سید علی شرف الدین موسوی بلتستانی
سید علی شرف الدین موسوی صاحب کی شخصیت پاکستان کے علما (بشمول شیعہ و سنی) میں احترام کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے۔ آپ اس دور کے ایک عظیم مصلح اور اتحاد بین المسلمین کے داعی ہیں۔ آپ قرآن اور اسلام ناب محمدی کی دعوت دینے والے اسکالرز میں سے ہیں۔ مرحوم مولانا اسحاق فیصل آبادی جو اتحاد بین المسلمین کے داعی تھے، آپ کے ان سے بھی دوستانہ روابط تھے۔ آج بھی علامہ سید علی شرف الدین موسوی پاکستان میں فرقہ بندی کی بجائے صرف اسلام کی طرف دعوت دینے والے گنے چنے اسلامی اسکالرز و علما میں سے ہیں۔
سید علی شرف الدین موسوی علی آبادی بلتستانی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
تاریخ پیدائش | 19مارچ، 1942ء |
شہریت | پاکستانی |
مذہب | اسلام |
فقہی مسلک | شیعہ علی |
مکتب فکر | اسلام |
عملی زندگی | |
پیشہ | الٰہیات دان |
درستی - ترمیم |
مختصر حالات زندگی
ترمیمسید علی شرف الدین بن سید محمد بن سید حسن موسوی[1] کی جائے پیدائش بلتستان کے ایک گاؤں چھورکاہ محلہ علی آباد ضلع شیگر کی ہے، جو مشہور پہاڑی چوٹی کے ٹو کے گرد و نواح کی ایک وادی ہے۔ ان کی سنہ پیدائش 1360ھ (1942ء) ہے۔ آپ بلتستان کے ایک شیعہ سادات کے مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ موسوی سید ہونے کی وجہ سے اپنے نام کے ساتھ موسوی لکھتے ہیں۔ آپ نے ا قرآن مجید و عربی زبان اور ابتدائی تعلیم اپنے علاقے بلتستان، شمالی پاکستان، سے حاصل کی۔تقریبا 13 سال[2] آبائی گاؤں میں مقیم رہے،ساتھ ہی چوتھی جماعت تک اسکول کی تعلیم بھی حاصل کی۔ اس کے بعد اعلیٰ اسلامی تعلیم کے حصول کے لیے لاہور جانے کا فیصلہ کیا[3]۔
جامع المنتظر میں تعلیم
ترمیم1956 عیسوی میں آپ نے بلتستان سے لاہور کا سفر کیا اور وہاں جامع المنتظر میں داخلہ لیا [4]وہاں پر عربی زبان نیز دیگر دینی علوم کی مزید تعلیم حاصل کی۔
عراق کا سفر اور تعلیم
ترمیمسید علی شرف الدین موسوی بلتستانی حصول علم کے لیے 1958 عیسوی کو[5] نجف اشرف عراق پہنچے وہاں حوزہ علمیہ نجف میں دینی تعلیم حاصل کرنے کے لیے داخلہ لیا۔ آپ نے وہاں جن علما سے استفادہ کیا ان میں ذیشان حیدر جوادی سے فلسفہ و ادب، آیت اللہ شیخ صدرا البادکوبی سے نیز آیت اللہ سید مسلم حلی سے کفایہ پڑھا۔آیت اللہ شیخ محسن آصفی کے پاس آپ نے منطق اور فلسفیہ پڑھا اور شیخ راستی کے پاس مکاتب پڑھا۔آیت اللہ شیخ تسخیری سے اقتصادنا و فلسفتنا کے دروس لیے اور آیت اللہ شیخ صادقی تہرانی سے تفسیر قرآن کے دروس لیے ،اور یہیں سے قرآن فہمی اور قرآنی دعوت کا شوق پیدا ہوا۔آیت اللہ سید کوکبی کے پاس رسائل کے درس میں شرکت کی۔آپ نے آیت اللہ سید خوئی اور آیت اللہ سید باقر صدر کے بحث خارج میں شرکت کی نیز باقر الصدر سے فقہ و اصول اور تدقیق میں استفادہ کیا۔آیت اللہ باقر الصدر سے کافی متاثر ہوئے اور انہی کی پیروی کرتے ہوئے وحدت اسلامی کے لیے بعد میں آپ نے کام کیا،نیز باقر الصدر کی تفسیر موضوعی[6] کا اردو ترجمہ کیا[7]
گاؤں واپسی اور تبلیغی سرگرمیاں
ترمیم1971 عیسوی میں علی شرف الدین اپنے وطن واپس لوٹے [8]اور بلتستان میں مذہب اثناعشری کی تبلیغ اور دینی علوم کی تدریس میں مشغول ہو گئے۔اور آپ نے وہاں جمعہ پڑھانے کا اہتمام بھی کیا اور آپ کی کاوش سے جامع محمدی قائم کی گئی نیز ایک مدرسہ بنام مدرسہ امام علی کی بنیاد رکھی تاکہ علوم قرآن اور عقائد اسلامی کی تعلیم دی جا سکے۔آپ وہاں 1979 تک موجود رہے۔[9]
ایران کا سفر اور تعلیم
ترمیمپھر 1979 عیسوی میں آپ نے اپنی دینی تعلیم کو جاری رکھنے کا عزم کیا اور اسی لیے قم گئے۔وہاں حوزہ علمیہ قم میں داخل ہو گئے اور آیت اللہ شیخ کاظم حائری کے درس اصول اور آیت اللہ شیخ مشکینی کے بحث خارج کے دروس میں شریک ہوئے۔[10]
دارالثقافہ الاسلامیہ کراچی کی تاسیس
ترمیمسید علی شرف الدین موسوی بلتستانی تقریباً 14 سال کے بعد جب نجف اشرف سے پاکستان آئے، آغا صاحب نے جس ادارے کی بنیاد ڈالی اس کا نام دارالثقافہ الاسلامیہ ہے،اس اداراے کی بنیاد 1405 ہجری میں رکھی گئی،اور 1420 ہجری میں یہ ادارہ بند ہو گیا[11]، یہ ادارے اپنے قیام سے اب تک کسی قسم سے بھی مرجعییت کے ذیر تسلط نہیں رہا اور نہ اس ادارے کو چلانے کے لیے کسی قسم کے خمس کا سہاری لیا گیا۔
اساتذہ
ترمیمعلی شرف الدین نے حوزہ علمیہ قم اور حوزہ علمیہ نجف میں جن علما و مجتہدین سے دینی تعلیم حاصل کیں ان کے نام[12] یہ ہیں:
- سید ذیشان حیدر جوادی
- آیت اللہ باقر الصدر
- آیت اللہ خوئی
- آیت اللہ مشکینی
- آیت اللہ صدرا البادکوبی
- آیت اللہ سید مسلم الحلی
- آیت اللہ محسن آصفی
- آیت اللہ راستی
- آیت اللہ کوکبی
- آیت اللہ صادقی تھرانی
- آیت اللہ محمد علی تسخیری
- آیت اللہ کاظم حائری
- آیت اللہ خمینی
- آیت اللہ آصف محسنی
- آیت اللہ شیخ عباس قوچانی
- آیت اللہ حسین حلی
- آیت اللہ محسن الحکیم
ان اساتذہ میں سے کافی اساتذہ نے آپ کو اجازہ نامہ بھی دیا۔[13]
تبلیغ شیعیت
ترمیمپاکستان آنے کے بعد ادارہ" دارالثقافہ الاسلامیہ پاکستان" کے تحت انھوں نے مذہب شیعہ جعفری اثنا عشری سے متعلق کتب کا اردو میں ترجمہ کرنے اور شیعہ مسلک کی تبلیغ کا آغاز کیا۔ انھوں نے شیعہ مسلک کی چوٹی کی کتابوں کا اردو میں ترجمہ کیا اور شیعہ مسلک کو پھیلانے میں پر عزم ہو گئے۔ انھوں نے پاکستان میں امام مھدی علیہ السلام سے متعلق اور ان کی شان میں لکھی گئی کتب اور "دعائے ندبہ" کو بھی عام کیا۔ اس کے علاوہ عربی و فارسی کے شیعہ مسلک سے متعلق کتب "شیعت کا آغاز کب اور کیسے"، تیجانی سماوی کی کتابوں "ہو جاو سچوں کے ساتھ" اور" پھر میں ہدایت پا گیا"، "فلسفہ امامت"، "مذہب اہل بیت"، "شب ہاے پشاور"، "اھل بیت آیت تطھیر کی روشنی میں" اوراس کے علاوہسینکڑوں کتب کے اردو ترجمہ کا بھی اہتمام کیا۔
انقلاب ایران اور پاکستانی شیعوں کی قیادت
ترمیمسید علی شرف الدین موسوی بلتستانی نے ١٩٧٩ کے انقلاب اسلامی کے بعد مقام رہبری اور مقام ولایت فقیہ کو پاکستان میں روشناس کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔ آغا صاحب کی پر جوش شخصیت ہی تھی جس کی وجہ سے قائد عارف حسین کی شہادت کے بعد اپ کا نام بھی قیادت کے لیے سنا جاتا رہا۔
قرآن فہمی کیلے جد و جہد
ترمیمسید علی شرف الدین موسوی بلتستانی نے ہی سب سے پہلے کراچی میں قرآن فہمی کے پروگرام کرائے اور قرآن فہمی کے عنوان سے مختلف مقابلے بھی کرائے۔ آغا صاحب نے ہی سب سے پہلے کراچی میں دعائے ندبہ کی محافل کا آغاز کیا۔ دروس کا سلسلہ بھی آغا صاحب کے ادارے میں طویل عرصے جاری رہا- جس کے ذریعے سینکڑوں عاشقان دین مستفید ہوتے رہے-
انھوں نے قرآن فہمی کے سلسلے میں رمضان 1407 ھجری میں پہلا سیمینار "یوم القرآن" منعقد کیا، تاکہ قرآنی تعلیمات کی اہمیت، قرآنی علوم کی نشر و اشاعت ہو سکے۔ اس سیمینار میں ملک کے علما و دانشوروں کو مختلف موضوعات پر قرآن کی روشنی میں اظہار خیلا کرنے کی دعوت دی گئی۔ یہ سیمینار مسلسل آٹھ(8) سال تک منعقد ہوتی رہیں۔ چنانچہ رمضان 1415 ھجری میں پہلی مرتبہ ملکی سطح پر مقابلہ معارف قرآن کا انعقاد کیا تاکہ کراچی شہر کی حدود سے نکل کر ملک کے دور دراز علاقوں کے لوگوں تک کو قرآنی تعلیمات کی جانب توجہ اور ان کے حصول کی ترغیب دی جائے اور یوں پورے ملک میں قرآن شناسی کی فضا پیدا ہو جائے۔ 1417 رمضان کو بھی آپ نے تیسری مرتبہ معارف قرآن کا اعلان کیا، جس میں حصہ لینے والوں اور اس کے ناظر افراد کی تعداد ہزاروں میں تھی۔10 ہزار کی تعداد میں یہ سوالات تقسیم کرنے کا اہتمام کیا۔
عزاداری اور قیام امام حسین
ترمیمعلامہ شرف الدین موسوی نے نہ صرف عزاداری اور قیام امام حسین علیہ السلامسے متعلق کتب لکیھں بلکہ عزاداری کی مجلسوں میں بھی شیعت اور اہل بیت پر مبنی خطبات دیے۔ چنانچہ تحقیقات و علمی جستجو کے دوران میں آپ پر عزاداری میں موجود خرافات ظاہر ہو گئیں چنانچہ اس سلسلے میں پہلے مشہور کتب شیعہ جو اصلاح عزاداری کے سلسلے میں تھی ان کا اردو میں ترجمہ کیا جیسے جناب علامہ طبرسی کی "اللولو والمرجان" کا اردو ترجمہ "آداب اہل منبر" اور آیت اللہ یزدی کی "حسین شناسی" جیسی کتب کے ترجمے شایع کیں۔ اس کے بعد آپ نے بذات خود ان خرافات کے خلاف کتابیں لکھنے کا فیصلہ کیا چنانچہ "عزاداری کیوں"، ا"نتخاب مصائب امام حسین"، "قیام امام حسین کا سیاسی جائزہ"، "تفسیر عاشورا" وغیرہ درجنوں کتب لکھیں۔ جلد ہی آپ نے پہچان لیا کہ مذہب تشیع میں بہت سی رسومات و خرافات بھی شامل ہو گئے ہیں چنانچہ آپ نے "عقائد و رسومات شیعہ" اور "شیعہ اہل بیت" اور "موضوعات متنوعہ" لکھی۔ اس کے علاوہ ان تمام رسومات اور بدعات کو رواج دینے والے اصل لوگوں کی پہچان کیلے"باطنیہ و اخوتھا" لکھی۔ ان سب کتابوں کو لکھنے کے علاوہ قرآن فہمی کے سلسلے میں "اٹھو قرآن کا دفاع کرو" اور اس جیسی 10 کے قریب کتابیں لکھیں۔
مخالفت اور رد عمل
ترمیمسید علی شرف الدین موسوی بلتستانی کی کتابوں اور بعض سوالات و نظریات اور اصلاحات کے خلاف بہت سے شیعہ علما ان کے مخالف ہو گئے۔ بہت سے علما نے ان کو شیعہ مسلک سے خارج قرار دیا۔ لیکن پھر بھی آغا شرف الدین کی پاؤں میں لغزش نہ آیا اور آپ مسلسل اسلام میں شامل کی گئی رسومات اور بدعات کے خلاف نبرد آزما رہے۔ ان سب سے تنگ آکر درباری ملاؤں نے ان کے قتل کا فتوی صادر کیا، کسی نے ان کو وہابی ایجنٹ کہا تو کسی نے استعماری ایجنٹ اور کسی نے کہا کہ آغا صاحب سنی ہو گئے ہیں۔ غرض آغا صاحب کے گھر کا گھیراؤ کیا گیا اور ان کو مسلسل 10 سال تک گھر میں محبوس رکھا۔ ان کی کتب پر آج بھی پابندی ہے۔ لیکن برقی کتب ان کی آفیشل ویب سائیٹ "صبغۃ الاسلام"پر دستیاب ہیں۔
شیعہ علی، کا نظریہ
ترمیمسید علی شرف الدین موسوی بلتستانی نے حال ہی میں تہمتوں اور بہتانوں کے بارے میں "محرم 2013 عیسوی" میں ایک کتابچہ"دارالثقافہ سے عروۃ الوثقی" لکھی۔ اس سے پہلے بھی "شیعہ اہل بیت نامی کتاب میں اور حالیہ کتاب "دارالثقافہ سے عروۃ الوثقی " میں بھی شیعہ اثنا عشری جعفری وغیرہ کی بجائے خود کو "شیعہ علی" کے نام سے پہچان کرایا ہے۔ ڈاکٹر علی شریعتی شیعہ علی کا نظریہ اپنی کتاب "تشیع علوی و تشیع صفوی" میں پیش کر چکے ہیں۔ اس کے بعد ڈاکٹر موسی الموسوی نے بھی اپنی کتاب "الشیعہ و التصحیح" میں شیعوں کو "علی کے شیعہ" اور خرافات سے پر شیعہ میں تقسیم کیا ہے۔ آیت اللہ ابو الفضل برقعی قمی اور حیدر علی قلمداران بھی اپنے نام کے ساتھ "شیعہ اثنا عشری جعفری" کی بجائے "شیعہ علی"لکھتے تھے۔
سید علی شرف الدین موسوی بلتستانی کے عقائد و نظریات
ترمیماس قطعہ کو حوالہ جات کی ضرورت ہے، ویکیپیڈیا کی مدد کریں |
سید علی شرف الدین موسوی بلتستانیچند مخصوص عقائد و نظریات یہ ہیں۔
- امامت کو نص قرآنی سے نہیں مانتے اور ان کا یہ کہنا ہے کہ نص وہ ہوتی ہے جس میں کوئی ابہام نہ ہو اور جب امت کے ایک بڑے طبقے نے غدیر خم کے موقع پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا خطبہ سننے کے باوجود مولا کے معنوں میں اختلاف کیا تو اس سے یہ پتا چلتا ہے کہ یہ نص نہیں ہے۔ اس کے علاوہ آغا صاحب کا یہ بھی کہنا ہے کہ علی ابن ابی طالب ہمیشہ اپنی فضیلت کو معیار بنا کر خلافت پر اپنے حق کو ثابت کیا ہے اور نص کا ذکر نہیں کیا۔ اس کے علاوہ علی ابن ابی طالب کا خلافت کی نامزدگی کے لیے ہونے والے ہر طریقہ کار میں شامل ہونا بھی اس بات کی دلیل ہے۔ اہلیبیت کے خاندان کے مختلف لوگوں نے امامت کا دعویٰ کیا۔
- اس کے علاوہ آغا صاحب تقلید غیر مشروط کے مخالف ہیں۔[14]
- توسل کے مخالف ہیں۔
- نکاح متعہ [15] کو غلط اور حرام سمجھتے ہیں۔
- تقیہ کو درست نہیں سمجھتے۔
- امام مہدی سے متعلق روایات کو صحیح نہیں سمجھتے۔ بلکہ ایسی تمام روایات کو افسانہ پردازوں اور قصہ سازوں کی گھڑی گئی روایات قرار دیتے ہیں۔۔[16] اور حالیہ برسوں میں سید علی شرف الدین نے عقیدہ مہدویت پر سب سے زیادہ تنقید کی ہے اور اپنی کتاب خطداھیون صفحہ 34 سے صفحہ 50 تک روایات مہدی اور وجود مہدی کو غیر اسلامی،باطل ،غیر قرآنی اور مفاد پرستوں کی اختراع و کارنامہ قرار دیا۔کتاب خطداحیون مولف سید علی شرف الدین صفحہ 34 تا آخر
- قبروں پہ تعمیرات کو درست نہیں سمجھتے۔
- فرقہ کی بجائے صرف اسلام کی دعوت دیتے ہیں۔
- توحید پہ بہت زور دیتے ہیں۔
- خلفاءراشدین کے دور کو بہترین اسلامی دور قرار دیتے ہیں۔[17]
- خلفاء و اصحاب رسول پر سب و شتم اور تبراء و لعن کو جائز نہیں سمجھتے۔
- علم، ذو الجناح، زنجیر زنی اور دیگر رسومات عزاداری کو بھی غیر شرعی سمجھتے ہیں۔
- تربت حسینی یا ٹکیے پر سجدہ کرنا ان کے خیال میں ضروری نہیں ہے۔ اس لیے وہ اب کارپیٹ یا قالین یا جائے نماز پر ہی سجدہ کرتے ہیں۔
سید علی شرف الدین موسوی بلتستانی اور چند احادیث
ترمیمسید علی شرف الدین بہت سی احادیث کو جعلی سمجھتے ہیں،جن کا ذکر ان کی کتاب صفحہ 64[18] پر ہیں جیسے:
- اول ما خلق اللہ نوری و نور علی۔
- اولنا محمد و اوسطنا محمد و آخرنا محمد و کلنا محمد۔
- آسمان و زمین کو اللہ تعالی نے آل محمد کے لیے خلق کیا ہے،یہ حدیث کساء کے نام سے بھی مشہور ہے۔
- من عرف نفسہ فقد عرف ربہ۔
- علی نفس رسول اللہ ہیں۔
- اہل بیت کے لیے صدقہ حرام ہے۔
- ائمہ مخلوق نوری ہیں۔
- ائمہ محدث ہیں۔
- حضرت علی ابراہیم و موسی و عیسی کے ساتھ تھے۔
- ذکر علی عبادت ہے۔
- علی ؑ سے منسوب جملہ میں تیری عبادت جہنم کے خوف اور جنت کی لالچ میں نہیں کرتا ہوں۔
- علی ؑ لاکھوں ھروف جانتے تھے۔
- نبی ص نے علی ؑ کو ہزار کلمات سکھائے ہیں۔
- نبی ص نے مجھے ہزار باب سکھائے،ہر باب سے ہزار باب کھل گئے۔
- انا مدینۃ العلم و علی بابھا۔
- سلونی قبل ان تفقدونی۔
- علی ع عالم غیب و غیوب ہیں۔
- حضرت علی ؑ کا بتوں کو توڑنا۔
- انا و علی من نور واحد۔
- چہرہ علی ؑ کو دیکھنا عبادت ہے۔
- علی ؑ کے لیے سورج کا پلٹانا۔
- علی ؑ کعبہ میں پیدا ہوئے۔
- امامت افضل از نبوت ہے۔
- لولاک لما خلقت الافلاک۔
علمی و ادبی خدمات
ترمیمآغا سید علی شرف الدین موسوی کی لکھی گئی کتابوں کے نام یہ ہیں۔
|
|
|
تنقید
ترمیم- آپ کے کچھ مسلکی مخالفین آپ کو امت کے لیے فتنہ گردانتے ہیں۔ ناقدین کی نظر میں آپ متنازع شخصیات میں سے ہیں، دقائق اسلام نامی، کتاب میں آیت اللہ محمد حسین نجفی نے آپ پر عصمت ائمہ، امام مہدی اور تقلید کے حوالے سے آپ کے نظریات کی وجہ سے تنقید کی۔
- کچھ علما کرام آپ کے امام مہدی سے متعلق نظریات پر ناراضی کا اظہار کرتے ہیں۔
- اتحاد امت کی کوششوں اور سنی علما سے اچھے تعلقات کی بنا پر اہل سنت مخالف گروہوں نے ان پر تنقید کی۔
- اماموں کی عصمت اور منصوص من اللہ ہونے کا انکار کرنے کی وجہ سے بعض علما اہل تشیع نے آپ کو اہل تشیع سے خارج قرار دیا۔
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ↑ کتاب :تلامذة الامام الشهيد الصدر ، صفحہ نمبر 201
- ↑ کتاب :تلامذة الامام الشهيد الصدر ، صفحہ نمبر 201
- ↑ کتاب :تلامذة الامام الشهيد الصدر ، صفحہ نمبر 201
- ↑ تلامذة الامام الشهيد الصدر ،صفحہ نمبر 201
- ↑ صحیفات سودا صفحہ نمبر 8،مولف علی شرف الدین
- ↑ http://sibghatulislam.com/downloads.aspx
- ↑ تلامذة الامام الشهيد الصدر ،صفحہ نمبر 201
- ↑ صحیفات سودا ،بقلم علی شرف الدین صفھہ نمبر 13
- ↑ تلامذة الامام الشهيد الصدر ،صفحہ نمبر 202
- ↑ تلامذة الامام الشهيد الصدر ،صفحہ نمبر 203
- ↑ صحیفات سودا صفحہ نمبر 144
- ↑ کتاب :تلامذة الامام الشهيد الصدر ، صفحہ نمبر 201
- ↑ صحیفات سودا ،صفحہ نمبر 148،مولف علی شرف الدین
- ↑ کتاب موضوعات متنوعہ (اجتہاد،متعہ،توسل) از علی شرف الدین موسوی صفحہ 31 تا 129 نکاح متعہ سید علی شرف الدین کا موقف
- ↑ کتاب موضوعات متنوعہ(اجتہاد،متعہ،توسل) از علی شرف الدین موسوی صفحہ 162 تا 267 نکاح متعہ سید علی شرف الدین کا موقف
- ↑ کتاب باطنیہ مولف سید علی شرف الدین صفحہ 134 تا 180 کتاب باطنیہ و اخوتھا یا تخریب دین میں باطنیہ کا کردار از علی شرف الدین موسوی
- ↑ کتاب رشد و رشادت صفحہ نمبر 12 تا آخر صفحات کتاب رشد و رشادت یا بہترین حکمرانی کا دور از سیدعلی شرف الدین موسوی
- ↑ Khatdaahiyon
- موضوعات متنوعہ
- [1]
- [2]
- [3][مردہ ربط]
- تفسیر عاشورا
- دارالثقافہ سے دارالوثقی
- دقائق اسلام، آیت اللہ محمد حسین نجفی
- تقدیس محراب و منبر، سید محمد حسین زیدی برستی