دی کامریڈ
دی کامریڈ (انگریزی: The Comrade) ایک ہفتہ وار انگریزی اخبار تھا جو محمد علی جوہر کی ادارت میں سنہ 1911ء سے 1914ء تک شائع ہوتا رہا۔ محمد علی جوہر زبردست خطیب اور بہترین انشا پرداز تھے، انھوں نے دی کامریڈ جاری کرنے سے قبل دی ٹائمز، دی آبزرو اور مانچسٹر گارڈین سمیت متعدد اخباروں میں مضامین لکھے تھے۔
مدیر | محمد علی جوہر |
---|---|
دورانیہ | ہفتہ وار |
بانی | محمد علی جوہر |
تاسیس | 1911ء |
پہلا شمارہ | 14 جنوری |
آخری | 26 ستمبر، 1914ء |
ملک | ہندوستان |
مقام اشاعت | کلکتہ، بعد ازاں دلی |
زبان | انگریزی |
مہنگے کاغذ پر تیار کامریڈ تیزی سے اثر انداز ہوا اور خوب شہرت حاصل کی حتیٰ کہ بین الاقوامی سطح پر بھی مشہور ہو گیا اور بہت سے غیر ممالک میں غیر ملکی بھی اس کے حلقہ قارئین میں شامل ہو گئے۔[1] کلکتہ سے شائع ہونے والا یہ اخبار 1912ء میں برطانوی راج کے نئے اعلان کردہ دار الحکومت دہلی میں منتقل ہو گیا جہاں سے 12 اکتوبر کو دہلی ایڈیشن کا پہلا نسخہ شائع ہوا۔ 1913ء میں جوہر نے مسلمان عوام تک اپنی آواز کو پہنچانے کے لیے ایک اردو روزنامہ ہمدرد بھی جاری کیا۔[2]
مقصد اور ادارتی موقف
ترمیممحمد علی جوہر مسلم لیگ کے رکن اور سینئر رہنما تھے۔ چنانچہ دی کامریڈ نے عموماً پارٹی کے نظریات کی پیروی میں اپنی آواز بلند کی۔ محمد علی نے 1911ء میں بنگال کی تقسیم کے تنازع پر تنقید کرتے ہوئے سلسلہ وار مضامین لکھے اور ان میں دی ٹربیون، سریندرناتھ بنرجی کے دی بنگالی اور دوسرے لوگوں کے اخبار پر تنقید کی جنھوں نے لیگ اور علی گڑھ کی سیاسی نظریہ کی مخالفت کی تھی۔[3] نیز کامریڈ نے 14 جنوری 1911ء کو اپنی پہلی اشاعت میں ہندوؤں اور مسلمانوں میں ما بہ الامتیاز امور کی بے جھجھک وضاحت کی تھی۔[4] اس کے باوجود کامریڈ نے ہندو مسلم اتحاد کی وکالت کی اور دونوں برادریوں کو قومی معاملات میں ساتھ مل کر کام کرنے کی دعوت دی۔ محمد علی کا ارادہ تھا کہ کامریڈ کے ذریعے مسلم مسائل کے لیے قومی اور عالمی حمایت کا راستہ استوار ہو۔ چنانچہ اپنے اس عزم کو عملی جامہ پہنانے کی غرض سے انھوں نے متعدد ایسے مضامین لکھے جو جنگ بلقان، مصر پر برطانوی قبضہ اور پہلی جنگ عظیم میں ترکی کے کردار جیسے اہم عالمی واقعات کے دوران میں عالمی سطح پر مسلمانوں کی زبوں حالی کو اجاگر کرتے تھے۔ مضامین اور اداریے عام طور پر مسلم دنیا میں اور خاص طور پر ترکی میں برطانوی برتری سے متعلق ہوتے۔
ڈسکوری آف انڈیا میں جواہر لعل نہرو نے محمد علی اور کامریڈ کے اوراق میں ان کے صحافتی موقف کا جائزہ لیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
” | 1911ء میں بنگال کی تقسیم کے اعلان سے انہیں صدمہ پہونچا اور برطانوی حکومت کی نیک نیتی پر ان کا یقین کمزور ہو گیا۔ بلقان کی جنگوں نے ان کا رخ بدل دیا تھا اور انھوں نے ترکی اور اسلامی روایات کے حق میں جذباتی طور پر بہت کچھ لکھا۔ رفتہ رفتہ وہ برطانیہ کے مزید مخالف ہوتے گئے اور پہلی جنگ عظیم میں برطانیہ کے خلاف ترکی کی شمولیت نے اس مخالفت کو پایہ تکمیل تک پہونچا دیا۔[5] | “ |
پہلی عالمی جنگ کے آغاز کے ساتھ برطانوی حکومت یہ چاہتی تھی کہ ان کی ہندوستانی رعیت اتحادی ممالک کے وفادار رہے۔ برطانوی حکومت خاص طور پر مسلمان رعایا اور اتحاد اسلامی کی سرگرمیوں کے متعلق فکرمند تھی۔ چنانچہ برطانوی حکومت نے پہلی جنگ عظیم کے آغاز میں برطانیہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف مسلمانوں کے جذبات کو برانگیختہ کرنے کے لیے محمد علی اور ان کے اخبار کو ذمہ دار پایا۔[6]
بندش اور جرمانہ
ترمیم1914ء میں کامریڈ میں محمد علی جوہر نے "دی چوائس آف ترک" کے عنوان سے سلسلہ وار مضامین قلم بند کیے جن میں انھوں نے برطانیہ کی ترکوں کے خلاف کی گئی غلطیوں کو شمار کروایا لیکن اس کے باوجود ترکوں کو اتحادیوں کے ساتھ شامل ہونے کا مشورہ دیا۔ یہ مضمون اس اخبار کی بندش کا باعث بنا۔ 26 ستمبر 1914ء کو فرنگی حکام نے اس پر پابندی عائد کر دی، اس پر 2,000 کا جرمانہ عائد کیا اور اخبار کی تمام کاپیاں 1910ء کے پریس ایکٹ کی دفعات کے تحت ضبط کر لی گئیں۔[7]
عدم تعاون تحریک اور 1922ء میں تحریک خلافت کے خاتمے کے بعد جن میں محمد علی جوہر نے اپنے بھائی شوکت علی کے ساتھ اہم کردار ادا کیا تھا، 1924ء میں کامریڈ اور ہمدرد کو دوبارہ جاری کیا گیا۔ اس اخبار کے ذریعہ انھوں نے ہندو مسلم اتحاد کا پیغام عام کیا۔ لیکن کامریڈ محض دو سال کی اشاعت کے بعد بند ہو گیا۔
1937ء میں بنگالی صحافی اور مجاہد آزادی مجيب الرحمن خان نے مولانا محمد علی جوہر کے اصل اخبار کے اعزاز میں دی کامریڈ نامی ایک انگریزی اخبار جاری کیا۔[8]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ "Maulana Muhammad Ali Jouhar"۔ Story of Pakistan۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 دسمبر 2018
- ↑ "آرکائیو کاپی"۔ 18 مئی 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 دسمبر 2018
- ↑ شیخ محمد اکرام, Indian Muslims And Partition Of India, New Delhi: Atlantic Publishers, 1992, p. 156.
- ↑ "Maulana Mohammad Ali Johar"۔ Pakistan Herald۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 دسمبر 2018
- ↑ Jawaharlal Nehru, The Discovery of India, Penguin India, 2004. p. 382.
- ↑ Public spaces of discourse: innovations and interventions in colonial India, Gurpreet Bhasin, Open University. http://www.mediapolis.org.uk/Papers/Gurpreet%20Bhasin.pdf%7B%7Bمردہ[مردہ ربط] ربط|date=January 2021 |bot=InternetArchiveBot}}
- ↑ "Full text of "Muhammad Ali, his life, services and trial""۔ archive.org۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 دسمبر 2018
- ↑ "Khan, Mujibur Rahman1"۔ banglapedia.org۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 دسمبر 2018