رفعت سروش
ترقی پسند تحریک کے اردو شاعر۔
پیدائش
ترمیمحالات
ترمیماس وقت کا ماحول ایک انقلابی ماحول تھا جس کا ان کی سوچ اور ان کے نظریے پر اثر پڑا۔ اس وقت متعدد انقلابی تحریکیں سماج پر اپنے اثرات مرتب کر رہی تھیں اور چونکہ رفعت سروش ایک حساس ذہن کے مالک تھے اس لیے انھوں نے ان تحریکوں کے اثرات قبول کیے۔ کسانوں اور مزدوروں کی تحریکوں نے بھی ان کو متاثر کیااور وہ تمام اثرات ان کی تخلیقی سوچ پر حاوی رہے،
ادبی دنیا
ترمیمانھوں نے جس وقت ادبی دنیا میں قدم رکھا ‘اس وقت ترقی پسند تحریک اپنے شباب پر تھی اور سجاد ظہیر‘ علی سردار جعفری‘ جوش ملیح آبادی‘ اسرار الحق مجاز‘فیض احمد فیض‘ ساحر لدھیانوی اورکیفی اعظمی وغیرہ کی مقبولیت عام تھی۔ انھوں نے ان ادیبوں اور شاعروں کے اثرات بھی قبول کیے۔
رفعت سروش نے اپنی ادبی زندگی کے آغاز میں سجاد ظہیر‘ سردار جعفری‘ کیفی اعظمی‘اختر الایمان‘ باقر مہدی‘ ساحر لدھیانوی‘ مجروح سلطانپوری‘ رضیہ سجاد ظہیر اور عصمت چغتائی کے ساتھ ترقی پسند انجمن کی سرگرمیوں میں حصہ لیا اور بہت جلد ترقی پسند مصنفین کی صف اول میں شامل ہو گئے۔ انھوں نے اسی کی ساتھ اردو ادب میں کئی نئے تجربے کیے۔ انھوں نے آل انڈیا ریڈیو کی اردو مجلس میں جب ملازمت اختیار کی تو کسی کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ وہ اردو مجلس سے نشر کی جانے والی تخلیقات کو اتنا بلند مرتبہ عطا کر دیں گے۔ انھوں نے ریڈیو میں منظوم ڈراموں کی ابتدا کی جس میں وہ بڑی حد تک کامیاب رہے۔ اردو ادب کو انھوں نے87 کتابیں دی ہیں، جن میں شاعری‘افسانہ ‘تنقید‘ ڈراما اور تاریخ وغیرہ پر کتب شامل ہیں۔
وفات
ترمیمنمونہ کلام
ترمیمایک چھپر کا گھر نیم کے سائے میں
اونگھتا ہے دھندلکے میں لپٹا ہوا
شام کا وقت ہے اور چولھا ہے سرد
صحن میں ایک بچہ برہنہ بدن
باسی روٹی کا ٹکڑا لیے ہاتھ میں
سر کھجاتا ہے‘ جانے ہے کس سوچ میں
اور اسارے میں آٹے کی چکی کے پاس
ایک عورت پریشان خاطر اداس
اپنے رخ پر لیے زندگی کی تھکن
سوچتی ہے کہ دن بھر کی محنت کے بعد
آج بھی روکھی روٹی ملے گی ہمیں
تم حقارت سے کیوں دیکھتے ہو اسے
دوست! یہ میرے بچپن کی تصویر ہے
خودنوشت
ترمیمبمبئی کی بزم آرائیاں، خودنوشت-رفعت سروش۔ نورنگ کتاب گھر دہلی-1986