رکن یمانی خانہ کعبہ کے جنوب مغربی کونے کو کہتے ہیں۔یہ بیت اللہ کا وہ کونا ہےجو ملک یمن کی جانب واقع ہے۔ اسی لئے اس کو رکن یمانی کہتے ہیں۔

فائل:Rukn yamani.jpg
رکن یمانی

رکن سے مراد

ترمیم

بیت اللہ کے چاروں کو نوں پر چار ارکان ہیں

رکن یمانی کے فضائل

ترمیم

محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: رکن یمانی اور حجر اسود دونوں جنت کے دروازے ہیں۔ [1]

عن ابن عمر قال علی الرکن الیمانی ملکان یؤمنان علی دعاء من مر بہما و ان علی الحجر الاسود ما لا یحصی۔

ترجمہ: عبد اللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ رکن یمانی پر دو فرشتے ہیں جو وہاں سے گذرنے والے کی دعا پر آمین کہتے ہیں اور حجر اسود پر تو بے شمار فرشتے ہوتے ہیں“۔ [2] روایت میں آیا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام نے مقام ابراہیم کے پیچھے اور ملا علی قاری کی روایت میں رکن یمانی پر یہ دعا فرمائی:

اللہم انک تعلم سری و علانیتی فاقبل معذرتی‘ و تعلم حاجتی فاعطنی سؤلی و تعلم ما فی نفسی فاغفر لی ذنوبی“۔ اللہم انی اسألک ایمانا یباشر قلبی و یقیناً صادقاً حتی اعلم انہ لا یصیبنی الا ما کتبت لی‘ و رضاً بما قسمت لی یا ارحم الراحمین۔

ترجمہ:․․․”اے اللہ! آپ میرے چھپے اور کھلے کے جاننے والے ہیں ‘ میری معذرت قبول فرما لیجئے اور آپ میری ضرورت کو جانتے ہیں مجھ کو میری حاجت کی چیز عطا فرما دیجئے اور آپ جانتے ہیں جو کچھ مجھ میں ہے ‘ میرے گناہ بخش دیجیئے ‘ اے اللہ! میں آپ سے وہ ایمان مانگتا ہوں جو میرے دل میں رچ جائے اور وہ سچا یقین کہ میں خوب جان لوں کہ وہ بات جو آپ نے میری تقدیر میں لکھ دی ہے بس وہی مجھ کو پیش آسکتی ہے اور رضامندی مانگتا ہوں (اس زندگانی پر) جو آپ نے میرے لیے تقسیم فرما دی ہے“۔- [3]

استلام

ترمیم

رکن یمانی پر استلام کے بارے میں ملاحظہ فرمائیں: استلام، رکن یمانی پر بھی استلام کرنا مستحب ہے ۔ یہاں صرف دایاں ہاتھ یا دونوں ہاتھ رکن یمانی پر لگائے جاتے ہیں۔

مزید دیکھیے

ترمیم

بیرونی روابط

ترمیم

نگار خانہ

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. جامع اللطیف، ماخوذ تاریخ مکۃ المکرمۃ ج:2، ص:227
  2. الازرقی، 1/341، فضل الحجر الاسود، ص:4
  3. ذکرہ الامام علی القاری فی المناسک ،ص:94 وقال رواہ الازرقی‘ والطبرانی فی الاوسط‘ والبیہقی فی الدعوات‘ وابن عساکر‘ وورد الدر المنثور للسیوطی 1/59‘ وکنز العمال 5/57‘ وممن ذکرہ ایضا علی انہ دعاء ماثور الامام ابن الہمام فی فتح القدیر، 2/360‘ وابن حجر الہیتمی فی حاشیتہ علی مناسک النووی، ص:260‘