مدافعتی نظام میں لفظ ذات / ذاتی / ذاتیہ (self) کسی بھی جاندار کے جسم میں موجود ایسے مستضدی (antigenic) اجزائے ترکیبی کو کہا جاتا ہے کہ جن کو اس جاندار کا مناعی نظام اپنے (برعکس پرائے) کی حیثیت سے پہچان لیتا ہے۔ یعنی سادہ اور آسان الفاظ میں اس بات کو یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ قوت مدافعت میں ذاتیہ سے مراد ایسے اجزاء کی ہوتی ہے جن کو مناعی نظام اپنا سمجھتے ہوئے ان کے خلاف عمل نہیں کرتا یا یوں کہہ لیں کہ ان کو تباہ کرنے کی کوشش نہیں کرتا۔ اپنے اور پرائے کی اس پہچان کی عام مثال خون دینے (transfusion) کے وقت دیکھی جا سکتی ہے کہ اگر بے میل (mismatch) خون جسم میں داخل ہو جائے تو مناعی نظام داخل ہونے والے خون کے خلیات کو تباہ کر دیتا ہے اور ان کے خلاف تعامل کرتا ہے جبکہ یہی خون کے اجزاء خون لینے والے کے جسم میں بھی موجود تھے لیکن ان کے خلاف مناعی نظام کوئی تعامل نہیں کرتا کیونکہ انھیں وہ اپنے یا خود کے طور پر شناخت کرتا ہے اور بیرونی خون کے داخل ہونے اجزاء کو وہ پرائے یا غیرذاتی (non-self) کے طور پر دیکھتا ہے اور اجنبی و درانداز جان کر انکا صفایا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

ذات شناسی

ترمیم

ذات شناسی۔

مناعی نظام کی اس اپنے پرائے کی شناخت کا انحصار ایک ایسے آلیہ یا mechanism پر ہوتا ہے جسے مناعیات میں ذات شناسی (self recognition) کہا جاتا ہے اور اس میں خلیاتی کی نسبت سالماتی عمل دخل کا زیادہ کردار پایا جاتا ہے یعنی اس کا مطلب سالماتی حیاتیات کی رو سے یہ ہے کہ خلیات، بالواسطہ (بذریعۂ سالمات) اور سالمات، بلاواسطہ عمل پیرا ہوتے ہیں۔ اس ذاتی تعرف کی خصوصیت کے باعث کسی بھی جاندار یا نامیے کا مناعی نظام، اس کے اپنے جسم کے انسجہ، خلیات و سالمات (کیمیائی مرکبات) کو باہر سے اس جاندار یا نامیے میں داخل ہونے والے انہی اجزاء سے الگ اور اپنے کی حیثیت سے شناخت کر سکتا ہے۔ اس ذاتی تعرف کی وجہ سے جاندار کا جسم امراض مناعت ذاتیہ (autoimmune diseases) سے محفوظ رہتا ہے اور چونکہ جسم کی مناعت اپنے اجزائے جسم کے خلاف قوت برداشت کا مظاہرہ کرتی ہے اس لیے اس خاصیت کو تحمل (tolerance) کا نام دیا جاتا ہے، جسم میں اس مناعی تحمل کی دو بڑی اقسام دیکھی جا سکتی ہیں جنہیں ان کے مقامِ عمل سے شناخت کیا جاتا ہے۔

مرکزی تحمل

ترمیم

ملحقہ تحمل

ترمیم