دلت ادب سے مراد دلت زندگی اور اس کے مسائل پر مرکوز تحریریں اور اس کی ادبی تحریک ہے۔ دلتوں کو ہندو سماجی نظام میں سب سے نچلے درجہ پر رکھے جانے کی وجہ سے انصاف، تعلیم، مساوات اور آزادی وغیرہ بنیادی حقوق سے بھی محروم رکھا گیا اور انھیں اپنے ہی مذہب میں اچھوت سمجھا گیا۔ خیال ہے کہ دلت ادب کا آغاز مراٹھی زبان میں 1960ء کی دہائی سے ہوا جہاں دلت پینتھر نامی تحریک کے زیر سایہ بڑی تعداد میں دلت ذاتوں سے تعلق رکھنے والے تخلیق کاروں نے عوام تک اپنے جذبات، احساسات اور دکھ درد کو مضامین، نظموں، مقالوں، سوانح نگاری اور کہانیوں وغیرہ کی شکل میں پہنچایا۔ لیکن جلد ہی ہندی، تیلگو، تمل اور کنڑ زبانوں میں بھی دلت ادب پر مشتمل تحریریں شائع ہونے لگیں اور دلت ادب نے ہندوستانی ادب میں نمایاں مقام حاصل کر لیا۔

تصور

ترمیم

دلت ادب کے تصور پر طویل بحثیں ہوئیں۔ یہ سوال دلت ادب میں نمایاں طور پر نظر آتا ہے کہ دلت ادب کون لکھ سکتا ہے، یعنی ذاتی تجربات ہی مستند ہوں گے یا دلتوں کے تئیں اظہار ہمدردی پر مشتمل تحریروں کو بھی دلت ادب میں جگہ ملے گی۔ معروف دلت ادیبوں کے نزدیک چونکہ اعلی ذات نے دلتوں کے درد کو نہیں سمجھا، اس لیے وہ دلت ادب نہیں لکھ سکتے۔ اگرچہ یہ رائے زیادہ دنوں تک قائم نہیں رہی، لیکن شروع میں یہ موضوع بحث تھی۔ یہ سوال مراٹھی زبان کے برخلاف ہندی میں زیادہ اٹھا۔ آخر میں اس بات پر اتفاق ہوتا نظر آیا کہ دلت ادب اسی اور نوے کی دہائی میں ابھر کر سامنے آنے والی ایک ادبی تحریک ہے جس میں دلت سماج میں پیدا ہونے والے نمایاں تخلیق کاروں نے حصہ لیا اور اسے ادب کی مختلف رو باور کرانے کی کوشش کی۔[1]

تاریخ

ترمیم

گرچہ ادب کے میدان میں دلت طبقے کی موجودگی بدھ مت کے دور سے نظر آتی ہے لیکن ہدف بنا کر انسانی حقوق کی تحریک کے شکل میں دلت ادب بیسویں صدی عیسوی میں سامنے آیا۔[2] رویندر پربھات نے اپنے ناول "تاکہ بچا رہے لوک تانتر" میں دلتوں کی سماجی حیثیت پر مبسوط بحث کی ہے۔ نیز ڈی این سنگھ نے اپنی کتاب "دلت ساہتیہ کے پرتیمان" میں ہندی دلت ادب کی تاریخ کو مفصل بیان کیا ہے۔

ہندی زبان کے معروف دلت ادیب

ترمیم

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. ویر بھارت تلوار- دلت ساہتیہ کی اودھارنا، چنتن کی پرمپرا اور دلت ساہتیہ، صفحہ: 75
  2. بھارتی دلت آندولن : ایک شنشپت اتہاس : موہن داس نے مشرائے

بیرونی روابط

ترمیم