دریا خان ضلع بھکر کی تحصیل دریا خان کا صدر مقام ہے۔ دریا خان دریاے سندھ کے مشرقی کنارے پر ڈیرہ سے 14 میل کے فاصلے پر ایک قدیم شہر ہے اور ایک زمانے ڈیرہ سے ملک کے دوسرے حصوں کو جانے کا یہ آبی اور خشکی کا مصروف ترین راستہ تھا۔ ۔ 1860ء تک دریا خان ڈویژنل ہیڈ کوارٹر لیہ کی تحصیل تھی اور بھکر اس تحصیل کا حصہ تھا اور اب بھکر ضلع ہے اور دریا خان اس کی تحصیل ہے۔ دریا خان کا ریلوے اسٹیشن 1887ء یعنی 133 سال پہلے بنا اور ڈیرہ سے پورے ہندوستان تجارت کا مرکز تھا۔ ریلوے اسٹیشن کی بلڈنگ پر جو چھت پر بارش کے پرنالے لگے تھے وہ شیر کے چہرے کی شکل کے تھے۔جب بارش ہوتی تو ایسا لگتا شیر کے منہ سے پانی کا فوارہ بہ رہا ہے۔ ایک اور قدیم عمارت تاج مسجد کے سامنے تھی جس کا ڈیزائین ڈیرہ کے ٹاون ہال یا ڈپٹی کمشنر آفس کی طرح تھا۔ پارٹیشن سے پہلے سردیوں میں تجارتی سامان ڈیرہ سے کشتیوں کے پل کے ذریعے اونٹوں پر دریا خان جاتا اور پھر برصغیر کے دور دراز علاقوں بھیج دیا جاتا۔

بیرونی ربط ترمیم

دریا خان کا موقعآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ daryakhan.com (Error: unknown archive URL)

دریاخان جسے خیبرپختونخواہ(سابقہ سرحد) اور پنجاب کا گیٹ وے بھی کہا جاتا تھا۔ ماضی میں معاشی طور پر اور تاریخی طور پر اس شہر کو خصوصی اہمیت حاصل رہی، ملتان کندیاں ریلوے سیکشن کا اہم ترین ریلوے اسٹیشن جو ماضی میں خصوصی اہمیت حاصل رکھتا تھا مگر آج کل ٹرینوں کی کم آمدورفت ریلوے کی عدم توجہی کی وجہ سے مسائل کا گھر ہے، دریاخان ریلوے اسٹیشن کا قیام 1901ء میں لایا گیا اس رلوے اسٹیشن کو اس لیے اہم تصور کیا جاتا تھا کہ ماضی میں دریاخان پاک فوج کے سرحد خیبرپختون خواہ کا اکلوتا راستہ تصور کیا جاتا تھا۔ 1985سے قبل پاک آرمی کے دستے وانا جنوبی، شمالی وزیرستان اور افغانستان کے باڈر تک جانے اور آنے کے لیے ریلوے اسٹیشن دریاخان کو استعمال کرتے تھے وہاں ریلوے اسٹیشن کے نزدیک اراضی پر کئی کئی دن پڑائو کرتے تھ اور آرمی کے استعمال کا سمان اور دیگر اشیاء خور و نوش بھی ریلوے گذر کے ذریعے دریاخان اور پھر کشتیوں کے پل کے ذریعے سرحد کے شہر ڈرہ اسماعیل خان پہنچائی جانی تھی، 1985ء میں ریاخان ڈیرہ اسماعیل خان پل جو دریاخان کے غربی کنارے پر تعمیر ہونا تھا مگر اس پل کی تعمیر دریاخان سے 10 کلومیٹر دور کوٹلہ جام کے سامنے تعمیر کر کے دریاخان کو معاشی اور اقتصادی طور پر زبردست نقصان کا سامنا کرنا پڑا کشتیوں کے پل کے ذریعے سینکڑوں سالوں سے دریاخان کو جو اہمیت حاصل تھی وہ ختم ہو کر رہ گئی