روزہ (اسلام)
روزہ اسلام کے 5 ارکان میں سے ایک ہے جسے عربی میں صوم کہتے ہیں۔ مسلمان اسلامی سال کے مقدس مہینے رمضان المبارک میں روزے رکھتے ہیں۔ روزے میں مسلمان صبح صادق سے غروب آفتاب تک کھانے، پینے اور اپنی بیوی سے ہمبستری کرنے سے باز رہتے ہیں۔ روزہ رکھنے کے لیے صبح صادق سے قبل کھانا کھایا جاتا ہے جسے سحری کہتے ہیں جس کے بعد نماز فجر ادا کی جاتی ہے جبکہ غروب آفتاب کے وقت اذان مغرب کے ساتھ کچھ کھا پی کر روزہ کھول لیا جاتا ہے جسے افطار کرنا کہتے ہیں۔ لفظ صوم کا مادہ ص، و اور م ہے۔ لغت میں صوم کہتے ہیں کسی چیز سے رک جانا۔[1] اورشعری اصطلاح میں ایک مخصوص طرز پر صبح صادق سے لے کر غروب شمس تک مخصوص شرائط اور نیت کے ساتھ کھانے پینے سے رک جانا۔ صوم صرف رمضان کےفرض روزوں پر دلالت نہیں کرتا ہے بلکہ اس سے تمام طرح کے روزے مراد ہیں۔روزے یا تو فرض عین و فرض کفایہ ہوں گے جیسے رمضان کے روزے، رمضان کے علاوہ واجب روزے ہوتے ہیں جیسے قضا روزے یا نذر یا کفارہ کا روزہ۔ یہ مسنون ہوں گے اور اس کی دو اقسام ہیں؛ سنت مؤکدہ اور مستحب۔ یا نفل روزہ ہوگا۔ شریعت نے مخصوص اوقات روزہ رکھنے سے منع بھی کیا ہے جیسے یوم شک کا روزہ، عید الفطر اور عید الاضحی کا روزہ۔
روزہ کی فرضیت اور ماہیت پر تمام عالم اسلام متفق ہے۔ یہ ایک عبادت ہے اور طلوح فجر سے غروب شمس تک نیت کے ساتھ کھانے پینے سے رک جانے کا نام ہے۔ ہر سال رمضان کا روزہ بالاجماع فرض ہے۔ یہ اسلام کے پانچ ارکان میں سے ایک رکن ہے۔ رمضان کے روزوں کی بہت ساری فضیلتیں قرآن اور حدیث میں رواد ہوئی ہیں۔ رمضان کی راتوں کا قیام بھی بہت فضیلتیں رکھتا ہے۔ خصوصا اخیر عشرہ میں عبادت کی اہمیت اور ثواب بڑھ جاتا ہے۔ آکری عشرہ میں ہی شب قدر آتی ہے۔ رمضان کے بعد اگلے ماہ شوال کا پہلا دن عید الفطر کہلاتا ہے جس میں صدقہ فطر ادا کیا جاتا ہے جو رمضان میں ہوئی کوتاہیوں کا کفارہ ہوتا ہے۔ یہ دن مسلمانوں میں خوشی و مسرت کا دن ہوتا ہے۔ اس دن نیکی کرنا، صدقہ دینا، سب سے دعا سلام کرنا اور خوش رہنا ہوتا ہے۔ رمضان کے روزے دوسری ہجری میں فرض ہوئے۔ اللہ عزوجل نے ارشاد فرمایا:
كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامَُ
[2] اور فرمایا
فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ
[3] حدیث میں پیغمبر اسلام نے ارشاد فرمایا : «بني الإسلام على خمس» اور اس میں روزہ کا ذکر فرمایا، یعنی اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے اور رمضان کا روزہ ان میں سے ایک ہے۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ ایک اعرابی نے سوال کیا کہ شریعت کے اہم امور کیا ہیں تو آپ نے فرمایا کہ رمضان کے روزے، اس نے پوچھا اور کچھ تو آپ نے جواب دیا کہ نہیں لیکن اگر تم چاہو تو۔ رمضان کا روزہ ہر سال فرض ہے تمام مسلمان عاقل بالغ پر۔ سفر یا مرض کی وجہ سے یہ معاف نہیں ہوتا ہے۔ اگر کوئی رمضان میں روزہ رکھنے پر قادر نہیں ہے تو جب قادر ہو گا تب قضا کرے گا۔ روزہ رکھنے کے لیے مسلمان ہونا اور عورت کا حیض و نفاس سے پاک ہونا ضروری ہے۔ فقہ میں روزہ سے متعلق مفصل احکام موجود ہیں۔ ان میں روزہ کے واجبات، مستحبات، مکروہات، عید الفطر کے احکام، نماز کے اوقات، سحری و افطار کے اوقات و احکام اور روزہ کی قضا وغیرہ جیسے احکام شامل ہیں۔
روزہ کی تعریفترميم
لغت میں لفظ صومترميم
صوم عربی زبان کا لفظ ہے اور مصدر ہے۔ اس کے معنی مطلقا رک جانا ہے جیسے چلنے سے رک جانا کا بات کرنے سے پرہیز کرنا، کھانے پینے سے پرہیز کرنا وغیرہ۔ ابو عبیدہ کہتے ہیں: کھانے پینے اور بات کرنے اور چلنے پھرنے سے رک جانے والا روزہ دار ہے۔[4] لفظ صوم کا مادہ ص، و اور م ہے۔ اس کا فعم صام بنتا ہے۔ صوم اور صیام واحد ہیں۔ القاموس المحیط میں اس کے معنی ہے: کھانے، پینے، بات کرنے، جماع کرنے اور چلنے پھرنے سے رک جانا۔[5]
فرضیتترميم
رمضان المبارک کے روزے دو ہجری میں فرض کیے گئے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں 9 برس رمضان المبارک کے روزے رکھے۔ امام نووی رحمہ اللہ تعالٰی کہتے ہیں : رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نو رمضان المبارک کے روزے رکھے، اس لیے کہ ہجرت کے دوسرے سال شعبان میں رمضان المبارک کے روزے فرض ہوئے تھے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم گیارہ ہجری ربیع الاول کے مہینے میں فوت ہوئے تھے۔ المجموع ( 6 / 250 ) ۔
روزے کے فضائل فرمودات نبوی کی روشنی میںترميم
احادیث کریمہ میں روزے کے بہت سے فضائل بیان کیے گئے ہیں۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ارشادات ملاحظہ فرمائیں:
- جب رمضان آتا ہے آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور ایک روایت میں ہے کہ رحمت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دے ئے جاتے ہیں۔ اور شیاطین زنجیر وں میں جکڑ دیے جاتے ہیں [6]
- جنت ابتدائے سال سے، سال آئندہ تک رمضان کے لیے آراستہ کی جاتی ہے اور جب رمضان کا پہلا دن آتا ہے تو جنت کے پتوں سے عرش کے نیچے ایک ہوا حور عین پر چلتی ہے وہ کہتی ہیں۔ اے رب ! تو اپنے بندوں سے ہمارے لیے ان کو شوہر بنا جن سے ہماری آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور ان کی آنکھیں ہم سے ٹھنڈی ہوں [7][مکمل حوالہ درکار]
- جنت میں آٹھ دروازے ہیں ان میں سے ایک دروازہ کا نام ریان ہے۔ اس دروازے سے وہی جائیں گے جو روزہ رکھتے ہیں۔[8][مکمل حوالہ درکار]
- روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں۔ ایک افطار کے وقت اور ایک اپنے رب سے ملنے کے وقت اور روزہ دار کے منہ کی بو، اللہ عزوجل کے نزدیک مشک سے زیادہ پا کیزہ ہے۔[9][مکمل حوالہ درکار]
- رمضان المبارک کا مہینہ وہ مہینہ ہے کہ اس کا اول رحمت ہے۔ اور اس کا اوسط (درمیانہ حصہ) مغفرت ہے اور آخر، جہنم سے آزادی۔[7][مکمل حوالہ درکار]
- روزہ اللہ عزوجل کے لیے ہے اس کا ثواب اللہ عزوجل کے سوا کوئی نہیں جانتا [10][مکمل حوالہ درکار]
- ہر شے کے لیے زکوۃ ہے اور بدن کی زکوٰۃ روزہ ہے اور نصف صبر ہے۔[11][مکمل حوالہ درکار]
- روزہ دار کی دعا افطار کے وقت رد نہیں کی جاتی۔[12][مکمل حوالہ درکار]
- اگر بندوں کی معلوم ہوتا کہ رمضان کیا چیز ہے تو میری امت تمنا کرتی کہ پورا سال رمضان ہی ہو۔[13][مکمل حوالہ درکار]
- میری امت کو ماہ رمضان میں پانچ باتیں دی گئیں کہ مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہ ملیں۔ وہ پانچ باتیں درج ذیل ہیں
- اول یہ کہ جب رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے اللہ عزوجل ان کی طرف نظر فرماتا ہے۔ اور جس کی طرف نظر فرمائے گا۔ اسے کبھی عذاب نہ کرے گا۔
- دوسری یہ کہ شام کے وقت ان کے منہ کی بو، اللہ کے نزدیک مشک سے زیادہ اچھی ہے۔
- تیسری یہ کہ ہر دن اور رات میں فرشتے ان کے لیے استغفار کرتے ہیں۔
- چوتھی یہ کہ اللہ عزوجل جنت کو حکم فرماتا ہے۔ کہتا ہے مستعد ہو جا اور میرے بندوں کے لیے مزیں ہو جا (بن سنور جا) قریب ہے کہ دنیا کی تعب (مشقت تکان) سے یہاں آکر آرام کریں۔
- پانچویں یہ کہ جب آخر رات ہوتی ہے۔ تو ان سب کی مغفرت فرما دیتا ہے۔ کسی نے عرض کی کیا وہ شب قدر ہے؟ فرمایا ’’نہیں‘‘ کیا تو نہیں دیکھتا کہ کام کرنے والے کام کرتے ہیں جب کام سے فارغ ہوتے ہیں۔ اس وقت مزدوری پاتے ہیں؟ [7][مکمل حوالہ درکار]
11۔ اللہ عزوجل رمضان میں ہر روز د س لاکھ کو جہنم سے آزاد فرماتا ہے۔ اور جب رمضان کی انتیسویں رات ہوتی ہے تو مہینے بھر میں جتنے آزاد کیے ان کے مجموعہ کے برابر اس ایک رات میں آزاد کرتا ہے۔ پھر جب عید الفطر کی رات آتی ہے۔ ملائکہ خوشی کرتے ہیں اور اللہ عزوجل اپنے نور کی خاص تجلی فرماتا اور فرشتوں سے فرماتا ہے ’’ اے گروہ ملائکہ اس مزدور کا کیا بدلہ ہے جس نے کام پورا کر لیا؟ فرشتے عرض کرتے ہیں ۔۔ ’’اس کو پورا اجر دیا جائے‘‘ اللہ عزوجل فرماتا ہے میں تمہیں گواہ کرتا ہوں کہ میں ان سب کو بخش دیا۔[14]
اللہ تعالٰی کے محبوب روزےترميم
عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضي اللہ تعالٰی عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
” | اللہ تعالٰی کو سب سے زيادہ محبوب نماز داؤد علیہ السلام کی نماز ہے اور سب سے زيادہ محبوب روزے بھی داؤد علیہ السلام کے ہیں ، داؤد علیہ السلام آدھی رات سوتے اوراس کا تیسرا حصہ قیام کرتے اورچھٹا حصہ سوتے تھے ، اورایک دن روزہ رکھتے اورایک دن نہيں رکھتے تھے ۔ [15] | “ |
روزے کی اقسامترميم
روزے کی پانچ اقسام ہیں:
روزے کے مقاصدترميم
قرآن کریم نے روزہ کے مقاصد اور اس کے اغراض تین مختصر جملوں میں بیان فرمائے ہیں:
- یہ کہ مسلمان اللہ تعالٰیٰ کی کبریائی اور اس کی عظمت کا اظہار کریں۔
- ہدایت الہٰی ملنے پر خدائے کریم کا شکر بجا لائیں کہ اس نے پستی و ذلت کے عمیق غار سے نکال کر، رفعت و عزت کے اوج کمال تک پہنچایا۔
- یہ کہ مسلمان پرہیز گار بنیں اور ان میں تقویٰ پیدا ہو۔
مزید دیکھیےترميم
بیرونی روابطترميم
روزہ، احکام، فضاہل و مساہل پر اردو، انگریزی، سندھی، بنگلہ اور عربی میں کتب
حوالہ جاتترميم
- ↑ قاموس معجم المعاني - معنى كلمة صوم
- ↑ سورة البقرة الآية: (183)
- ↑ سورة البقرة، الآية: (185)
- ↑ مختار الصحاح للرازي، حرف الصاد (ص و م)، ج1 ص180 و181.
- ↑ القاموس المحيط مجد الدين محمد بن يعقوب الفيروزآبادي، باب الميم فصل الصاد، ج1 ص 1042
- ↑ صحیحین
- ^ ا ب پ بیہقی
- ↑ ترمذی
- ↑ بخاری و مسلم
- ↑ طبرانی
- ↑ ابن ماجہ
- ↑ بہیقی
- ↑ ابن خزیمہ
- ↑ اصبہانی
- ↑ صحیح بخاری حدیث نمبر 1079 اور صحیح مسلم حدیث نمبر 1159