رئیس محمد(پیدائش: 25 دسمبر 1932ء جونا گڑھ اسٹیٹ تب انڈیا) | (وفات: 14 فروری 2022ء) جنھوں نے 1948ء سے 1963ء تک 30 اول درجہ میچ کھیلے۔ ایک دائیں ہاتھ کے بلے باز اور ایک لیگ اسپنر بھی تھے جنھوں نے دو سنچریوں کی مدد سے 1,344 رنز بنائے اور 33 وکٹیں حاصل کیں۔ان کا تعلق کرکٹ کی محمدن فیملی سے تھا اس خاندان میں ان کے دیگر بھائیوں حنیف محمد' وزیر محمد' مشتاق محمد اور صادق محمد نے بھی کرکٹ کھیلی۔رئیس محمد کے علاوہ باقی تینوں بھائی وزیر محمد (20ٹیسٹ)' مشتاق محمد (57 ٹیسٹ) اورصادق محمد (41 ٹیسٹ ) میں پاکستان کی نمائندگی کا اعزاز رکھتے ہیں جبکہ ان کی والدہ امیر بی متحدہ ہندوستان کی بیڈمنٹن چمپئن رہ چکی ہیں[1] سابق ٹیسٹ کرکٹ کھلاڑی شعیب محمد ان کے بھتیجے ہیں۔ اور ان کے دو بیٹے آصف محمد اور شاہد محمد نے بھی فرسٹ کلاس کرکٹ میں حصہ لیا[2]

رئیس محمد
ذاتی معلومات
پیدائش25 دسمبر 1932(1932-12-25)
جوناگڑھ، ریاست جونا گڑھ، برطانوی راج
وفات14 فروری 2022(2022-20-14) (عمر  89 سال)
بلے بازیدائیں ہاتھ کا بلے باز
گیند بازیدایاں ہاتھ کالیگ بریک، گوگلی گیند باز
حیثیتبلے باز
تعلقاتوزیر محمد (بھائی)
حنیف محمد (بھائی)
مشتاق محمد (بھائی)
صادق محمد (بھائی)
شعیب محمد (بھتیجا)
آصف محمد (بیٹا)
ملکی کرکٹ
عرصہٹیمیں
1953/54 – 1961/62کراچی کی کرکٹ ٹیموں کی فہرست
1959/60پشاور کرکٹ ٹیم
کیریئر اعداد و شمار
مقابلہ فرسٹ کلاس
میچ 30
رنز بنائے 1,344
بیٹنگ اوسط 32.78
100s/50s 2/8
ٹاپ اسکور 118*
گیندیں کرائیں 1,032
وکٹ 33
بالنگ اوسط 31.27
اننگز میں 5 وکٹ
میچ میں 10 وکٹ
بہترین بولنگ 4/82
کیچ/سٹمپ 21/–
ماخذ: کرک انفو، 14 مارچ 2013

ذاتی زندگی ترمیم

رئیس محمد کا تعلق ایک بڑے اور مشہور پاکستانی کرکٹ خاندان سے تھا۔ ان کے بھائی وزیر محمد، حنیف محمد، مشتاق محمد اور صادق محمد نے پاکستان کے لیے ٹیسٹ کرکٹ کھیلی۔ ان کے بھتیجے شعیب محمد نے ایک روزہ بین الاقوامی کرکٹ کھیلنے کے ساتھ ساتھ ٹیسٹ کی سطح پر بھی پاکستان کی نمائندگی کی۔ ان کے بیٹے آصف محمد نے فرسٹ کلاس اور لسٹ اے کرکٹ کھیلی لیکن وہ واحد بھائی تھے جنہیں ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے کا موقع نہ مل سکا[3]

کتنے بھائی کھیلیں گے؟ ترمیم

اپنے ایک انٹرویو میں رئیس محمد نے بتایا تھا کہ ’جب پاکستانی ٹیم پہلی بار ٹیسٹ سیریز کھیلنے انڈیا جا رہی تھی تو میں نے باغ جناح میں کھیلے گئے ٹرائل میچ میں 93 رنز بنانے کے علاوہ ان چار بلے بازوں کو بھی آؤٹ کیا جو پاکستانی ٹیم میں سلیکٹ ہوئے تھے

’لیکن مجھ پر امیر الہی کو ترجیح دی گئی اور کہا گیا کہ ان کا تجربہ مجھ سے زیادہ ہے۔ ٹیم کی انڈیا روانگی کے موقع پر کپتان عبد الحفیظ کاردار نے اعتراف کیا تھا کہ انھیں افسوس ہے کہ وہ رئیس محمد کو ٹیم میں شامل نہیں کرا سکے۔‘

جب ٹیم 1954ء میں انگلینڈ جارہی تھی تو بہاولپور میں ایک مہینے کا کیمپ لگا۔ اس وقت ٹیم کو حنیف محمد کے اوپننگ پارٹنر کی تلاش تھی کیونکہ نذر محمد بازو ٹوٹ جانے کے سبب کرکٹ سے باہر ہو چکے تھے[3]

وہ بتاتے ہیں کہ ’لیکن مجھے اس کیمپ میں نئی گیند کی شکل تک نہیں دکھائی گئی حالانکہ میں نے دو میچوں میں اوپنر کی حیثیت سے اچھی بیٹنگ کی تھی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ میں 46 رنز بنا چکا تھا کہ مجھے بیٹنگ سے واپس بلا لیا گیا۔‘ ان کا دعویٰ تھا کہ ’انھیں ڈر تھا کہ اگر میں بڑی اننگز کھیل گیا تو مجھے سلیکٹ کرنا پڑے گا۔ اس دور میں پاکستانی کرکٹ میں بہت زیادہ سیاست تھی۔‘

رئیس محمد نے اپنے انٹرویو میں ٹیسٹ کرکٹ نہ کھیلنے کے بارے میں پاکستان کرکٹ بورڈ کے ایک سابق سیکریٹری کا بھی حوالہ دیا تھا جو بقول ان کے نہیں چاہتے تھے کہ ایک ہی وقت میں تین بھائی ٹیم میں کھیلیں۔

ان کا کہنا تھا ’اس زمانے میں چیمہ صاحب کرکٹ بورڈ کے سیکریٹری ہوا کرتے تھے۔ جب بھی میرے ٹیسٹ کھیلنے کی بات آتی تو وہ کہتے تھے کہ کتنے بھائی ایک ساتھ ٹیم میں کھیلیں گے؟ لوگ اعتراض کریں گے کہ یہ بھائیوں کی ٹیم ہے حالانکہ اس زمانے میں ہم تمام بھائیوں کی کارکردگی بہت ہی اچھی رہتی تھی[3]

ایک ہی اننگز میں تین بھائیوں کی سنچریاں ترمیم

1954ء میں قائد اعظم ٹرافی کا فائنل اس اعتبار سے محمد برادرز کے لیے یادگار تھا کہ اس میں کراچی کی طرف سے کھیلتے ہوئے سروسز کے خلاف ایک ہی اننگز میں تین بھائیوں وزیر محمد، رئیس محمد اور حنیف محمد نے سنچریاں بنائی تھیں۔ رئیس محمد نے اسی میچ میں اپنے کیریئر کی بہترین بولنگ کرتے ہوئے 82 رنز دے کر چار وکٹیں بھی حاصل کی تھیں۔ کرکٹ کی تاریخ میں یہ اب تک واحد موقع ہے کہ کسی فرسٹ کلاس میچ کی ایک ہی اننگز میں تین بھائیوں نے سنچریاں سکور کیں[2]

ٹیسٹ کیپ کی بجائے بارھواں کھلاڑی ترمیم

رئیس محمد وہ لمحہ کبھی نہیں بھولے جب انھیں ٹیسٹ کھیلنے کی خوشخبری سنائی گئی لیکن پھر بارھواں کھلاڑی بنا دیا گیا۔ اپنے انٹرویو میں انھوں نے بتایا تھا کہ ’1955ء میں انڈیا کے خلاف ڈھاکہ ٹیسٹ سے ایک رات قبل کپتان عبد الحفیظ کاردار نے میرے کمرے میں آکر کہا کہ آپ جلدی سو جائیں کیونکہ صبح آپ نے ٹیسٹ میچ کھیلنا ہے[3] لیکن میچ کی صبح میری جگہ مقصود احمد کو ٹیم میں شامل کر لیا گیا جنہیں اچانک لاہور سے ڈھاکہ بلوایا گیا تھا اور پھر مجھے بارھواں کھلاڑی بنا دیا گیا۔ اسی سیریز کے بہاولپور ٹیسٹ میں بھی میں بارھواں کھلاڑی تھا جس کے بعد میں کبھی ٹیسٹ کرکٹ نہ کھیل سکا۔‘

بیٹوں کے ٹیسٹ نہ کھیلنے کا دکھ ترمیم

رئیس محمد کے دو بیٹے شاہد محمد اور آصف محمد فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلے ہیں لیکن انھیں دونوں بیٹوں کے ٹیسٹ نہ کھیلنے کا بہت دکھ رہا جس کا انھوں نے برملا اظہار یوں کیا تھا۔

’میں تو ٹیسٹ نہ کھیل سکا لیکن زیادہ دکھ اس بات کا رہا کہ دونوں بیٹوں میں سے کوئی ایک بھی ٹیسٹ کھیلنے میں کامیاب نہ ہو سکا حالانکہ جب حنیف بھائی (حنیف محمد) چیف سلیکٹر تھے تو اس وقت میرے بیٹے آصف محمد کی کارکردگی بہت اچھی تھی اور اس وقت سب یہی کہہ رہے تھے کہ آصف محمد اچھا کرکٹ کھلاڑی ہے لیکن قسمت شعیب محمد پر مہربان رہی۔ میں تو نہ کھیل سکا لیکن اگر میرا کوئی بیٹا بھی ٹیسٹ کھیل لیتا تو مجھے تسکین ہوجاتی۔‘

مصوری اور کیرم کے شوقین ترمیم

رئیس محمد کلاسیکی موسیقی کے دلدادہ تھے۔ انھیں غلام علی، فریدہ خانم اور اقبال بانو کی غزلیں پسند تھیں۔ وہ مصوری بھی کیا کرتے تھے اور کیرم کھیلنے کے بہت شوقین تھے۔ ہر ہفتے وہ حنیف محمد کے گھر باقاعدگی سے جایا کرتے تھے جہاں بھائیوں کے درمیان میں کیرم کے دلچسپ مقابلے ہوا کرتے تھے۔

کیرئیر ترمیم

رئیس نے کراچی اور سندھ کے لیے اپنے فرسٹ کلاس کیریئر کا آغاز دسمبر 1949ء میں کامن ویلتھ الیون کے خلاف کراچی جم خانہ گراؤنڈ میں کیا۔ انھوں نے اپنا اگلا میچ مارچ 1953ء میں دی ریسٹ کے خلاف کھیلا جس میں انھوں نے 8 اور 66 رنز بنائے۔ اگلے دو سیزن میں رئیس نے آٹھ میچوں میں مجموعی طور پر 603 رنز بنائے جس میں سندھ کے خلاف ان کے کیریئر کے بہترین 118 ناٹ آؤٹ تھے۔ انھوں نے 1954-55ء کے سیزن میں 15 وکٹیں بھی حاصل کیں۔ 1954-55ء قائد اعظم ٹرافی کے فائنل میچ میں، انھوں نے کمبائنڈ سروسز کے خلاف اپنی دوسری سنچری، ناٹ آؤٹ 110 رنز بنائے۔ انھوں نے میچ میں اپنی بہترین باؤلنگ کا مظاہرہ کرتے ہوئے 82 کے عوض 4 وکٹیں بھی حاصل کیں۔ 1955 سے 1958 تک انھوں نے 9 میچ کھیلے، 25 سے کم اوسط کے ساتھ 341 رنز بنائے اور 10 کیچز لیے۔ رئیس کے اگلے تین سیزن-1959-60، 1960–61 اور 1961-62ء کے دوران میں اس نے بالترتیب 68، 12 اور 117 رنز بنا کر دو، ایک اور تین میچ کھیلے۔ 1961-62ء قائد اعظم ٹرافی کے سیمی فائنل میں کراچی بلیوز کے خلاف ان کا سب سے زیادہ اسکور 73 رہا۔اس نے آخری بار 1962-63ء پاکستانی ڈومیسٹک سیزن میں کھیلا تھا۔ اس نے پانچ میچ کھیلے، 27 سے اوپر کی اوسط سے ایک نصف سنچری سمیت 192 رنز بنائے۔ رئیس نے مجموعی طور پر 30 فرسٹ کلاس میچ کھیلے اور 32.78 کی اوسط سے 1,344 رنز بنائے جس میں دو سنچریاں اور آٹھ نصف سنچریاں شامل ہیں۔ انھوں نے 33 وکٹیں اور 21 کیچ بھی لیے۔

وفات ترمیم

14 فروری 2022ء کو ناانصافی کا شکار یہ عمر رسیدہ کھلاڑی کراچی شہر میں اپنے خاندان اور کرکٹ سے محبت کرنے والوں کو 89 سال اور 52 دن کی عمر میں سوگوار چھوڑ گیا۔

حوالہ جات ترمیم

  1. "Raees Mohammad"۔ 15 فروری، 2022 – Wikipedia سے 
  2. ^ ا ب "Raees Mohammad profile and biography, stats, records, averages, photos and videos"۔ ESPNcricinfo 
  3. ^ ا ب پ ت "کرکٹر رئیس محمد: 'بورڈ کے سیکریٹری نے کہا تین، تین بھائیوں کو ایک ساتھ نہیں کھلا سکتا'"۔ BBC News اردو۔ 14 فروری، 2022