خان محمد گردیزی
آپ کا نام نامی اسم گرامی خان محمد ہے اور آپ خان محمد گردیزی کے نام سے معروف ہیں۔ آپ خواجہ خواجگان نور محمد تیراہی کے دادا ہیں، جو افغانستان کے شہر گردیز سے ڈھوڈاشریف نزد کوہاٹ تشریف لائے۔
خان محمد | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
مقام پیدائش | گردیز |
مقام وفات | ڈھوڈا شریف |
نسل | فاروقی |
مذہب | اسلام |
فقہی مسلک | حنفی |
مکتب فکر | اہل سنت ، ماتریدیہ |
اولاد | خواجہ محمد فیض اللہ تیراہی |
والد | علی محمد |
درستی - ترمیم |
ولادت
ترمیمآپ کی ولادت کی تاریخ تو معلوم نہیں ہو سکی لیکن اندازہ ہے کہ آپ کی ولادت گیارھویں صدی کی ابتدا میں ہوئی۔
شجرہ نسب
ترمیمآپ کا شجرۂ نسب 33 واسطوں سے خلیفہ دوم امیر المؤمنین سیّدنا عمر فاروق اعظم سے ملتا ہے۔ خان محمد بن علی محمد بن شیخ سلیمان بن سلطان شیخ الاسلام بن عبدالرسول بن عبد الحئی بن شیخ محمد بن شیخ حبیب اللہ بن شیخ امام رفیع الدین بن شیخ نصیر الدین بن شیخ سلیمان بن شیخ یوسف بن شیخ اسحاق بن شیخ عبد اللہ بن شیخ شعیب بن شیخ احمد بن شیخ یوسف بن شیخ شہاب الدین علی الملقب بہ فرخ شاہ کابلی بن شیخ نصیر الدین بن شیخ محمود بن شیخ سلیمان بن شیخ مسعود بن شیخ عبد اللہ (الواعظ الاصغر) بن شیخ عبد اللہ (الواعظ الاکبر) بن شیخ ابوالفتح بن شیخ اسحاق بن شیخ ابراہیم بن شیخ ناصر بن شیخ عبد اللہ بن عمر بن حفص بن عاصم بن عبد اللہ بن سیّدنا عمر فاروق اعظم[1][2]
علمی خدمات
ترمیمآپ عظیم مفتی تھے اور علومِ ظاہری و باطنی میں کمال رکھتے تھے۔ آپ نے کوہاٹ کے نزدیک تحصیل الاچی کے موضع شادی خیل میں ایک مدرسہ قائم کیا تھا، جس میں آپ بذاتِ خود درس و تدریس کے فرائض سر انجام دیتے رہے۔ کوہاٹ کے علاقہ میں آپ کا فتویٰ معتبر مانا جاتاتھا۔مفتی قاضی عبد الحمید آپ کے شاگردوں میں سے ہیں۔ بعض باوثوق روایات کے مطابق آپ نے یہ مدرسہ ڈھوڈا شریف نزد کوہاٹ میں قائم کیا تھا، جو موضع شادی خیل سے تقریباً 8کلومیٹر کے فاصلے پر ہے ۔[3]
قبر انور
ترمیمآپ کی قبرِ انور بھی ڈھوڈا شریف میں ہے، جو قرائن سے بھی درست معلوم ہوتی ہے اور بعض صاحبانِ کشف نے اس کی تصدیق بھی کی ہے۔اس کی تصدیق اِس بات سے بھی ہوتی ہے کہ آپ کے فرزند حضرت سید فیض اللہ گیلانی تیراہی علیہ الرحمہ جب اپنے مرشد حضرت سید جمال اللہ رام پوری علیہ الرحمہ سے طریقہ میں خلافت سے مشرف ہونے کے بعد اپنے گھر واپس آئے تو کچھ عرصہ ڈھوڈا شریف میں ہی قیام فرمایا۔
وفات
ترمیمآپ کی وفات کی تاریخ بھی معلوم نہیں ہو سکی لیکن اندازہ ہے کہ آپ کی وفات گیارھویں صدی کے آخر میں ہوئی۔