہدایت نہیں کر سکتے بلکہ اللہ تعالیٰ ہی جسے چاہے ہدایت کرتا ہے۔ ہدایت والوں سے وہی خوب آگاه ہے۔“ ( صحیح البخاری : 3884 )
 
 
یہ حدیث اس بات پر نص ہے کہ ابوطالب کافر تھے۔ وہ ملت عبدالمطلب پر فوت ہوئے۔ انہوں نے مرتے وقت کلمہ پڑھنے سے انکار کر دیا تھا۔ ان کو ہدایت نصیب نہیں ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو ان کے حق میں دعا کرنے سے منع کر دیا تھا۔
 
 
دلیل نمبر 3:
 
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، بیان کرتے ہیں :
 
قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعَمِّهِ: قُلْ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، أَشْهَدُ لَكَ بِهَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ ، قَالَ: لَوْلَا أَنْ تُعَيِّرَنِي قُرَيْشٌ، يَقُولُونَ: إِنَّمَا حَمَلَهُ عَلَى ذَلِكَ الْجَزَعُ لَأَقْرَرْتُ بِهَا عَيْنَكَ، فَأَنْزَلَ اللهُ : ﴿إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ﴾ (۲۸-القصص : ٥٦)
 
  ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا (ابوطالب) سے کہا «لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ» کہہ دیں ۔ میں قیامت کے روز اس کلمے کی وجہ سے آپ کے حق میں گواہی دوں گا ۔ انہوں نے جواب دیا : اگر مجھے قریش یہ طعنہ نہ دیتے کہ موت کی گھبراہٹ نے اسے اس بات پر آمادہ کر دیا ہے تو میں یہ کلمہ پڑھ کر آپ کی آنکھیں ٹھنڈی کر دیتا ۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت مبارکہ نازل فرمائی : ﴿إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ﴾ (۲۸-القصص : ٥٦) ”یقیناً جسے آپ چاہیں ہدایت نہیں دے سکتے ، البتہ جسے اللہ چاہے ہدیات عطا فرمادیتا ہے ۔“ ( صحیح مسلم : 55/1، ح:25)
 
دلیل نمبر 4 :
 
سیدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ نے کہا تھا :
 
مَا أَغْنَيْتَ عَنْ عَمِّكَ فَإِنَّهُ كَانَ يَحُوطُكَ وَيَغْضَبُ لَكَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ : يا رسول الله، هل نفعت أبا طالب بشيء فإنه كان يحوطك ويغضب لك؟ قال: نعم، ھو فی ضحضاح من نار، لولا أنا لكان في الدرك الأسفل من النار
 
”اے اللہ کے رسول ! کیا آپ نے ابو طالب کو کوئی فائدہ دیا – وہ تو آپ کا دفاع کیا کرتے تھے اور آپ کے دوسروں سے غصے ہو جایا کر تے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہاں ! ( میں نے اُنہیں فائُدہ پہنچایا ہے ) وہ اب با لائی طبقے میں ہیں۔ اگر میں نہ ہوتا تو وہ جہنم کے نچلے حصے میں ہو تے۔“ (صحیح البخاری : 548/1، ح : 3883، صحیح المسلم : 115/1۔ ح : 209)
 
 
حا فظ سہیلی رحمہ اللہ (ھ581-508) فرماتے ہیں :
 
وظاھر الحديث يقتضي أن عبدالمطلب مات علي الشرك
 
”اس حدیث کے ظاہری الفاظ اس بات کے متقاضى ہیں کہ عبدالمطلب شرک پر فوت ہوئے تھے۔“ (الروض الانف : 19/4)
 
 
حا فظ ابنِ حجر رحمہ اللہ (733-853ھ) اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں :
 
فھذا شان من مات علي الكفر، فلو كان مات علي التوحيد لنجا من النار أصلا والاحاديث الصححة والاخبار المتكاثرة طاقحة بذلك ”یہ صورتحال تو اس شخص کی ہوتی ہےجو کفر پر فوت ہوا ہو۔ اگر ابوطالب توحید پر فوت ہوتے تو آگ سے مکمل طور پر نجات پا جاتے۔ لیکن بہت سی احادیث و اخبار اس (کفر ابو طالب) سے لبریز ہیں-“ (الاصابته في تميز الصحابته لابن حجر : 241/7)
 
 
 دلیل نمبر 5 :
 
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہا سے روایت ہے :
 
أنه سمع النبي صلى الله عليه وسلم وذكر عنده عمه فقال : ‏‏‏‏ لعله تنفعه شفاعتي يوم القيامة، ‏‏‏‏ فيجعل في ضحضاح من النار يبلغ كعبيه يغلي منه دماغه.
 
انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں آپ کے چچا (ابوطالب) کا ذکر کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”شاید کہ ان کو میری سفارش قیامت کے دن فائدہ دے اور ان کو جہنم کے بالائی طبقے میں رکھا جائے جہاں عذاب صرف ٹخنوں تک ہو اور جس سے (صرف) ان کا دماغ کھولے گا۔“ (صحیح البخاری : 548/1، ح3885، صحیح المسلم : 115/1، ح210)
 
دلیل نمبر6 :
 
سیدنا عبداللہ بن عبا س رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
 
أَهْوَنُ أَهْلِ النَّارِ عَذَابًا أَبُو طَالِبٍ وَهُوَ مُنْتَعِلٌ بِنَعْلَيْنِ يَغْلِي مِنْهُمَا دِمَاغُهُ
 
”جہنمیو ں میں سب سے ہلکے عذاب والے شخص ابو طالب ہوں گے۔ وہ آگ کے جوتے پہنے ہوں گے جن کی وجہ سے اُن کا دماغ کھو ل رہا ہو گا۔“ (صحیح المسلم : ح : 515)
 
دلیل نمبر 7 :
 
خلیفہ راشد سیدنا علی بن طالب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
 
لَمَّا تُوُفِّيَ أَبِي أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ : إِنَّ عَمَّكَ قَدْ تُوُفِّيَ قَالَ : اذْهَبْ فَوَارِهِ ، قُلْتُ : إِنَّهُ مَاتَ مُشْرِكًا، قَالَ : اذْهَبْ فَوَارِهِ وَلَا تُحْدِثَنَّ شَيْئًا حَتَّى تَأْتِيَنِي ، فَفَعَلْتُ ثُمَّ أَتَيْتُهُ فَأَمَرَنِي أَنْ أَغْتَسِلَ
 
”جب میرے والد فوت ہوئے تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خد مت میں حا ضر ہوا اور عرض کی : آپ کے چچا فوت ہو گئے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”جا کر انہیں دفنا دیں۔“ میں نے عرض کی : یقیناً وہ تو مشرک ہونے کی حالت میں فوت ہوئے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”جائیں اور انہیں دفنا دیں، لیکن جب تک میرے پاس واپس نہ آئیں کوئی نیا کام نہ کریں۔“ میں ایسا ہی کیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے غسل کرنے کا حکم فرمایا۔“ (مسند الطيالسي : ص : 19، ح، 120، وسنده‘ حسن متصل )
 
ایک روایت کے الفاظ ہیں :
 
إِنَّ عَمَّكَ الشَّيْخَ الضَّالَّ قَدْ مَاتَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ : ‏‏‏‏ اذْهَبْ فَوَارِ أَبَاكَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ لَا تُحْدِثَنَّ شَيْئًا حَتَّى تَأْتِيَنِي، ‏‏‏‏‏‏فَذَهَبْتُ فَوَارَيْتُهُ، ‏‏‏‏‏‏وَجِئْتُهُ، ‏‏‏‏‏‏فَأَمَرَنِي، ‏‏‏‏‏‏فَاغْتَسَلْتُ وَدَعَا لِي
 
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ آپ کے گمراہ چچا فوت ہو گئے ہیں ان کو کون دفنائے گا؟، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”جائیں اور اپنے والد کو دفنا دیں۔ ( مسند الامام احمد : 97/1، سنن ابي داؤد : 3214، سنن النسائي : 190، 2008، واللفظ لهٗ، وسندهٗ حسن )
 
اس حدیث کو امام ابن خزیمہ (الاصابته في تميز الصحابته لابن حجر : 114/7) اور امام ابنِ جارود رحمہ اللہ علیہم (550ھ) نے ”صحیح“ قرار دیا ہے۔
 
یہ حدیث نص قطعی ہے کہ ابوطالب مسلمان نہیں تھے۔ اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے نماز جنازہ تک نہیں پڑھی۔
 
دلیل نمبر 8:
 
سیدنا اُسامہ رضی اللہ عنہ کا انتہائی واضح بیان ملاحظہ ہو:
 
‏‏‏‏‏‏وَكَانَ عَقِيلٌ وَرِثَ أَبَا طَالِبٍ هُوَ وَطَالِبٌ، ‏‏‏‏‏‏وَلَمْ يَرِثْهُ جَعْفَرٌ وَلَا عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا شَيْئًا لِأَنَّهُمَا كَانَا مُسْلِمَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ عَقِيلٌ وَطَالِبٌ كَافِرَيْنِ (صحیح بخاری 1588)
 
”عقیل اور طالب دونوں ابوطالب کے وارث بنے تھے، لیکن (ابو طالب کے بیٹے) سیدنا جعفر اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اُن کی وراثت سے کچھ بھی نہ لیا کیونکہ وہ دونوں مسلمان تھے جبکہ عقیل اور طالب دونوں کا فر تھے۔“ (صحیح البخاری:1588،صحیح المسلم:33/2،ح:1614مختصراً)
 
یہ روایت بھی بین دلیل ہے کہ ابوطالب کفر کی حا لت میں فوت ہو گئے تھے۔ اسی لئے عقیل اور طالب کے برعکس سیدنا جعفر اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ اُن کے وارث نہیں بنے کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے: لَا يَرِثُ الْمُسْلِمُ الْكَافِرَ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا الْكَافِرُ الْمُسْلِمَ ”نہ مسلمان کافر کا وارث بن سکتا ہے نہ کافر مسلمان کا۔“ (صحیح البخاری:551/2،ح:6764، صحیح المسلم:33/2،ح:1614)
 
امام ابنِ عساکر رحمہ اللہ (499-571ھ) فرماتے ہیں:
 
وقيل : إنهُ أَسلَمَ وَلَا يَصِحٌ إسلامُهُ
 
”ایک قول یہ بھی ہے کہ ابوطالب مسلمان ہو گئے تھے، لیکن ان کا مسلمان ہونا ثابت نہیں ہے۔“ (تاریح ابن عساکر:307/66)
 
ابوطالب کے ایمان لائے بغیر فوت ہونے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت صدمہ ہوا تھا۔ وہ ہقیناً پوری زندگی اسلام دوست رہے۔ اسلام اور پیغمبر اسلام کے لیے وہ ہمیشہ اپنے دل میں ایک نرم گو شہ رکھتے رہے لیکن اللہ کی مرضی کہ وہ اسلام کی دولت سے سرفراز نہ ہو سکے۔ اس لیے ہم اُن کے لیے اپنے دل میں نرم گو شہ رکھنے کے باوجود دُعا گو نہیں ہو سکتے۔
 
حافظ ابنِ کثیر رحمہ اللہ (700-774ھ) ابو طالب کے کفر پر فوت ہونے کے بعد لکھتے ہیں:
 
وَلَوْلَا مَا نَهَانَا اللَّهُ عَنْهُ مِنَ الِاسْتِغْفَارِ لِلْمُشْرِكِينَ، لَاسْتَغْفَرْنَا لابي طَالب وترحمنا عَلَيْهِ ”اگر اللہ تعالیٰ نی ہمیں مشرکین کے لیے استغفار کرنے سے منع نہ فرمایا ہوتا تو ہم ابوطالب کے لیے استغفار کر تے اور اُن کے لیے رحم کی دعا بھی کرتے!“ (سیرةالرسول ابن کثیر:132/2)
 
 
 
 
 
 
 
*
*
*
*
*
*
*
*
*
*
*
*
*
*
*
*
 
*
*
*
*
*
*
*
 
*
*
*
*
*
*
*
*
*
*
*
*
*
*
*
 
*
*
*
*
*
*
*
*
 
*
*
 
٢.حضرت علی ع نے فرمایا
حضرت ابوطالب ع دنیا سے نہیں گئے مگر اس وقت جب رسول ع نے ان سے اپنی خوشنودی ظاہر فرما دی تھی
 
٣.شعبی لکھتا ہے حضرت علی ع نے فرمایا
خدا کی قسم حضرت ابوطالب ع مسلم اور مومن تھے وہ بنی ہاشم کے ساتھ قریش کی دشمنی اور کینہ کے پیش نظر اپنے ایمان کو پوشیدہ رکھتے تھے
 
٤.حضرت علی ع سے پوچھا گیا رسول اکرم ع سے پہلے زمانے کا آخری وصی کون تھا
حضرت علی ع نے جواب دیا میرے والد حضرت ابوطالب ع
 
٥.حضرت علی ع نے فرمایا
خدا کی قسم میرے والد ( حضرت ابوطالب ع)اور میرے دادا حضرت عبدالمطلب ع نیز ہاشم اور عبدمناف نے ہرگز بتوں کی پرستش نہیں کی
آپ ع سے پوچھا گیا پھر یہ چاروں کس کی عبادت کرتے تھے ؟
آپ ع نے فرمایا وہ کعبہ کی طرف منہ کرکے دین ابراہیم ع کے مطابق نماز ادا کرتے تھے
 
کتاب. ابوطالب ع مظلوم تاریخ