راکھائن ریاست
ریاست راکھائن یا ریاست اراکان (انگریزی: Rakhine State) میانمار کی ایک ریاست جو میانمار کے مغرب میں واقع ہے۔[2]
راکھائن ریاست ရခိုင်ပြည်နယ် ریاست اراکان Arakan State | |
---|---|
برما کی انتظامی تقسیم | |
میانما نقل نگاری | |
• اراکانی | ra-khai-pray-nay |
راکھائن ریاست کا مینمار میں مقام (برما) | |
متناسقات: 19°30′N 94°0′E / 19.500°N 94.000°E | |
ملک | میانمار |
علاقہ | مغربی ساحل |
دار الحکومت | ویتوی |
حکومت | |
• وزیر اعلی | Nyi Pu (این ایل ڈی) |
• کابینہ | Rakhine State Government |
• مقننہ | Rakhine State Hluttaw |
رقبہ | |
• کل | 36,778.0 کلومیٹر2 (14,200.1 میل مربع) |
رقبہ درجہ | 8th |
آبادی (2014 Census) | |
• کل | 3,188,807[1] |
• درجہ | 8th |
آبادیات | |
• نسلیات | Rakhine, Kaman, Mro , روہنگیا Khami and others |
• مذاہب | تھیرواد، اسلام، ہندو مت اور دیگر |
منطقۂ وقت | میانمار معیاری وقت (UTC+06:30) |
ویب سائٹ | rakhinestate |
اراکان
ترمیممیانمار (برما) کا علاقہ اراکان، روہنگیا مسلمانوں کا آبائی وطن ہےـ ارکان یا اراکان 1784ء تک ایک آزاد ملک تھاـ ارکانی مسلمانوں کا چودہویں اور پندرہویں صدی عیسوی میں آزاد ملک تھا٬ بعد میں برمیوں نے اس پر قبضہ کر لیا تھا۔[3] برما کی فوجی حکومت کے دور میں امتیازی قوانین کے ذریعہ مسلمانوں کی زندگی مشکل بنا دی گئی، جائداد چھینی، شہریت ختم ہو گئی اور وہ بے ریاست لوگ بن گئے۔ مسلمانوں سے بیگار لیا گیا۔ ایسے حالات میں بڑی تعداد تھائی لینڈ اور بنگلہ دیش ہجرت کر گئی۔
جون 2012ء میں ارکان میں مسلم کش فسادات شروع ہوئے۔ جس میں بدھوں نے ہزاروں مسلمانوں کو شہید اور سینکڑوں مسلم آبادیوں کو نذرآتش کر دیا۔ جو مسلمان سمندری راستے سے بنگلہ دیش پہنچے انھیں بنگلہ حکومت نے واپس دھکیل دیا جو واپسی میں بدھوں کے ہاتھوں قتل ہو گئے۔
تفصیلات
ترمیمراکھائن ریاست کا رقبہ 36,780 مربع کیلومیٹر ہے اور اس کی مجموعی آبادی 3,836,000 افراد پر مشتمل ہے۔
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ↑ Census Report۔ The 2014 Myanmar Population and Housing Census۔ 2۔ Naypyitaw: Ministry of Immigration and Population۔ May 2015۔ صفحہ: 17
- ↑ انگریزی ویکیپیڈیا کے مشارکین۔ "Rakhine State"
- ↑ (ٹائمز اٹلس آف ورلڈ ہسٹری صفحہ 133)
مذہب
ترمیمخیال رہے کہ یہ حکومت میانمار کے سرکاری اعداد و شمار ہیں۔ روہنگیا قوم کو میانمار کے شہری تصور نہیں کیا جاتا۔
|
|
- ↑ Department of Population Ministry of Labour, Immigration and Population MYANMAR (July 2016)۔ The 2014 Myanmar Population and Housing Census Census Report Volume 2-C۔ Department of Population Ministry of Labour, Immigration and Population MYANMAR۔ صفحہ: 12–15