خالد خورشید

وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان

محمد خالد خورشید پاکستانی قانون دان، رکنِ گلگت بلتستان اسمبلی اور موجودہ وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان ہے[2]۔

خالد خورشید
مناصب
گلگت بلتستان کا وزیر اعلی [1]   ویکی ڈیٹا پر (P39) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
برسر عہدہ
30 نومبر 2020  – 4 جولا‎ئی 2023 
میر افضل  
گلبر خان  
معلومات شخصیت
پیدائش 17 نومبر 1980ء (44 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ضلع استور   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
جماعت پاکستان تحریک انصاف   ویکی ڈیٹا پر (P102) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

ذاتی زندگی اور تعلیم

ترمیم

ایڈوکیٹ خالد خورشید 17 نومبر 1980ء کو ضلع استور کے رٹو گاؤں میں پیدا ہوئے۔ خالد خورشید کا تعلق ضلع استور کی تحصیل شونٹر کے سیاسی گھرانے سے ہے۔ ابتدائی تعلیم پبلک اسکول اینڈ کالج گلگت سے حاصل کرنے کے بعد وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے برطانیہ چلے گئے اور کوئین میری یونیورسٹی آف لندن سے وکالت کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد پاکستان واپس لوٹے۔[3] آپ پبلک اسکول اینڈ کالج گلگت سے میٹرک کرنے کے بعد شہر فیصل آباد چلے گئے جہاں گریجویشن کی تعلیم مکمل کی۔ جبکہ کیون میرے یونیورسٹی آف لندن سے وکالت کی ڈگری حاصل کی۔[4]

عملی زندگی

ترمیم

خالد خوشید کے والد محمد خورشید خان 1970 میں، جب گلگت میں پہلی مرتبہ رائے بالغان کا قانون منظور کیا گیا، گلگت ایڈاوئزری کونسل کے رکن تھے اور بعد میں گلگت کے چیف جج بھی بنے تھے۔ پاکستان تحریک انصاف کے ٹکٹ پر ضلع استور کے حلقہ 13 سے الیکشن جیتنے والے نو منتخب وزیر اعلیٰٰ خالد خورشید نے دو سال قبل ہی پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی تھی۔[3] خالد خورشید نے گلگت بلتستان کے ضلع استور کے حلقہ 13 سے انتخابات میں حصہ لیا تھا، جہاں انھوں نے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے امیدوار عبد الحمید خان کو 1719 ووٹوں سے شکست دی۔ خالد خورشید نے ضلع استور کے حلقے سے 2009 اور 2015 میں آزاد حیثیت سے انتخابات میں حصہ لیا تھا لیکن کامیاب نہیں ہو سکے تھے۔ انھوں نے 2018 میں تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی اور بعد میں گلگت بلتستان کے استور دیامر ڈویژن کے پارٹی صدر منتخب ہوئے۔

[3]

وزارت اعلی

ترمیم

گلگت بلتستان کی قانون ساز اسمبلی کی 23 سیٹوں پر 15 نومبر کو مقابلہ ہوا، جس میں پی ٹی آئی نے نو سیٹوں پر برتری حاصل کی جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی نے تین، مسلم لیگ ن نے دو، جمعیت علمائے اسلام اور متحدہ وحدت المسلمین نے ایک ایک جبکہ سات آزاد امیدوار انتخابات میں کامیاب قرار پائے۔

آزاد امیدواروں میں سے پانچ نے پی ٹی آئی کو سپورٹ کرنے کا فیصلہ کیا جبکہ متحدہ وحدت المسلمین جو ایک سیٹ جیت چکی ہے، نے بھی پی ٹی آئی کی حمایت کا اعلان کیا ہے، جس کے بعد تحریک انصاف نے 15 نشستوں کے ساتھ گلگت بلتستان میں حکومت بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔

پی ٹی آئی کے امیدوار کی وفات کی وجہ سے گلگت بلتستان کی ایک نشست پر انتخابات کو ملتوی کیا گیا ہے۔ اس الیکشن میں کل 330 امیداروں نے 33 سیٹوں پر مقابلے میں حصہ لیا تھا، جن میں سے 24 عام سیٹیں، چھ خواتین کی مخصوص نشستیں اور تین ٹیکنوکریٹس کی سیٹیں ہیں۔

اس الیکشن کو جیتنے کے لیے ملک کی تمام بڑی سیاسی جماعتیں گلگت میں بھرپور انتخابی مہم چلاتی رہیں۔ مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز شریف اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کئی دن تک گلگت میں موجود رہے اور وہاں پر انتخابی جلسوں کا انعقاد کیا۔

اسی طرح پی ٹی آئی نے بھی بھرپور انتخابی مہم چلائی، جس میں پارٹی کے سینئیر عہدے دار بھی شریک رہے۔

اس سے پہلے مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی گلگت میں حکومتیں بنا چکی ہیں جبکہ پی ٹی آئی کی وہاں کی سیاست میں پہلی انٹری ہے، تاہم جس قانون کے تحت یہ الیکشن منعقد ہوئے، اس کا قانون پیپلز پارٹی نے 2009 میں پاس کیا تھا اور وہاں کے عوام کے لیے ایک الگ قانون ساز اسمبلی بنانے کی منظوری دی گئی تھی۔

گلگت بلتستان کے 2015 میں ہونے والے انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ نے 21 سیٹوں پر برتری حاصل کی تھی اور پانچ سال کے لیے بر سر اقتدار رہی تھی جبکہ 2009 میں پہلی مرتبہ پی پی پی نے 20 سیٹوں سے کامیابی حاصل کرکے وہاں حکومت بنائی تھی۔[3]

وزارت کا خاتمہ

ترمیم

عمران خان کی حکومت گرانے کے بعد سے دیگر تحریک انصاف کے رہنماؤں کے ساتھ ساتھ خالد خورشید پر بھی اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے مشکلات کا آغاز کر دیا گیا ۔ دو مئی 2023 کو وزیر اعلیٰ خورشید خالد کو نقض امن کا الزام لگا کر ان کے وزیر اعلیٰ ہاؤس ميں نظر بند کر دیا گیا ۔ [5]

وزیر اعلیٰٰ خالد خورشید کیخلاف تحریک عدم اعتماد اپوزیشن کے 9 اراکین نے جمع کرائی تاکہ حکمران جماعت کی جانب سے اسمبلی تحلیل کرنے کا ممکنہ منصوبہ ناکام بنایا جاسکے۔ [6] ذرائع کے مطابق وزیر اعلیٰٰ خالد خورشید گلگت بلتستان اسمبلی تحلیل کرنے کے حوالے غور کررہا ہے جبکہ وزیر اعلیٰٰ گلگت بلتستان کیخلاف چیف کورٹ میں جعلی ڈگری کیس میں نااہلی کی درخواست پر سماعت بھی جاری ہے [6]

4 جولائی 2023 کو گلگت کی عدالت نے تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے وزیر اعلیٰٰ خالد خورشید کو جعلی ڈگری کیس میں نااہل قرار دیا ہے۔ [7]

حوالہ جات

ترمیم
  1. https://web.archive.org/web/20210411150242/https://www.naibaat.pk/30-Nov-2020/36845 — سے آرکائیو اصل فی 11 اپریل 2021
  2. "آرکائیو کاپی"۔ 08 اگست 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 دسمبر 2020 
  3. ^ ا ب پ ت گلگت بلتستان کے نو منتخب وزیر اعلیٰ خالد خورشید کون ہیں؟(Independent Urdu)
  4. https://www.express.pk/story/2111338/1/
  5. [https://www.facebook.com/watch/?v=925291668588016 وزیر اعلیٰٰ گلگت بلتستان خالد خورشید کو نظر بند کر دیا گیا ], جیو نیوز اردو - فیس بک پیج.
  6. ^ ا ب وزیر اعلیٰٰ گلگت بلتستان خالد خورشید کیخلاف تحریک عدم اعتماد جمع, Samaa News Website.
  7. [https://urdu.geo.tv/latest/333209- جعلی ڈگری کیس: پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے وزیر اعلیٰٰ گلگت بلتستان نااہل قرار ], Geo News Website.