سہروردیہ
سلسلۂ سہروردیہ
سہروردیہ مشہور روحانی سلاسل میں سے ہے اس سلسلہ کے پیروکار سہروردی کہلاتے ہیں، جو زیادہ تر ایران، پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش میں ہیں۔ اس سلسلہ کے بانی شہاب الدین سہروردی تھے۔
چشتیہ سلسلے کے بعد ہندوستان میں سہروردیہ سلسلہ آیا۔ اس سلسلے کی بنیاد شیخ ضیاء الدین ابو النجیب سہروردی (المتوفی 1097ھ/ 1118ء ِ) نے بغداد میں ر کھی تھی۔ وہ اِمام ابوٗ حامد الغزالی(540ھ) کے بھائی احمد غزالی کے مرید تھے اور بغداد کی جامعہ نظامیہ میں شافعی فقہ پڑھاتے تھے۔ ان کی باقیّاتِ میں صرف ایک کتاب آداب المریدین پائی جاتی ہے۔ لیکن شیخ الشیوخ شہاب الدین عمر ابو حفص سہروردی کو سلسلۂ سہروردیہ کے مؤسسِ ثانی کی حیثیت حاصل ہے۔ ابن خلکان کے مطابق 16واسطوں سے آپ کا نسب خلیفۃ الرسول سیدنا ابو بکر صدیق سے مل جاتا ہے۔ آپ 535ھ میں زنجان کے ایک قصبہ سہرورد میں پیدا ہوئے تھے۔ آپ کی تعلیم و تربیت آپ کے عم محترم اور مرشد شیخ ابو النجیب سہروردی کی نگرانی میں ہوئی تھی۔ شہاب الدین سہروردی عبد القادر جیلانی سے بیعت نہیں تھے۔ اس کے باوجود بچپن ہی سے آپ کو غوث الاعظم کی عنایت حاصل تھی۔ اور آپ کی نظرِ عنایت کی وجہ سے آپ کو بہت کچھ روحانی فیض حاصل ہوا۔ بغداد میں عبد القادِر جیلانی کے وِصال کے بعد شیخ ابو النجیب سہروردی نے ایک سال تک اور اُن کے بعد برسوں تک شہاب الدین سہروردی نے بغداد کی روٗحانی سیادت کا نظام نہایت خوش اسلوبی سے نبھایا۔ آ پ کی ذاتِ گرامی سے لاکھوں بند گانِ خدا کو فیض پہنچا۔ آپ کی علمی لیاقت اور رِیاضت کا شہرہ نہ صرف عراق میں بلکہ مصر و شام و حجاز اور ایران میں دوٗر دوٗر تک پہنچ چکا تھا۔ ہندوستان اور پاکستان میں بھی آپ کی بزرگی کا غلغلہ بلند تھا۔ دُنیا بھر کے مشائخ عِظام کے لیے آپ کی ذات گرامی ملجاء بنی ہوئی تھی۔ آپ کے خلفاء اور مریدین ہمہ وقت آپ کی بارگاہ میں حاضر رہتے تھے۔ ان میں سے چند حسب ذیل ہیں۔ شیخ نجیب الدین علی بخش تھے جن کے ذریعے عجم یعنی ایران میں سہروردی سلسلہ کی بہت زیادہ اِشاعت ہوئی۔ شیخ نور الدین مبارک غزنوی جن کی مساعی اور کاوِشوں کی وجہ سے شمالی ہندوستان میں سہروردیہ سلسلے کو بہت فروغ حاصل ہوا۔ اُس زمانے میں شیخ الاِسلام بہاء الدین زکریا ملتانی مرشدِ کامل کی تلاش میں ہندوستان سے نکل کر اِسلامی دُنیا میں ملکوں ملکوں پھرتے ہوئے بغداد شریف میں شہاب الدین کی مجلس میں جا پہنچے اور اپنا گوہرِ مراد پا لیا۔ مرشدِ کامل نے بھی کمال مرحمت فرماتے ہوئے صرف تین ہفتوں کی ریاضت کے بعد آپ کو خلافت عطا فرما دی۔ اور ملتان کی طرف مراجعت فرما ہونے کا حکم دیا تاکہ برِّ صغیر میں سہروردی سلسلے کی بنیادیں مضبوط فرمائیں صحیح معنوں میں ہندوستان میں سہروردیہ سلسلے کی ترویج و اشاعت مین شیخ بہاء الدین زکریا ملتانی کی زبردست جدوجہد کا بڑا کامیاب رول رہا ہے۔ آپ نے ملتان،اُوچ اور دوسرے مقامات پر سہروردیہ سلسلے کی مشہور خانقاہیں قائم کیں۔ شب و روز کی انتھک محنت سے ہندوستان میں سہروردیہ سلسلے کی جڑیں مضبوط کیں۔ ان کے مشہور خلفاء میں شیخ اِسمٰعیل قریشی،شیخ حسین،شیخ نتھو،شیخ فخر الدین ابراہیم عراقی ،سید جلال الدین سرخ بخاری اور شیخ صد رالدین عارف ہیں۔ شیخ صدرالدین عارف کے خلیفہ شیخ رُکن الدین ابو الفتح ملتانی ہیں جنھوں نے سلسلے کی تنظیم کے لیے بہت کوشش کی ہیں۔ سید جلال الدین سرخ بخاری کے خاندان میں پیدا ہونے والی زبردست شخصیتوں میں سید احمد کبیر اور ان کے دونوں با کمال فرزندوں سید صدرالدین راجو قتال اور سید جلال الدین مخدوم جہانیاں جہاں گشت کا شمار ہوتا ہے۔ بنگال میں سہروردی سلسلہ شیخ جلال الدین تبریزی کے ذریعے پہنچا آپ کی اور آپ کے خلیفہ شیخ علی بدایونی کی محنت کی وجہ سے بنگال میں سہروردی سلسلے کی کافی ترویج و اِشاعت ہوئی۔ گجرات میں سہروردی سلسلے کی اِشاعت مخدوٗم جہانیاں جہاں گشت کے مرید ین اور خلفاء نے کی۔ اس کے علاوہ آپ کے اہلِ خانہ اور خاندان کے افراد نے بھی احمد آباد اور گجرات کے دیگر علاقوں میں اپنی علمی اور عملی لیاقتوں کے بل پر اس سلسلے کی تنظیم کی اور اپنے مرید ین اور دیگر عوام تک اِس سلسلے کی فیض رسانی کی ہے۔ سید صدرالدین راجو قتال نے بذات خود سید ب رہان الدین قطبِ عالم کو گجرات کی وِلایت سونپی اور انھیں تبلیغِ دین کے واسطے گجرات بھیجا۔ احمد شاہ بادشاہ نے یہاں آپ کا شاندار اِستقبال کیا اور آپ کو یہاں سکونت اختیار کرنے کی خاطر بٹوا میں جاگیر عطا کی۔ یہاں پر قطبِ عالم نے ایک بڑی خانقاہ کی بنیاد ڈالی اور لوگوں کے لیے اپنے اور اپنے سلسلے کے فیض کے دروازے کھول دِئیے۔ آپ کے بعد آپ کے لائق فرزند شاہِ عالم نے رسوٗل آبا دمیں رہ کر اس کام کو آگے بڑھایا۔ ہر دو حضرات نے اپنی علمی قابلیت کے ذریعے اعلیٰ تصانیف اور اپنی عملی ریاضتوں اور مکاشفتوں کے ذریعہ عوام کو دینِ اِسلام کا گرویدہ بنایا۔ اپنی نگاہِ پُر تاثیر کے ذریعے عوام کو خواص میں تبدیل کر دیا۔ لوگوں کو سلوک کی راہ میں اعلیٰ مرتبوں تک پہنچا دیا۔ اُن کے بعد شاہ بُڈھا صاحب اور پیارن صاحب نے اپنے اَسلاف کی روشنی پر چلتے ہوئے سلسلے کی خدمات انجام دیں۔ قاضی نجم الدین ،عبد الطیف دارُ الملک، قاضی محمود وغیرہ نے بھی سہروردیہ سلسلہ کی تنظیم اور اس کی ترویج و اِشاعت میں کافی جدوجہد کی۔ اپنے اثر اور فیض رسانی کے معاملہ میں سہروردیہ سلسلہ پنجاب اور سندھ تک ہی محدود رہا۔ ہندوستان کے دیگر علاقوں میں اِس نے عام رواج نہ پایا۔ لیکن شہرت کے اعتبار سے شیخ بہاء اُلدین زکریا ملتانی ،شیخ رُکن الدین ملتانی اور مخدوٗم جہانیاں جہاں گشت جیسے جید علما اور اولیاء کی لِیاقت اور رِیاضت کا نور اُن کے علاقوں تک محدود نہ رہا بلکہ اُن کی رُوحانی شہرت ہندوستان کی حدود کو پار کر کے اِسلامی ممالک میں بھی پھیل گئی۔[1]
مضامین بسلسلہ |