خولہ بنت قیس
خولہ بنت قیس حضور نبی اکرم کو اپنے چچا حمزہ بن عبد المطلب سے بہت پیار تھا۔ حمزہ آغاز اسلام میں مسلمان نہیں ہوئے تھے لیکن کفر و شرک کی حالت میں ہونے کے باوجود وہ بھی آنحضور سے بہت پیار کرتے تھے۔ ابو جہل کی چیرہ دستیوں نے جب حدود سے تجاوز کرنا شروع کیا توحمزہ کو اس پر بہت غصہ آیا۔ اس موقع پر انھوں نے ابو جہل پر حملہ کر کے اسے زخمی کر دیا تھا۔ جب انھوں نے حضور کو اس کی اطلاع دی تو آپﷺ نے فرمایا ” میرے محبوب چچا مجھے اس بات سے کوئی خاص خوشی نہیں ہوئی ہاں البتہ اگر آپ اسلام قبول کر لیں تو مجھے بے پناہ مسرت ہو گی ۔“ چنانچہ حمزہ نے اس موقع پر کلمہ شہادت پڑھ کر دین حق قبول کر لیا ۔
خولة بنت قيس الأنصارية | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
شوہر | حمزة بن عبد المطلب |
اولاد | يعلى بن حمزة عمارة بن حمزة |
بہن/بھائی | |
درستی - ترمیم |
حمزہ کی ایک اہلیہ مدینہ کے معروف خاندان بنو نجارکی عظیم بیٹی خولہ بنت قیس تھیں۔ یہ خوش بخت خاتون بھی اپنے شوہر نامدار کے ساتھ حلقہ بگوش اسلام ہو گئیں۔ یہ نبوت کا چھٹا سال تھا۔ دونوں میاں بیوی نے مکہ سے مدینہ کی جانب ہجرت اور پھر جہاد و قتال فی سبیل اللہ کا شرف حاصل کیا۔ حمزہ تو غزوہ احد میں شہادت کے مقام پر سرفراز ہو گئے جبکہ حضور کی اس چچی نے لمبی عمر پائی۔ حمزہ جو ابو عمارہ کی کنیت سے معروف تھے ،تو ان کا بیٹا عمارہ ان کی اس بیوی خولہ ہی کے بطن سے پیدا ہوا ۔
حدیث اور سیرت کی کتابوں میں خولہ کے مناقب میں ایک واقعہ بیان کیا گیاہے جس سے آنحضورکی عظمت بھی ظاہر ہوتی ہے مگر آپ کی چچی کی رفعت شان بھی سامنے آ جاتی ہے۔ آنحضورﷺنے فقر کو بخوشی اختیار فرمایا اور اس پر فخر کا اظہار بھی کیا تھا جیسا کہ دنیا دار لوگ مال و دولت کے پندار میں مبتلا ہو کر مادی چیزوں پر فخر کا اظہار کرتے ہیں۔ آپ نے دنیا کمانے اور جمع کرنے کی بجائے آخرت میں کامیابی پانے اور مقام محمود پر فائز ہونے کی تمنا اور دعا کی تھی۔ آپ نے فرمایا کہ میں تو دنیا میں اس مسافر کی سی زندگی گزار رہا ہوں جو اپنی سواری سے اتر کرگھڑی بھر کے لیے کسی درخت کے سائے میں سستاتا ہے اور پھر جانب منزل چل پڑتاہے۔ مجھے دنیوی مال و دولت اور مادی ساز و سامان سے کیا لینا دینا ہے ۔
کبھی کبھار آپ کو اپنی گھریلو ضروریات اور اصحاب صفہ کی دال روٹی کا انتظام کرنے کے لیے قرض بھی لینا پڑتا تھا۔ کبھی تو یہ قرض نقدی کی صورت میں ہوتا ،کبھی غلے اور اجناس کی شکل میں۔ عموماً یہودیوں سے قرض لیا جاتا تھا مگر کبھی کبھار عرب شخصیات اور بد وقبائل سے بھی قرض حاصل کیا جاتا تھا۔ ایک مرتبہ آنحضور کو ایک بدوی سے کھجوریں قرض لینا پڑیں۔ ایک دن وہ بدو آنحضور کے پاس آیا اور بڑی درشتی سے قرض کی واپسی کا مطالبہ کیا۔ صحابہ کرام بھلا ایسی گستاخی کیونکر برداشت کر سکتے تھے۔ انھوں نے اس شخض کو ڈانٹ ڈپٹ کی تو جواب میں اس نے کہاکہ ” اللہ کے بندو میں کوئی ناروا مطالبہ تو نہیں کر رہا اپنا حق ہی مانگ رہا ہوں ۔“
آنحضور کس قدر بلند اخلاق کے مالک اور حق و صداقت کے علمبردار تھے، اس کا اندارہ اس موقع پر آپ کی گفتگو سے بخوبی ہوتا ہے۔ آپ نے اپنے صحابہ سے فرمایا کہ یہ شخص اپنا مطالبہ پیش کرنے میں حق بجانب ہے تم لوگوں کو بھی اس کی حمایت کرنا چاہیے تھی۔ تم نے الٹا اسے ڈانٹنا شروع کر دیا ہے۔ گویا آنحضور ” کونوا قوامین بالقسط شہداءللہ “ کے قرآنی حکم کی تشریح فرما رہے تھے۔ اس شخص کو کئی انصاری صحابہ نے آنحضور کی طرف سے اس کے مطالبے کے مطابق کھجوریں دینے کا ارادہ ظاہر کیا مگر اتفاق سے ان میں سے کسی کی کھجوریں بھی اسے اپنی اعلیٰ کھجوروں کی ہم پلہ نظر نہ آئیں اس لیے اس نے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ آنحضور کی چچی خولہ بنت قیس مالدار خاتون تھیں۔ ان کے پاس مدینہ کے باہر باغات تھے جہاں اعلیٰ درجے کی کھجوریں پیدا ہوتی تھیں۔ جب انھیں صورت حال کا پتہ چلا تو انھوں نے آنحضور سے عرض کیا ” اے اللہ کے رسول میرے ماں باپ آپ پر قربان، آپ کو جس قدر کھجوروں کی ضرورت ہو آپ لے لیں ۔“ بدو نے خولہ کی کھجوروں کو بہت اعلیٰ پایا اور قبول کر لیا۔ آپ نے اس بدو کو اس کے مطالبے اور حق کے مطابق کھجوریں عطا کیں اور ساتھ کھانا بھی کھلایا۔ وہ آپ کے حسن اخلاق، حسن معاملہ اور مہمان نوازی سے بہت متاثر ہوا۔ آنحضور نے کچھ عرصہ بعد اپنی چچی کو اچھی کھجوریں واپس کیں ۔
یہ بھی ایک اہم اور ذہن نشین کرنے والی بات ہے کہ انصار کو اللہ نے بڑے دل عطا فرمائے تھے۔ فیاضی و سخاوت، ایثار و قربانی اور بے لوث عطا ان کے خصوصی اوصاف تھے۔ قرآن نے بھی ان کی تعریف کی ہے۔ بالخصوص سورہ الحشر کی آیت نمبر 9 ان کی شان میں حرف آخر ہے۔ اسی طرح حدیث میں بھی ان لوگوں کی بڑی تعریف آئی ہے۔ یہ صفت اہل مدینہ میں آج تک موجود ہے۔ مدینہ اور اہل مدینہ واقعی عظمت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہیں اسی لیے تو یہ آنحضور کا ابدی مسکن قرار پایا ہے ۔
” آں خنک شہر ے کہ آنجا دلبر است ۔“