خواب نیند کی حالت میں آنے والی متوالی تصاویر،[1] آوازوں اور احساسات کے تجربات کو کہا جاتا ہے۔ خواب کے متعلق مختلف نظرییے ہیں۔ بعض لوگ خواب پر اعتقاد رکھتے ہیں اور بعض اسے نہیں مانتے۔ ماہر نفسیات فرائڈ کے خیال میں خواب انسان کی تحت الشعوری خواہشات کا مظہر ہے۔ انسان میں جو جذبات پوشیدہ طور پر پرورش پاتے رہتے ہیں، سوتے وقت غیر شعوری طور پر وہی خیالات خواب میں نظر آتے ہیں۔ لیکن ان نظریات کے باوجود بعض خواب ایسے بھی ہوتے ہیں جو ان حالات کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ اور انسان خواب میں ایسی باتیں دیکھتا ہے جو اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتیں۔

شعوری تعبیر

ترمیم

انسانی جسم اور شعور یا ہوش میں ایک زبردست اور مستقل بُعد پایا جاتا ہے جس کا تجربہ ہمیں خواب کی صورت میسر آیا، یعنی بیداری کی حالت میں ایک زندگی ہے جو موجودہ جسم کے ساتھ بسر کی جاتی ہے دوسری زندگی جو حالتِ تنویم یعنی کچی موت یا عارضی تعطلِ ہوش و جسم کے بعد واقع ہوتی ہے جسے ہم خواب کہتے ہیں، تیسری زندگی جس کا تعلق مستقبل سے ہے اور جسے مذہبی اصطلاح میں حیات بعد الممات کہتے ہیں یہ شعور کی تیسری زندگی ہے جو ہوش اور جسم میں مستقل تعطل کے بعد واقع ہوتی ہے، انسانی شعور یا ہوش ایک ایسا مجرد جوہر ہے جسے اپنی گذر اور بقاء کے لیے کسی بھی اضافی عنصر کی ضرورت نہیں پڑتی چنانچہ انسانی وجود ہمیشہ شعور ہی کا محتاج رہتا ہے پھر چاہے اُس کی صورت حالتِ بیداری کی ہو حالتِ تنویم کی یا پھر وہ حالت جب انسانی وجود مستقل ناکارہ یا غیر متحرک ہو جائے، پس ہر صورت میں شعور ہی قائم و متحرک رہتا ہے، خواب کے متعلق یہ بنیادی منطق ہمیشہ ملحوظ رہے کہ یہ وہ زندگی ہے جو ہوش اور جسم کے عارضی تعطل کے بعد واقع ہوتی ہے اور جس کا دورانیہ بیداری کے ٹائم پیرامیٹرز کے مطابق کم از کم سات منٹ اور زیادہ سے زیادہ تیس منٹ تک ہو سکتا ہے جبکہ خواب میں یہ ٹائم پیرامیٹرز بالکل بدل جاتے ہیں یعنی بیداری کے سات منٹ خواب کے ستر سال ہو سکتے ہیں عموماً خواب میں وقت کی رفتار بیداری کی نسبت دس گناہ بڑھ جاتی ہے.

ایک نقطۂ نظر

ترمیم

گو خواب کی صحیح تشریح کرنا ممکن نہیں لیکن اس کی اہمیت کو بھی تسلیم کیے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ موت اور نیند میں فرق یہ ہے کہ موت کی حالت میں روح کلیتہً جسم سے علیحدگی اختیار کر لیتی ہے۔ جبکہ نیند کی حالت میں روح اگر کبھی جسم کا ساتھ چھوڑتی ہے تو دماغ کے ساتھ اس کا رابطہ قائم رہتا ہے۔ اس عالم میں روح جہاں جاتی ہے اور جو کچھ کرتی، دیکھی اور سنتی ہے۔ دماغ کو اس کی پوری اطلاع ملتی رہتی ہے۔ اس اطلاع کو خواب کہہ سکتے ہیں۔ خواب میں انسان بہت سی ایسی باتیں دیکھتا ہے جنھیں وہ جسمانی طور پر نہیں دیکھ سکتا۔ بعض دفعہ انسان پیش آنے والی باتوں کو خواب میں دیکھتا ہے۔ بعض خواب بڑے صاف اور عام فہم ہوتے ہیں اور بعض میں پیچیدگی ہوتی ہے۔ جس کی تعبیر عقل کے ذریعے کی جاتی ہے۔ بہرحال خواب ایک مابعدالطبیعیاتی مسئلہ ہے جس کی باقاعدہ اور مثبت تشریح ممکن نہیں۔ نبیوں میں حضرت یوسف علیہ السلام کو صلاحیت عطا کی گئی تھی کہ خوابوں کی تعبیر بتایا کرتے تھے۔

خطائے حس اور خواب

ترمیم

خواب کو بعض ماہرین نفسیات و سائنسدان، سوتی ہوئی عقل (mind) میں پیدا ہونے والی خطاۓ حس (hallucination) کہتے ہیں۔[2] چونکہ ایک جاندار کا دماغ تمام حالتوں (بشمول بیداری اور سریع حرکات العین و لاسریع حرکات العین نیند) میں کسی نا کسی درجہ پر متحرک رہتا ہے؛ اور معمول کی حالتِ بیداری کے دوران دماغ اندرونی یا داخلی طور پر پیدا ہونے والی فعالیت (activity) کو بیرونی یا خارجی طور پر (ماحول سے ) آنے والی منبہ حسوں کی نسبت نظر انداز رکھتا ہے اور یوں حالت بیداری میں (عام حالات میں) صرف وہی تصاویر، آوازیں اور احساسات دماغ میں اجاگر ہوتے ہیں جو طبیعی طور پر عالم حقیقت و مادی میں موجود ہوتے ہیں۔ اور دوران نیند، دماغ اندرونی طور پر پیدا ہونے والی فعالیت کی جانب مرکوز ہو جاتا ہے جو خوابوں کی ایک وجہ سمجھی جا سکتی ہے، جبکہ بعص اوقات، کم خوابی، حسی اضطرابات اور بعض ادویہ کی وجہ سے بیرونی اور اندرونی دونوں اطراف پیدا ہونے والی فعالیت یا activity پر تجواب یا رد عمل ظاہر کرنے لگتا ہے جسے خطائے حس کی ایک وجہ سمجھا جا سکتا ہے۔[3]

حوالہ جات

ترمیم
  1. ایک آن لائن اردو لغت میں متوالی برائے تواتر و تسلسل کا اندراج۔
  2. David G. Myer (2001). Psychology. Worth publisher NY آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ worthpublishers.com (Error: unknown archive URL).
  3. Mahowald M, Woods S, Schenck C. Sleeping dreams, waking hallucinations, and the central nervous system. Dreaming 1998; 8: 89–102 آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ asdreams.org (Error: unknown archive URL).