دور رشد و رشادت سید علی شرف الدین موسوی بلتستانی صاحب کی لکھی ہوئی کتاب ہے، جو دورخلفائے راشدین سے متعلق ہے۔

دور رشد و رشادت
کتاب کا سرورق
مصنفسید علی شرف الدین موسوی بلتستانی
اصل عنوان= دور رشد و رشادت ﷺ
ملکپاکستان
زباناردو
صنفتاریخ
ناشراداره منشورات قرآن و سنت پاکستان https://archive.org/details/RushdooRashaadat
تاریخ اشاعت
اردو: 2016ء
قسم ذرائع ابلاغاردو: Hardback
انگریزی: Paperback
سابقہخطداحیون
اگلیموسوعه فرقه

تعارف

ترمیم

دور رشد ورشادت( خلفائے راشدین) کے مولف آغا علامہ سید علی شرف الدین موسوی بلتستانی ہیں اور کتاب کے کل صفحات 258ہیں۔

مقصد تالیف

ترمیم

دور رشد ورشادت بلاشبہ خلفائے راشدین کی سیرت بشمول خوبیوں و خامیوں پر ایک بلاتعصب و غیر جانبدارانہ تحقیقی کتاب ہے۔ سیرت رسول ص پر آغا صاحب کی کتاب"محمد مصطفی ص" کے بعد ایک ایسی کتاب تاریخ اسلام کے حوالے سے ناگزیر تھی جہاں خلفاء کی تاریخ اور سیرت و کردار،ان کی غلطیوں اور قابل ستائش خوبیوں کا بلا کم وکاست تذکرہ ہو۔ آغا صاحب نے بطور ایک محقق نہایت اختصار وجامعیت کے ساتھ اپنے طویل مشاہدات اور وسیع مطالعہ کے بعد یہ کتاب قلم بند کی۔ خلفاء پر علمی مدلل اسلوب میں بھرپور جائزہ لیا گیا ہے۔ اختتام پر فرقہ پرستی کے رد میں سات عنوانات قائم کیے ہیں۔ آخر میں ماخذ و مراجع اور حوالہ جات کا مکمل اہتمام کیاہے۔ آغا سید مصطفی طباطبائی کی کتاب"روزگار خلفائ راشدین" گرچہ لائق تحسین کام تھا مگر آغا شرف الدین نے اردو میں اس طرز و اسلوب کی غیر متعصبانہ کتاب لکھ کر اردو زبان و ادب میں اس موضوغ اور عنوان کے حوالے سے ایک منفرد اور اولین کام انجام دیا ہے۔ آپ نے ہزاروں کتب کے مستند قدیم و جدید بے شمار کتب کے ذخائر کے بعد یہ کتاب تحریر کی ہے اور یہ بے بہا عطر کشید کیا ہے۔

کتاب کے حوالے سے آغا صاحب لکھتے ہیں:

"ہم خلفائے راشدین کے مثالی اور درخشندہ صفحات کو سامنے لانا چاہتے ہیں، شاید اس طرح امت اسلامیہ خواب غفلت سے بیدار ہو جائے، وقت کے حکمرانوں کے سیاہ چہرے سامنے آجائیں اور سب وشتم کو فروع دین سمجھنے والے شیعان اہل بیت کے مدعیوں کے چہروں سے پردے ہٹ جائیں کہ وہ کن اہل بیت کے حامی و داعی ہیں۔"

علامہ آغا سید علی شرف الدین،کتاب رشد و رشادت، ص 12

مزید لکھتے هیں: "دور راشدہ سے وہ دور مقصود ہے جب نبی کریم ص امت اسلام کی قیادت ورہبری سے فارغ ہو کر ملا اعلی سے پیوستہ ھوگئے تو زمام اسلام ومسلمین ان ذوات نے سنبھالی جو اس دعوت میں ابتدائی دن سے خلوت وجلوت ،حضروسفر،دعوت و جہاد،جنگ و صلح اور دوستی و دشمنی میں آپ کے ساتھ ساتھ اور ردیف میں رہتی تھیں اور جنھوں نے اسلام کو قبول کرنے نیز جان ومال پیش کرنے اور ہجرت کرنے میں سبقت کی تھی اور کسی قسم کی کوتاہی نہیں کی تھی۔"

مزید فرماتے ہیں: "اس صدی کے دو عظیم مفکرین محمد مھدی شمس الدین و محمد باقر الصدر نے نبی کریم ص کے بعد اس دور کو قیمتی دور کہاہے ۔"

پھر لکھتے ہیں: "یہ ذوات نہ صرف اس منصب کو سنبھالنتے وقت قرآن و سنت کے مطابق رشید تھیں بلکہ انھوں نے اس ذمہ داری کو سنبھالنے کے بعد چھوڑنے تک بھی رشد ورشادت کا دامن نہیں چھوڑا،ان صفات کے حامل اقتدار اسلام ومسلمین سنبھالنے والوں میں ابوبکر صدیق،عمربن خطاب،عثمان بن عفان اور علی بن ابی طالب کو شامل کیا جاتا ہے لیکن بعض دیگر مصنفین ومورخین نے امام حسن بن علی اور عمر بن عبد العزیز کو بھی راشدین میں شمار کیا ہے۔ ہم ان صفحات میں ان چھ ذوات کے رشد ورشادت کے بارے میں جو کچھ تاریخ میں مورخین نے لکھاہے نقل کریں گے۔ "

یقیناً شیعہ پس منظر سے تعلق رکھنے والے علما میں سے مفسر قرآن آغا سید مصطفی طباطبای کی "روزگار خلفای راشدین" اور آغا شرف الدین کی "دور رشد ورشادت" اہم کاوشیں ہیں۔ دونوں بزرگوار اب فرقوں کی بجائے صرف اسلام اور قرآن فہمی کے داعی ہیں اور لغوی طور پر خود کو 'شیعہ علی(علی ع کے حقیقی پیروکار)' کہلاتے ہیں نہ کہ بطور فرقہ۔

خلفاء سے دشمنی

ترمیم

"غالیوں کی خلفاء(راشدین) سے دشمنی اور نفرت وعداوت علی و زھراء کی خاطر نہیں بلکہ خلفاء نے فتوحات اسلامی کے ساتھ ساتھ قرآن و سنت پر جو عمل کیا ہے، یہ اس کا انتقام ہے۔"

آغا علامہ سید علی شرف الدین بلتستانی، کتاب رشد ورشادت ص 13

نبی ص کا دوست ابوبکر

ترمیم

"جنگ تبوک میں جاتے وقت نبی کریم ص نے فرمایا ہر صاحب حیثیت اس جنگ میں جتنا انفاق کر سکتا ہے کرے، اس کی کوئی حد نہیں ہے۔ ہر شخص نے اپنی استطاعت کے مطابق خرچ کیا۔ ابوبکر نے سب سے زیادہ خرچ کیا۔ پیغمبر نے پوچھا گھروالوں کے لیے کتنا چھوڑا ہے تو جواب دیا گھر میں اللہ اور اس کے رسول ص کا نام چھوڑا ہے۔

ہر نبی کا ایک دوست ہوتا ہے اور پیغمبر اکرم ص کا دوست ابوبکر ہے، ان کی دوستی اول سے آخر تک یکساں رہی۔ ابوبکر نبی کریم ص کی تمام سختیوں اور مشکلات میں بذل مال وجود و سخا کا مظاھرہ کرنے والوں میں سر فہرست شمار ہوتے ہیں۔ !!!"

آغا علامہ سید علی شرف الدین موسوی بلتستانی،کتاب رشد ورشادت صفحہ 40

حضرت عمر کا قاتل

ترمیم

"ابولولو باباشجاع قاتل خلیفۃ المسلمین غالیوں کی مکرم ومؤقر ھستی ہے۔ جس کا اندازہ یہاں سے ھو سکتا ہے کہ اب بھی ایران کے شہر کاشان میں اس کا مزار غالیوں کی زیارت گاہ ہے۔ علامہ مرزا عبد اللہ آفندی اصفہانی اور علامہ مجلسی اپنی کتاب ریاض العلماء و حیاض الفضلاء ج 5 صفحہ 507 پر اس طرح یاد فرماتے ہیں۔ "فیروز اعجمی فارسی شیعوں میں بابا شجاع الدین کے نام سے معروف ہے محمد بابا شجاع انہی سے منسوب ہے۔ یہ 9 ربیع الاول یا بعض کے نزدیک 24 ذی الحجہ الحرام کی بات ہے یہ غلام مملوک مغیرہ بن شعبہ تھے لیکن صاحب ریاض العلما لکھتے ہیں: "ابولولو اصحاب خیار علی میں سے تھے اسے علامہ کرکی نے بقربطن عمر کے نام سے یاد کیا ہے".

گرچہ یہ کتاب اپنے موضوع کے حوالے سے علما و دانشمندان سے مخصوص ہے بابا شجاع کا اس کتاب میں ذکر کرنے کی توجیہ میں لکھتے ہیں: "مناسب اور ضروری سمجھتا ھوں کیونکہ اس نے ایسا عمل انجام دیا ہے جو بڑے سے بڑے علما و دانشمندان انجام دینے سے عاجز و قاصر ہیں۔"لیکن یہ وہ شخص ہے جس نے خلیفہ دوم مسلمین سے فتح فارس اور شام کا انتقام لیا ہے، اس کی تلوار میں ایسا اثر تھا جس نے خلیفہ دوم کو جام انتقام نوش کروایا،یہ تلوار خلیفہ دوم سے گزرتے ھوئے سوم وچھارم کی حیات کے خاتمہ تک پہنچی،اس طرح اس نے تسلسل خلافت راشدہ مسلمین کا بھی خاتمہ کیا اس لیے غالیوں کے پاس محترم و مکرم ہے۔ انھوں نے اس کی قبر کو مزار بنایا ہے۔ اس وجہ سے بعض داعیان اتحاد اسلامی نے بھی 9 ربیع الاول کے دن کو حضرت کے دن کو حضرت عمر کے قتل کی خوشی کا دن قرار دیا ہے۔ خلیفہ مسلمین عمر بن خطاب کی جنگ و حکمت سے مجوسیوں، یہودیوں اور صلیبیوں کے قتل ھونے کے باوجود بعض مدعیان اور نام نہاد دوستداران اھل بیت کا اس یاد میں خوشیاں منانا حلق سے نہیں اترتا ہے۔ حتی وہ افراد جو امت کی عظیم مصلحت کی خاطر اتحاد ملت اسلامی کے پرچم اٹھائے ھوئے ہیں وہ بھی 9 ربیع الاول کو اس یاد میں خوشی مناتے ہیں بہت سے ایسے بھی ہیں جو علانیہ طور پر ایسا نہیں کرتے لیکن چھپ کر دلی طور پر خوشی کا مظاھرہ کرتے ہیں، مٹھائیاں کھاتے اور کھلاتے ہیں۔ اگر ہم حضرت عمر کو ایک حکومت اسلامی کے حاکم اعلی کی بہترین مثال تصور نہ کریں بلکہ ان کے اسلام واقعی کی بجائے اسلام نفاقی بھی تصور کریں تب بھی ان کا قتل قرآن اور سیرت وسنت محمد ص حتی سیرت علی بن ابی طالب سے متصادم و منافی دیکھتے ہیں(آغا نے 4 دلائل اس کے بعد دئے کہ کلمہ اسلام پڑھنے والا چاھے منافق ہی کیوں نہ ھو اس کا قتل حرام ہے). کیا اسلام میں یہ حکم ہے کہ منافقین جہاں کہیں ملیں انھیں قتل کرنا چاھیے؟ ایسا نہیں ہے۔ اسی طرح اگر کسی مجوسی نے کسی منافق مسلمان کو قتل کیا تو کیا ہمیں اس مجوسی نصرانی یا یہودی کو داد دینی چاھیے۔ اگر ایسا ہے تو یہ کہاں کا اسلام ہے؟ ہم غالیوں اور مخالفین کے نہ چاھتے ھوئے یا ان کی چاھت کے خلاف صدق و صداقت اور سراحت کو اپناتے ھوئے اور توریا وتقیہ سے دوری اختیار کرتے ھوئے دور خلافت حضرت عمر کو خلفاء راشدین کے دور میں مثالی سمجھتے ہیں اور دوسری طرف عمر کو نبی کے برابر لانے والے غالیوں کے کہنے پر خود کو عمری کہنے کیلے تیار نہیں۔ بلکہ علوی و محمدی کہلوانے کے رواداد بھی نہیں ہیں کیونکہ قرآن کریم میں اللہ نے ہمیں مسلمان جینے اور مرنے کا حکم دیا ہے۔ حدیث کی حاکمیت کے داعیوں اخباریوں اور اھل حدیثوں نے قرآن کی طرف دعوت دینے پر مجھے اپنے عتاب کا نشانہ بنایا،میرا رخ دین اسلام کی طرف قرآن سے ھوا ہے،اس کے باوجود ہم اپنے آپ کو قرآنیون کہنے کے حق میں نہیں ہیں کیونکہ قرآن نے ہمیں مسلمان جینے اور مرنے کا حکم دیا ہے۔" آغا علامہ سید علی شرف الدین موسوی ،دور رشد و رشادت صفحہ 88

شیعه علی ہوں

ترمیم

"میں اب بھی شیعہ ھوں گرچہ میں شیعہ فرقہ کے عقائد و رسومات پر عمل نہیں کرتا اور نہ ان کے غلط عقائد ورسومات کا حامی ھوں۔ میں شیعہ خطابی،دیصانی و قداحی بھی نہیں ھوں لیکن شیعہ کے معنی اتباع و پیروی کرنے والے یا پیروکار کے ہیں، تو میں ان معنوں میں پیغمبر اکرم ص کے بعد علی وحسنین اور دیگر ذوات اطہار کا شیعہ ھوں کیونکہ یہ ذوات قرآن و سنت پر عمل پیرا تہیں اور میں بھی اسی راستے پر چلنے کی کوشش کرتا ھوں۔ میں اپنے لیے شیعہ کا لفظ ان معنوں میں استعمال نہیں کر سکتا کہ جہاں شیعہ کے معنی اسلام کے مقابل آنے والے ھوں اور جہاں انھیں قرآن اور محمد ص سے چڑ ھو۔ اسی طرح میں اب بھی سنی نہیں ھوں گرچہ وہ قرآن و محمد اور کعبہ سے چڑ نہیں رکھتے،لیکن سنی بھی خرافاتوں،بدعتوں،قبور پرستی،درگاہ پرستی اور کفر و الحاد گرائی اور قرآن وسنت نبی ک کے مقابلے میں سیکولرازم کو فروغ دینے اور اس کی حمایت میں شیعوں سے آگے نہیں تو پیچھے بھی نہیں ہیں۔"

علامہ آغا سید علی شرف الدین موسوی،ص 229 دور رشد ورشادت صفرالمظفر1436 ھجری

حضرت فاطمه کے گھر پر هجوم اور آگ لگانے کا رد

ترمیم

"کہتے ہیں ابوبکر نے عمر ابن خطاب کے کہنے پر بیت نبوت اور مسکن عزیزان محمد ص پر جسوارانہ حملہ کرنے کا حکم دیا۔ نمی دانم اس حوالے سے باطنیوں نے اور کتنے اور کیا کیا مظالم گھڑے ہیں۔ فقیہ و حکیم اصفھانی کے مطابق دروازے کی میخ زھرا کے سینے پر لگی،نیز عمر کی لات سے زھرا گر کئیں جس سے زھرا مرضیہ کی پسلی ٹوٹی اور آپ کا حمل سقط ھوگیا۔ ان منقولات کے مصادر سلیم بن قیس ھلالی اور کتاب امامت و سیاست ابن قتبیہ ہیں جب کہ یہ دونوں کتابیں مردود عند اھل تحقیق ہیں۔ اسی طرح کتاب احتجاج طبرسی جو مجموعہ مرسلات ہے اور ابوالفرج اصفہانی آغانی فروش (گانے بیچنے والا) کی مقاتل الطالبین ہے۔ ایسی کتابوں کو بنیاد بنا کر اسلام و مسلمین کی حیثیت وعزت کو داؤ پر لگانے کی عقل وشریعت اجازت نہیں دیتی ہے۔" آغا سید علی شرف الدین موسوی،ص 49 دور رشد ورشادت

خلفاء کا دفاع

ترمیم

" ہم ان سے کیوں دفاع کرتے ہیں،ان سوالات کا جواب واضح ہے جب سے میری بصیرت کی آنکھ میں روشنی آئی اور اس سے مجھے واضح هوا کہ اہل بیت کے نام سے دھوکا دے کر اہل بیت قداحی وغیره کی پیروی کروائی جا رہی ہے اور اھل بیت حقیقی کے نام پر مشرکین کی بت پرستی کا احیاء کیا جا رھا ہے اور نت نئی بدعات اور خرافات کو فروغ دے کر ان کو دین محمد ص کا نام دیا جا رہا ہے،یہاں سے مجھے یقین ہوا کہ حضرت عمر کے بارے میں گھڑی گئی باتیں اکاذیب وکہانیاں ہیں،ان کا دامن پاک تھا وه مظلوم ہیں،اور مظلوم سے دفاع کرنا ہماری ذمہ داری اور فرض ہے تاکه امت محمدیہ جو ان جھوٹی کهانیوں کی بنیاد پر ایک دوسرے کی دشمن بنی ہے اس دشمنی کا خاتمہ ہو۔ "

علامه آ غا سید علی شرف الدین موسوی بلتستانی،کتاب رشد و رشادت صفحه 93

کعبہ اور شگاف پڑنا

ترمیم

اهل تشیع میں رایج نظریہ کہ علی کی کعبہ میں ولادت کی خاطر رکن یمانی میں شگاف ہوا۔ اس کا رد کرتے ہوئے علی شرف الدین لکھتے ہیں: "کتاب اخبار دول جلد 2 صفحه 54 پر آیا ہے کہ سنہ 593 ھجری میں ایک سیاہ آندھی آئی جس نے مکے میں شرارے یعنی پتھر کے ٹکڑے پھینکے،ان ٹکڑوں سے رکن یمانی کا کنارہ متاثر ھوا،اس میں شگاف پڑا،اور بعد میں جب رکن یمانی کی مرمت کی گئی تو وہ حصہ باقی حصے سے مختلف لگنے لگا۔"

آغا علامہ سید علی شرف الدین موسوی،کتاب رشد و رشادت ص 138

حوالہ جات

ترمیم
  • صبغت الاسلام www.sibghtulislam.com

سانچہ:سید علی شرف الدین موسوی بلتستانی

  • کتاب کا ڈاونلوڈ لنک

https://archive.org/details/RushdooRashaadat