ہندوستانی ادب
ہندوستانی ادب یا بھارتی ادب اس ادب کو کہتے ہیں جو بر صغیر میں 1947ء تک تیار ہوا تھا اور جمہوریہ ہند میں اس کے بعد تیار کیا گیا۔ جمہوریہ ہند کے 22 سرکاری طور مسلمہ حیثیت کی حامل 22 زبانیں ہیں۔
بھارت میں قدیم دور میں تحریری روایتوں کی کمی رہی ہے۔ ہندو میں مذہبی طور پر مقدس چار وید زبانی روایتوں کے ذریعے فروغ پائے۔ بعد کے دور میں ان سے متاثر ہو کر کئی اور کتابیں وجود میں آئی ہیں۔ جیسے کہ اپنشد، اپ وید، پران، برہمنا، اتہاس وغیرہ شامل ہیں۔
قدیم راجگان اور مہاراجگان کے دور سے لے مسلمان سلاطین اور مغلوں کے دور میں درباری شاعر اور مؤرخوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی رہی ہے۔ ہندوستان کے کچھ حصے پر فاتح محمود غزنوی نے اپنے درباری شاعر فردوسی اپنی خود کی تاریخ بہ عنوان شاہنامہ لکھنے پر مامور کیا۔ جب فردوسی نے پوری ایمان داری سے شاہ نامہ لکھ دیا، تب باد شاہ نے وعدہ شدہ انعام دینے سے انکار کر دیا۔ ایسے میں فردوسی بد دل ہو کر دربار سے رخصت ہوا۔ وہ یہ باور کرنے لگا کہ محمود میں شاہی خون کی کمی ہی شاید رہی ہے کہ وہ اپنے وعدے سے مکر گیا۔ اس کے کچھ عرصہ بعد محمود غزنوی اپنے کیے پر نادم ہوتا ہے اور وعدہ شدہ رقم فردوسی کے گھر پہنچاتا ہے۔ مگر تب تک وہ انتقال کر جاتا ہے۔ اس کی بیٹی نے یہ کہہ کر انعامی رقم لینے سے انکار کر دیا کہ جب جس سے وعدہ کیا گیا تھا، وہ نہیں رہے، تو یہ رقم لینے سے کیا حاصل۔ [1]
مغل بادشاہوں میں اکبر نے کئی اہل قلم کی حوصلہ افزائی کی۔ بعد کے دور میں یہ حوصلہ افزائی اور بھی بڑھی ہوئی ہونے لگی۔ آخری مغل فرمانروا بہادر شاہ ظفر خود ایک شاعر تھے۔ انھوں نے استاد ذوق اور مرزا غالب جیسے کئی لوگوں کی حوصلہ افزائی کی تھی جو اصحاب قلم شاعر تھے۔ [2]
برطانوی ہند میں ربندرناتھ ٹیگور گیتانجلی لکھے تھے، جس کے لیے انھیں نوبل انعام ملا تھا۔[3]
آزاد ہندوستان میں بھی کئی اہل قلم بھارت میں گذرے۔ ملک کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو ایک تاریخی دستاویز تاریخ ہند لکھے تھے۔ مشہور مصنفہ اروندھتی رائے سسکتے لوگ نامی ناول لکھا تھا، جس کے لیے اسے بکر انعام دیا گیا تھا۔ [4]