لوک مذہب (انگریزی: Folk religion) منظم دین سے الگ مذہب کی ایک قسم ہے جس میں نسلیت کا پہلو غالب ہوتا ہے۔ حالانکہ ماہرین کے مابین اس کی تعریف میں خاصا اختلاف پایا جاتا ہے مگر یہ مذہب کا ہی حصہ ہے۔[1] لوک مذہب کا مطالعہ کو متعلق مگر مابکل مختلف موضوع پر محیط ہے۔ اول یہ کہ لوک مذہب میں لوک کہانی، لوک ثقافت کا کیا عمل دخل ہے۔ اور دوسرا ایک ہی مذہب کے امتزاج ضدین کا مطالعہ ہے مثلاً افریقی لوک عقائد اور کاتھولک کلیسا جن کی وجہ سے وڈوو اور سانتیریہ وجود میں آئے۔ اس کے علاوہ دیگر مذاہب اور ثقافتوں میں امتزاج ضدین کی متعدد مثالین موجود ہیں۔ چینی لوک مذہب، لوک عیسائیت، لوک ہندو مت[ لوک اسلام کچھ ایسی مثالیں ہیں جو اصل مذہب اور بنیادی کڑی سے متعلق ہیں مگر اپنی ایک مستقل شناخت بھی رکھتی ہیں۔ لوک مذہب کا اطلاق ایسے عقائد پر بھی ہوتا ہے جس میں اصل مذہب اور سماج کے طریقے کے ہٹ کر طریقہ عبادت اختیار کیا جاتا ہے اور عموم سے اپنی شناخت الگ رکھی جاتی ہے۔ مثلاً مذہبی شادی، تجہیز و تکفین کے رسوم یا مثلاً عیسائیت میں بچوں کا بپتسمہ کروانا وغیرہ۔[1]

لوک عیسائیت ترمیم

ماہرین اور اسکالر نے لوک عیسائیت کئی طرح سے متعارف کروایا ہے؛ “مفتوح قوم کا عیسائیت پر عمل کرنا“[2] بعض لوگ اسے ‘‘ مسیحی الٰہیات اور غیر الیہات کے مابین مسیحیت کو تقسیم کرنے سے بچانے کے لیے بھی ایک طریقہ بتاتے ہیں۔“[3] مسیحیت پر قوم در قوم جغرافیائی اعتبار سے مختلف طریقوں پر عمل ہوتا ہے۔ ایسے کئی جغیافیائی مسیحی گروہ موجود ہیں۔[4] بعض مسیحیت کا “[5]الہیات یا تاریخ مسیحیت سے کوئی سروکار ہی نہیں ہے۔“[6]

لوک اسلام ترمیم

لوک اسلام ایک بہت ہی جامع لفظ ہے جس میں علاقائی طور منقسم مسلمان شامل ہیں جن کے اسلامی اعمال پر جغرافیائی جھلک صاف دکھائی دیتی ہے۔[7] لوک اسلام کا اطلاق عموما کمزور، غریب، خانہ بدوش اور شہر بدر لوگوں اور قبیلوں کے اسلام سے پتر ہوتا ہے۔[8] اور یہ اصل اسلام یا بنیادی اسلام یا عمومی اسلام سے کچھ حد تک الگ ہے۔[9] تصوف کو لوک اسلام میں شامل کیا جاتا ہے۔ مندرجہ ذیل عقائد لوک اسلام میں تصور کیے جاتے ہیں؛

حوالہ جات ترمیم

  1. ^ ا ب Marion Bowman (2004)۔ "Chapter 1: Phenomenology, Fieldwork, and Folk Religion"۔ $1 میں Steven Sutcliffe۔ Religion: empirical studies۔ Ashgate Publishing, Ltd.۔ صفحہ: 3–4۔ ISBN 978-0-7546-4158-2 
  2. Brown, Peter Robert Lamont (2003)۔ The rise of Western Christendom۔ Wiley-Blackwell, 2003. آئی ایس بی این 0-631-22138-7، p. 341. Last accessed جولائی 2009.
  3. Rock, Stella (2007)۔ Popular religion in Russia۔ Routledge آئی ایس بی این 0-415-31771-1، p. 11. Last accessed جولائی 2009.
  4. Snape, Michael Francis (2003)۔ The Church of England in industrialising society۔ Boydell Press, آئی ایس بی این 1-84383-014-0، p. 45. Last accessed جولائی 2009
  5. Corduan, Winfried (1998)۔ Neighboring faiths: a Christian introduction to world religions۔ InterVarsity Press, آئی ایس بی این 0-8308-1524-4، p. 37. Last accessed جولائی 2009.
  6. Corduan, Winfried (1998)۔ Neighboring faiths: a Christian introduction to world religions۔ InterVarsity Press, آئی ایس بی این 0-8308-1524-4، p. 37. Last accessed جولائی 2009.
  7. Chris Cook (2009)۔ Spirituality and Psychiatry۔ RCPsych Publications۔ صفحہ: 242۔ ISBN 978-1-904671-71-8 
  8. Lloyd Ridgeon (2003)۔ Major World Religions: From Their Origins To The Present۔ روٹلیج۔ صفحہ: 280۔ ISBN 978-0-415-29796-7 
  9. Siniša Malešević، وغیرہ (2007)۔ Ernest Gellner and Contemporary Social Thought۔ Cambridge University Press۔ صفحہ: 189۔ ISBN 978-0-521-70941-5 
  10. Muhammad Khalid Masud، وغیرہ (2009)۔ Islam and Modernity: Key Issues and Debates۔ Edinburgh University Press۔ صفحہ: 138۔ ISBN 978-0-7486-3793-5 
  11. JP Makris (2006)۔ Islam in the Middle East: A Living Tradition۔ Wiley-Blackwell۔ صفحہ: 49۔ ISBN 978-1-4051-1603-9 
  12. Peter J Chelkowski، وغیرہ (1988)۔ Ideology and Power in the Middle East: Studies in Honor of George Lenczowski۔ Duke University Press۔ صفحہ: 286۔ ISBN 978-0-8223-0781-5 
  13. Robert Hinde (2009)۔ Why Gods Persist: A Scientific Approach to Religion۔ روٹلیج۔ صفحہ: 99۔ ISBN 978-0-415-49761-9 
  14. Robert W Hefner، وغیرہ (1997)۔ Islam In an Era of Nation-States: Politics and Religious Renewal in Muslim Southeast Asia۔ University of Hawaii Press۔ صفحہ: 20۔ ISBN 978-0-8248-1957-6 
  15. IK Khan (2006)۔ Islam in Modern Asia۔ MD Publications۔ صفحہ: 281۔ ISBN 978-81-7533-094-8