ذوالفقار علی دیوبندی

بھارتی مسلمان عالم

ذو الفقار علی دیوبندی دار العلوم دیوبند کے بانیوں میں ایک ہیں ، اکابر ستہ جنھوں نے دار العلوم دیوبند کی بنیاد رکھی ، بوقت بنیاد ان میں سب سے عمر دراز ذوالقار علی دیوبندی (45 سال ) ہی تھے ، عربی واردو ادب میں یکساں کمال و مہارت رکھتے تھے ، مشہور عالم و مجاہد آزادی محمود حسن دیوبندی انھی کی فرزند ہیں ۔[1]

ذوالفقار علی دیوبندی
معلومات شخصیت
اولاد محمود حسن دیوبندی   ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

ذاتی احوال

ترمیم

دہلی کالج میں مملوک علی نانوتوی سے پڑھا ، فراغت کے بعد دہلی کالج کے پروفیسر مقرر ہویے ، چند سال بعد محکمہ تعلیم میں ڈپٹی انسپکٹر ہو گئے ، پینشن پانے کے بعد دیوبند میں آنریری مجسٹریٹ ہو گئے ۔

ایک فرانسیسی مصنف کی شہادت

ترمیم

ذوالفقارعلی دیوبندی کے متعلق فرانس کا مشہور مصنف گارسان دتاسی لکھتا ہے :

وہ دہلی کالج کے طالب تھے ، چند سال کے لیے بریلی کالج میں پروفیسر ہوگیے ، 1857ء میں میرٹھ میں ڈپٹی انسپکٹر مدارس تھے ، مسٹر ٹیلر ان سے واقف تھے ، ان کا بیان ہے کہ ذوالفقار علی ذہین اور طباع ہونے کے علاوہ فارسی اور مغربی علوم سے بھی واقف تھے ، انھوں نے اردو میں تسہیل الھساب کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے ، جو بریلی میں 1852ء میں چھپی ہے ۔

[2]

تحریک قیام دار العلوم

ترمیم

1857ھ کی جنگ نے پورے ہندوستان کو ہلا کر رکھ دیا تھا ، خصوصا دہلی و صوبہ اتر پردیش کی جہاں سے یہ جنگ شروع اور ختم ہوئی ، اس کے سبب دہلی جو علوم کا مرکز تھا یکسر تباہ ہو گیا ، جو لوگ دوسرے مقامات پر ملازمت پر تھے ، چھوڑ چھاڑ کر اپنے وطن کو لوٹنے لگے ، دیوبند محمد قاسم نانوتوی کی سسرال بھی ہوتی تھی ، اس لیے ان کا یہاں آنا جانا کثرت سے تھا ، دیوبند کے سید محمد عابد دیوبندی (حاجی عابد حسین) ، فضل الرحمن عثمانی دیوبندی ذو الفقار علی دیوبندی سے نانوتوی کا مودت و محبت کا رشتہ قائم تھا ، ان حضرات کا وقت علم کے احیاء اور امت کی حالت پر غور و حل تلاش کرنے میں صرف ہونے لگا ، یہ بات دہرائی جانے لگی کہ دہلی کے بجایے اب دیوبند کو علم ، اصلاح ، اجتماعیت کا مرکز بنایا جایے ۔ سابقہ طرز یہ ہوا کرتا تھا کہ شاہی خزانوں سے علما کی خدمت کی جاتی تھی ، ان کے وطائف مقرر ہوتے تھے ، لیکن انگریز کے دور میں یہ ممکن نہ تھا ، بلکہ وہ تو ہندوستان و مسلمانوں کی دشمنی پر آمادہ تھے یا اوقاف ہوا کرتے تھے جس سے ضروریات کی تکمیل ہو ، مگر اس وقت اتنی گنجائش نہ تھی کہ اس کی بھی کوئی شکل ہو سکے ، ادھر قیام مرکز کا داعیہ بھی شدید تھا ، اس لیے اب ضرورت کہ سابقہ طرز بھروسا کرنے کے بجایے کوئی دوسرا طریقہ اختیار کیا جایے ، نانوتوی کے اصول ہشت گانہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان اکابر کے سامنے وہ طریقہ عوامی چندہ کا تھا ، جس میں نہ حکومت کی مالی امداد شامل ہو اور نہ جاگیر داروں کی ، تاکہ سرکاری اثرات سے یہ تعلیم بالکل آزاد رہے ۔[3]

چندے کی تحریک

ترمیم

چندے کی فراہمی کے سلسلہ میں جس نے سب سے پہلے عملی اقدام کیا وہ حاجی عابد حسین تھے ، حاجی فضل حق نے نانوتوی کی سوانح مخطوطہ میں دار العلوم دیوبند کے لیے چندے کا طریقہ کار اختیار کرنے کی تفصیل بیان کرتے ہویے لکھا ہے کہ :

ایک دن بوقت اشراق حضرت سید محمدعابد سفید رومال کی جھولی بنا اور اس میں تین روپیے اپنے پاس سے ڈال چھتے کی مسجد میں تن تنہا مولوی مہتاب علی مرحوم کے پاس تشریف لایے ، مولوی صاحب نے کمال کشادہ پیشانی سے چھ روپے عنایت کئے اور دعا کی، اور بارہ روپے مولوی فضل الرحمن صاحب نے ، اور چھ روپے اس مسکین (سوانح مخطوطہ کے مصنف حاجی فضل حق صاحب) نے دیے ، وہاں سے اٹھ کر مولوی ذوالفقار علی سلمہ اللہ تعالیٰ کے پاس آیے ، مولوی صاحب ماشاء اللہ علم دوست ہیں، فورا بارہ روپے دیے ، اور حسن اتفاق سے سید ذوالفقار علی ثانی دیوبندی وہاں موجود تھے ، ان کی طرف سے بھی بارہ روپے عنایت کیے ، وہاں سے اٹھ کر یہ درویش بادشاہ صفت محلہ ابو البرکات پہنچے ، دو سو روپے جمع ہوگیے ، اور شام تک تین سو روپے ، پھر تو رفتہ رفتہ خوب چرچا ہوا اور جو پھل پھول اس کو لگے وہ ظاہر ہیں، یہ قصہ بروز جمعہ دوم ماہ ذی قعدہ 1282ھ میں ہوا ۔

[4]

تصانیف

ترمیم

عربی زبان و ادب میں بڑی دسترس تھی ، دیوان حماسہ کی شرح تسہیل الدراسہ ، دیوان متنبی کی شرح تسہیل البیان ، سبعہ معلقہ کی شرح التعلیقات علی السبع المعلقات ، قصیدہ بانت سعاد کی شرح ارشاد اور قصیدہ بردہ کی شرح عطر الوردہ اردو میں تحریر کیں ، ان شروح میں عربی کے غریب اور مشکل الفاظ اور محاورات کا ایسا سلیس و بامحاورہ ترجمہ اور ایسی دلنشیں تشریح کی ہے ، جس کی بدولت عربی ادبیات کی یہ سنگلاخ کتابیں طلبہ کے لیے نہایت سہل اور آسان ہوگئیں ، معانی وبیان میں تذکرۃ البلاغۃ اور ریاضی میں تسہیل الحساب ان کی یادگار کتابیں ہیں ۔ 1307ھ میں عربی میں ایک مختصر رسالہ الہدیۃ السنیۃ فی ذکر المدرسۃ الاسلامیۃ الدیوبندیۃ کے نام سے لکھا ، جس میں بزرگان دار العلوم دیوبند کے اوصاف و کمالات اور سرزمین دیوبند کی خصوصیات پر بڑے لطیف اور ادیبانہ انداز میں تبصرہ کیا ہے ۔[5]

وفات و مدفن

ترمیم

1322ھ مطابق 1904ء میں بعمر 85 سال انتقال ہوا ، قبرستان قاسمی میں محمد قاسم نانوتوی کے پہلو میں جانب مشرق ان کی قبر ہے ، ان کے بائیں جانب محمد احسن نانوتوی مدفون ہیں ، فضل الرحمن عثمانی دیوبندی کے ایک شعر میں اس کی کی دل چسپ نشان دہی ہوتی ہے :

ہاں! بخسپ آسودہ تر مابین دو یارانِ خویش

قاسمِ بزم مودت ، احسن شائستہ خو

[5]

حوالہ جات

ترمیم
  1. http://www.darululoom-deoband.com/urdu/
  2. تاریخ دار العلوم دیوبند جلد 1 صفحہ 124
  3. تاریخ دار العلوم دیوبند جلد 1 صفحہ 146
  4. تاریخ دار العلوم دیوبند جلد 1 صفحہ 150
  5. ^ ا ب "آرکائیو کاپی"۔ 03 ستمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 اگست 2018