رمیزہ بی سے جنسی زیادتی کا واقعہ

رمیزہ بی جنسی زیادہ کا واقعہ حیدرآباد، دکن میں مبینہ پیش آنے والا سب سے مذموم جنسی آبرو ریزی کا معاملہ تھا۔ یہ معاملہ کئی وجوہ کی بنا پر شہر کی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اولًا اس واقعے میں حیدرآباد پر یہ الزام عائد کیا گیا کہ اس نے پولیس اسٹیشن میں آبرو ریزی جیسے گھناونے جرائم انجام دیے۔ دوسرے یہ کہ اس واقعے کی چرچا کے عام ہونے کے ساتھ ساتھ شہر حیدرآباد میں تین الگ الگ وقفوں میں 1970ء کی دہائی کے آخر میں کرفیو کا نفاذ عمل میں آیا، جو شہر میں ایک نئی بات تھی۔ اس کے اگلے دہے میں شہر کئی فرقہ وارانہ فسادات ہوئے، لوگوں کی جانیں تلف ہوئیں اور بہ کثرت کرفیو کا نفاذ عمل میں آیا۔ حالاں کہ رمیزہ نے پولیس کو نشانہ بنایا، تاہم شہر حیدرآباد میں ہر شخص اس کی بات سے متفق نہیں۔ کئی عام شہری خود رمیزہ کے کردار اور اس کے پس منظر کو ہی مشکوک مانتے ہیں۔[1]

واقعہ

ترمیم

اس واقعے کا نقطہ آغاز شہر حیدرآباد میں ایک خاتون رمیزہ بی کا یہ الزام تھا کہ وہ شہر کے نلہ کنٹہ پولیس اسٹیشن میں اپنے شوہر احمد حسین کے خلاف زد و کوب کی رپورٹ لکھوانے پہنچی۔ اس کے مطابق مقامی پولیس افسروں کا رویہ اس کے ساتھ اچھا نہیں تھا۔ فوری رپورٹ درج کر کے کارروائی کرنے کی بجائے پولیس عہدے دار اسی کے پیچھے پڑ گئے اور اس کی آبرو ریزی کر دیے۔ یہ الزام شہر میں ایک غیر معمولی واقعہ تھا۔ اس کے عام ہوتے ہی حیدرآباد میں وسیع پیمانے پر پتھراؤ دیکھنے میں آیا۔یہ واقعہ 1970 کا نہیں 1977 کا ہے [2]

حالات کا بگڑنا

ترمیم

معاملہ اس وقت کافی بگڑ گیا جب رمیزہ نے پولیس پر زیادتی کا الزام عائد کیا اور اس کے شوہر احمد حسین کا قتل ہو گیا۔ حالات اتنے کشیدہ ہو گئے کہ ایک ہی دن میں پولیس کو گیارہ مقامات پر گولی چلانا پڑا۔ بعد میں تین مختلف وقفوں میں حیدرآباد کے پرانے شہر علاقے کو پچاس دنوں تک کرفیو میں رکھنا پڑا۔

بے امنی کی روایت

ترمیم

اس واقعے کے ظہور پزیر ہونے کے ساتھ ہی حیدرآباد میں کرفیو ایک عام بات ہونے لگی۔ اس واقعے کے تقریبًا چھ سال بعد 1984ء میں گنیش تہوار کے موقع پر فرقہ وارانہ تشدد دیکھنے ملا۔ شہر میں ایک طرف افواہیں گشت کرنے لگی تو کچھ اشرار اپنے گھروں میں زور زور سے ایسے کیسٹ چلا رہے تھے جن میں لوگوں کی آہ و بکا اور چیخ پکار صاف ظاہر ہوا رہا تھا۔ حالاں کہ یہ سب پہلے سے ریکارڈ شدہ تھا اور اس میں کوئی زمینی سچائی نہیں تھی، پھر بھی اس سے شہر میں دہشت کا ماحول پیدا ہوا۔ اس فضا میں تشدد دیکھنے میں آیا اور ایک بحران یہ بھی تھا کہ اس وقت غیر منقسم آندھرا پردیش کے وزیر اعلٰی این ٹی راما راؤ کی حکومت کو نادینڈلا بھاسکر راؤ نے گرا دیا۔ اس کی وجہ سے پہلی بار جڑواں شہر حیدرآباد اور سکندرآباد کو مکمل طور پر کرفیو میں رکھا گیا تھا۔ دوسری جانب حیدرآباد کے مسلمان وسیع پیمانے پر ڈراؤنے کیسٹوں میں بھری مصنوعی آہ و بکا اور چیخ پکار کی وجہ سے کسی مضبوط سیاسی سہارے کی تلاش کرنے لگے۔اس سال ہوئے لوک سبھا انتخابات میں آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے امیدوار سلطان صلاح الدین اویسی منتخب ہوئے۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. "Police: Bee in their bonnet"۔ انڈیا ٹوڈے۔ 2018-12-25 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2018-05-28
  2. "Sitting perpetually on a powder keg"۔ دی ہندو۔ 2018-12-25 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2018-05-28