روسی زمينی فوج

(روسی فوج سے رجوع مکرر)

روسی فیڈریشن کی زمینی فوج (روسی: Сухопутные войска Российской Федерации، tr. سھوپوٹنیی واویسک رعثسیسکوی فيڈراٹسی) سوویت یونین کی تحلیل کے بعد سوویت فوج کے حصوں سے 1992 میں قائم روسی فیڈریشن کی فوج ہے۔ روسی فوج کو اپنی تشکیل کے بعدسے بيشمار معاشی چیلنجز درپیش ہيں اور پروفيشنل اصلاحات کی ضرورت ہے۔ [2]

روسی زمينی فوج
Сухопутные войска Российской Федерации
سوخوپوتنیی ووئسکا روسکوئی فيدریسی
روسی زمينی فوج کا نشان
فعال1992 – تاحال
(موجودہ حالت)
ملکروس
تابعدارروسی وزارتِ دفاع
قسمبری فوج
حجم230،000 اہلکار (2015)،بشمول کانسکرپٹ
حصہروسی مسلح افواج
صدر دفترفرونسنسکايا ايمبينکمنٹ 20-22، ماسکو
برسیاں1 اکتوبر
معرکےتاجکستان کی خانہ جنگی
مشرکی پيروگورڈنی کا تنازع
ابخازيہ کی جنگ (1992–1993)
روس کا آئينی بحران
پہلی چیچن جنگ
داغستان کی جنگ
دوسری چیچن جنگ
جارجيا روس جنگ
شمالی کاکيشياء کی دراندازی
يوکرائن ميں روس کی فوجی مداخلت
شامی تنازع ميں روسی فوجی مداخلت
کمان دار
موجودہ
کمان دار
کرنل جنرل اوليگ ساليوکوف
(از 2 مئی 2014)[1]
طغرا
پرچم
نشانِ اعظم

1992ء کے بعد سے زمینی فوج نے سابق سوویت یونین کی جانشین ریاستوں ميں موجود چھاؤنیوں سے کئی ہزار فوجيوں کو واپس بلوايا ہے، جبکہ چیچن جنگوں، امن مشنز اور دیگر آپریشن میں بڑے پیمانے پر حصہ ليا ہے۔ [3]

زمینی فوج کی بنیادی ذمہ داریوں میں تحفظ ریاست کی سرحدوں کا تحفظ، مقبوضہ علاقوں کی سلامتی اور دشمن فوج کو شکست دينا ہیں۔ زمینی فوج بڑے پیمانے پر تباہی والی ایٹمی جنگ اور بغیر ایٹمی ہتھیار کے استعمال والی روايتی جنگ، دونوں میں ان مقاصد کو حاصل کرنے کے قابل ہو۔ مزید یہ کہ وہ اپنی بین الاقوامی ذمہ داریوں کے فریم ورک کے اندر رہ کر روس کے قومی مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کے قابل ہو۔ [4]

زمینی فوج کے سب سے اہم مقاصد مندرجہ ذیل ہيں:[5]

  • مسلح افواج کے جنرل اسٹاف کی طرف سے متعین مجموعہ کار کی بنیاد پر لڑائی کے لیے فوج کی تربیت۔
  • فوجیوں کی اور خاص طور پر کمانڈوز کی ساخت اور تربيت ميں بہتری۔
  • فوجی نظریہ اور فوجی مشقيں۔
  • حکمت عملی، طریقہ کار اور تربیت پر مبنی کتابچوں کی تياری۔
  • زمینی فوج کی آپریشنل اور عسکری تربیت کی بہتری۔ [6]

تاريخ

ترمیم

جب سوویت یونین تحلیل ہوا، تو کوشش کی گئی کے سوویت مسلح افواج سابق سوویت یونین کی جانشین نئی دولت مشترکہ کی آزاد ریاستوں ( سی آئی ایس) کے لیے ایک واحد فوج کے طور پر قائم رہيں۔ سوویت یونین کے آخری وزیر دفاع مارشل یووگنئی شاپوشنئکوف کو دسمبر 1991 میں سپریم کمانڈر سی آئی ایس مسلح افواج مقرر کیا گیا تھا[7]۔ عبوری دور میں سابق ریاستوں کے مابين دستخط شدہ متعدد معاہدوں کے درمیان ایک عارضی معاہدہ فوج کے بارے ميں تھا جس پر منسک میں 14 فروری 1992ء دستخط ہوئے۔ ایک بار جب يہ بات واضح ہو گئی کے یوکرائن (اور ممکنہ طور پر دیگر ریاستیں) مشترکہ فورسز کے معاہدے کی پاسداری نہيں کرے گا اور اپنی مسلح افواج تشکیل دے گا، تب روسی حکومت نے روس کی اپنی مسلح افواج کو تشکیل دينے کا فيصلہ کيا۔[8]

روسی فیڈریشن کے صدر بورس يلتسن روسی نے 7 مئی 1992ء کو روسی وزارتِ دفاع اور روسی زمینی افواج کے ساتھ ساتھ روسی فیڈریشن کی ديگر مسلح افواج کے قیام کے فرمان پر دستخط کيے۔ اس وقت فوج کا جنرل اسٹاف کا مہکمہ فوج کے ہزاروں اہلکاروں کو سوویت افواج کے منگولیا جرمنی، پولینڈ، چیکو سلواکیہ اور ہنگری میں تعينات گروپوں سے نکالنے کے مراحل ميں تھا۔ [9]

چار گروپوں ميں موجود سینتیس ڈويژن فوج بالٹک ریاستوں سے نکالی جانی تھی جبکے چار فوجی اضلاع پر مشتمل 57 ڈويژن فوج بیلاروس اور یوکرائن کے حوالے کی گئی۔ تحلیل ہوتی ہوئی سوویت یونین زمینی افواج کے لیے سابقہ وارسا پیکٹ اور بالٹک ریاستوں سے انخلا ایک انتہائی پيچيدہ، مہنگہ اور مشکل عمل تھا۔ وہ فوجی اضلاع جو یونین کے زوال کے وقت روس میں رہ گئے تھے زیادہ تر ريزرو فارمیشنوں پر مشتمل تھے،اس لیے روسی فوج بڑی حد تک مشرقی یورپ ميں موجود لڑاکا فارمیشنوں کو واپس بلوا کر بنائی۔ تاہم ان فوجی اضلاع ميں بیرون ملک سے واپس لوٹنے والے اہلکاروں اور ساز و سامان کو جگہ فراہم کرنے کی سہولیات ناکافی تھيں اور بہت سی ریل گاڑیوں کا سامان خالی میدانوں میں اتارا گيا۔ معاہدے کے تحت مسلح افواج کے روایتی اسلحہے کی بڑی مقدار کو منتقل اور تباہ کيا جانا تھا۔ [10]

اصلاحی منصوبہ بعد از تحلیل سوویت یونین

ترمیم

وزارت دفاع کے اخبار کراسنیا زویزدا نے اصلاحی منصوبہ 21 جولائی 1992 کو شائع کیا۔ بعد ازاں ایک تبصرہ نگار نے کہا کہ یہ منصوبہ جنرل اسٹاف کی طرف سے بنیادی تبدیلیوں کے عوامی مطالبے کو پورا کرنے کے ليے جلد بازی میں بنايا گیا۔ جنرل سٹاف اس کے بعد سے اہم مسائل کی آماجگاہ بن گیا۔ اصلاحات کے اس منصوبے نے آرمی کو ڈویژن رجمنٹ تظام سے تبدیل کرکے کور بریگیڈ کا تظام نافظ کرنے کی وکالت کی۔ نيا تظام فرنٹ لائن کے بغير بھی اور آزادانہ کارروائی کی زیادہ صلاحیت رکھتا ہو۔ کمانڈ کے صيغے کاٹ کے اور تھیٹر ہیڈکوارٹر اور لڑاکا بٹالین کے درمیان تین میں سے دو صيغے کم کر کے، لچک میں اضافہ اور کمانڈ اور کنٹرول کے انتظامات ميں آسانی ہو۔ نظام کی تبديلی توقعات کے برعکس نایاب، فاسد اور الٹ دیا ثابت ہوئی۔ نئے بریگیڈز زیادہ تر وہ ڈويژن تھے جنہيں توڑ کر بریگیڈ کی نفری پے لايا گيا تھا مثلأ کچھ ٹینک فارمیشنوں کو توڑ کر بریگیڈز کی بجائے ماسکو فوجی ضلع میں تيسرے موٹر رائفل ڈویژن کی تشکیل ہوئی۔ [11]

چند اصلاحات جن کی 1990 کی دہائی کے اوائل میں منصوبہ بندی ہوئی، تین وجوہات کی بنا پر نافظ ہوئيں : سب سے پہلے پختہ سول و سیاسی ہدایات کی غیر موجودگی، صدر يلسن کی اصلاحات نافظ کرنے کی بجائے دلچسپی مسلح افواج کی ان سے وفاداری اور ان کے کنٹرول ميں تھی۔ دوسرے بگڑتی ہوئی مالی صورت حال نے پیش رفت کو شديد متاثر کيا۔ آخر میں فوج کے اندر کوئی پختہ رائے نہيں تھی کہ اصلاحات کو کيسے نافذ ہونا چاہیے۔ جنرل پاوال گراچوو، پہلے روسی وزیر دفاع (1992–96) نے اصلاحات کو بڑے پيمانے پے مشتہر کيا، کی خود اندر سے خواہش تھی کہ پرانے سوویت طرز کے بڑی تعداد میں کم نفری فارمیشنوں اور جبری بھرتی والے فوجی تظام کو جاری رکھا جائے۔ نئی ٹھوس ھدايات کی غیر موجودگی ميں جنرل اسٹاف اور مسلح افواج نے سوویت دور کے عقائد، تعیناتی اور ہتھیاروں کو جاری رکھنے کی کوشش کی۔ [12]

ایک برطانوی فوجی ماہر مائيکل نے دعویٰ کیا کہ تبدیل شدہ صورت حال کو مکمل طور پرسمجھنے میں بڑی مشکل کی وجہ بالا کمانڈ کی اپنی تعلیم تھی۔ سوویت فوجی اکیڈمیوں سے فارغ التحصیل کے طور پر ان کو بہت اچھی سٹاف اور آپریشنل تربيت ملی، لیکن سیاسی تعليم میں وہ بین الاقوامی امور کی بجائے ایک خاص نظریہ پڑھتے رہے۔ اس طرح جرنیلوں کی توجہ مشرق میں نیٹو کی توسیع پر مرکوز رہی اور وہ خود کو اورمسلح افواج کو نئے مواقع اور انھیں درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کے مطابق ڈھال نہیں سکے۔ [13]

اندرونی بحران

ترمیم

يلسن کے حکومت حاصل کرنے اور روشن خيال اصلاحات نافظ کرنے کی پارلیمنٹ کی طرف سے مزاحمت کے بعد جب صدر يلسن نے پارلیمنٹ تحلیل کرنے کا غير آئينی فرمان جاری کيا تو نہ چاہتے ہوئے بھی روسی فوج کو روس کے 1993 کے آئينی بحران میں مداخلت کرنا پڑی۔ وزرا کے ایک گروپ، نائب صدر الیگزینڈر روٹسکوا،سمیت اراکین پارلیمان نے خود کو پارلیمان کی عمارت کے اندر محسور کرليا۔ حالانکے جنرل گراچو کی قیادت میں مسلح افواج نے صدر کو عوامی حمایت دینے کے ساتھ ساتھ اپنے افسران کی خواہشات کو مدنظر رکھتے ہوئے غیر جانبدار رہنے کی کوشش کی۔ فوجی قیادت يلسن کے نظريات کے صحيح ہونے اور اپنے فوجيوں کی وفاداری کے بارے ميں غير يقينی کيفيت کا شکار تھی اسليے يلسن کو فوجی قیادت کو پارلیمنٹ پر حملے کيلئے منانا پڑا۔ حملہ ماسکو کے اطراف ميں موجود پانچ مختلف فارمیشنوں سے کیا گیا۔ تاہم جب پارلیمنٹ پر دھاوا بول دیا گیا اور ایک بار پارلیمانی رہنماؤں کو گرفتار اور عارضی سنسر شپ عائد کر دی گئی، تو يلسن حکومت برقرار رکھنے میں کامیاب ہوگيا۔ [14]

چیچن جنگیں

ترمیم

چيچينيا کی پہلی جنگ

ترمیم

چیچن عوام نے کبھی اپنی مرضی سے روسی حکومت کو قبول نہيں کيا تھا۔ سوویت یونین کی تحلیل کے ساتھ ہی چیچن عوام نے نومبر 1991 میں سوویت فضائیہ کے ایک سابق افسر جنرل جوہر دودائیف کے زیر قیادت آزادی کا اعلان کیا۔ چيچينيا کی آزادی کی جدوجہد کو ماسکو کی اتھارٹی کو کم کرنے کے طور پر دیکھا گیا۔ چیچنیا مجرموں کے لیے ایک پناہ گاہ کے طور پر سمجھا گیا اور ایک سخت گیر گروپ نے کریملن کے اندر جنگ کی وکالت شروع کر دی۔ 29 نومبر کو ایک سلامتی کونسل کے اجلاس میں صدر يلسن نے کہا کہ چیچن ہتھيار پھينک ديں نہیں تو ماسکو خود آرڈر بحال کرے گا۔ وزیر دفاع پاوال گراچو نے صدر يلسن کو یقین دہانی کرائی کہ وہ ایک ائربورن اسالٹ رجمنٹ کے زريعے دو گھنٹے کے اندر اندر گروزنی لے لے گا۔ آپریشن 11 دسمبر 1994 ء کو شروع ہوا اور 31 دسمبر تک روسی افواج چیچن دار الحکومت گروزنی میں داخل ہونے کو تھيں۔131ويں موٹر رائفل بریگیڈ کو شہر کے مرکز ميں پحنچنے کيلئے کے لیے دباؤ تیز کرنے کا حکم دیا گیا، لیکن وہ جگہ جگہ گھات لگاے چیچن حملوں میں تباہ ہو گیا۔ آخرکار زبردست مزاحمت کے بعد روسی فوج نے گروزنی پر قبضہ کرليا،اور اس کے بعد دیگر چیچن مضبوط گڑھوں کی طرف بڑھنا شروع کيا۔ جون 1995 ميں جب چیچن مجاھدين نے ستوروپول ک رہی میں بودیوننوفسک ہسپتال میں لوگوں کو یرغمال بنايا تو ايک اميد کی کرن پيدا ہوئی کہ شائد امن ہوجاے، لیکن لڑائی جاری رہی۔ اس واقعے کے بعدعلیحدگی پسندوں کو روس کے اندر دہشت گردو یا شورش پسند کہا جانے لگا۔ جوہر دودائیف کو اپریل 1996ءمیں قتل کر دیا گیا اور اسی سال موسم گرما میں چیچن حملے میں گروزنی دوبارہ لے لیا گیا۔ اگست 1996ء میں سلامتی کونسل کے سیکرٹری سکندر لیباد نے چیچن باغی رہنما اسلان مسخادوف کے ساتھ مذاکرات میں شروع کيے اور 22/23اگست کو ایک معاہدے پر دستخط کیے اور اس ماہ کے اختتام تک، لڑائی ختم ہو گئی۔ رسمی جنگ بندی معاہدے پر دستخط داغستانی شہر خاساویورت میں 31 اگست 1996ء کو ہوئے۔ جبکے يہ طے پايا کہ چیچن جمہوریہ اشکیریہ اور روسی وفاقی حکومت کے درمیان تعلقات پر رسمی معاہدے پر 2001ءکے اواخر تک دستخط کی ضرورت نہیں۔ دمتری ٹرانان اور اليکسی مالاشانکو نے کچھ سال بعد لکھا کہ چيچنيا میں روسی فوج کی کارکردگی تمام سطحوں پر کمانڈر ان چیف سے لے کر نيچے تک غير تسلی بخش تھی۔ برطانوی تجزيہ نگاروں نے چيچينيا کی پہلی جنگ میں روسی فوج کی کارکردگی کو "بری طرح خراب" کہا ہے۔ مائيکل اورر نے کہا کہ 1994–1996 میں چيچينيا کی پہلی جنگ میں روس کی ناکامی کی بنیادی وجوہات میں سے ایک بڑی وجوہ صحیح طور پر تربیت یافتہ فوج تيار اور تعینات کرنے میں اس کی ناکامی تھی۔ [15]

چيچينيا کی دوسری جنگ

ترمیم

دوسری چیچن جنگ اگست 1999 میں چیچن ملیشیا کے پڑوسی داغستان پے حملے اور ستمبر کے اوائل میں روس بھر میں چار دہشت گرد حملوں کے بعد شروع ہوئی۔ اس پے چیچن ملیشیا کے خلاف روس کو فوجی کارروائی کرنا پڑی۔ پہلی چیچن جنگ میں روسی کسی علاقے ميں داخل ہونے سے پہلے اس کو آرٹلری اور فضائی کارروائی سے بھون ديتے۔1996 سے 1999ء کے درميان فوج میں بہتری لائی گئی۔ جب دوسری چیچن جنگ شروع ہوئی تو غير تربيت يافتہ فوجيوں اور جلدبازی ميں کھڑی کی گئی رجمنٹوں کی بجائے پوری طرح سازوسامان سے ليس اور تربيت يافتہ فارمیشنوں کوبھیجا گیا۔ فوجی کارکردگی بہتر رہی اور بڑے پیمانے پر مزاحمت کچل دی گئی۔ سابق صدر اسلان مسخادوف اور جنگی سردار شامل باسیوو سميت ماضی کے بیشتر نمایاں چیچن علیحدگی پسند رہنما اور جنگی سردار جاں بحق یا ہلاک ہو چکے تھے۔ تاہم، چھوٹے پیمانے پر لڑائی جاری رھی۔ نومبر 2007 تک یہ لڑائی روسی قہقاف کے دیگر حصوں میں بھی پھیل چکی تھی۔ یہ ایک اختلافات سے بھرپور جدوجہد تھی، ایک سینئر فوجی افسر کرنل جنرل (کرنل جنرل کا رينک صرف روسی فوج ميں استعمال ہوتا ہے) گینادے ٹروشوف کو شمالی قہقاف فوجی ضلع سے کم اہم سائبیرین فوجی ضلع ميں جانے کے احکامات کی خلاف ورزی پر 2002 میں فارغ کرديا گيا۔ چيچينيا کی دوسری جنگ سرکاری طور پر 16 اپریل 2009 کو ختم ہو گئی۔ [16]

سرگییف اصلاحات

ترمیم

جب اگور سرگییف 1997 میں وزیر دفاع بنے تو انھوں نے اس کام کا آغاز کیا جو انتہائی مشکل حالات کے تحت حقیقی اصلاحات کے طور پر دیکھا گیا۔ فوجی تعلیمی اداروں جن ميں 1991ء سے اب تک عملی طور پر کوئی تبدیلی نہیں لائی گئی تھی کی تعداد کو کم کر دیا گیا اور سائبیریا اور ٹرانس بيکال فوجی اضلاع کو ملا کر ايک فوجی ضلاع بنا دیا گیا۔ فوج کے ڈویژنوں کی ایک بڑی تعداد کو " تیاری حالت" ميں ہونے کا درجہ دے ديا گيا جس کے تحت ان کی %80 حاضری اور %100 فیصد ساز و سامان کی فراحمی يقينی بنائی گئی۔ اگست 1998ء میں سرگییف نے اعلان کيا کہ سال کے اختتام تک فوج کے چھ ڈویژن اور چار بریگیڈ 24 گھنٹے الرٹ پر ہوں گے۔ فوج کے تین درجات کا اعلان کر دیا گیا۔ مسلسل تیاری حالت، کم درجہ حالت اور سٹريٹيجک ريزرو۔ تاہم اہلکاروں کا معیار ان بہتر یونٹس ميں بھی ایک مسئلہ ہی رہا۔ تربیت کے لیے ایندھن کی کمی اور اچھی طرح تربیت یافتہ جونیئر افسران کی کمی فوج کی تربیت پر اثرانداز ہوئی۔ بہر حال،اپنی پرانی سروس "اسٹریٹجک راکٹ فورس" کے مفادات پر مرتکز سرگییف نے دسمبر 1997 میں زمینی فوج کے ہیڈکوارٹرز کو بند کرنے کی ہدایت دی دے۔ اورر کے الفاظ ميں يہ اقدام ایک "فوجی واہیاتگی" تھا اور وزارت دفاع کی اندرونی سیاستوں کا نتيجہ تھا۔ زمینی فوج کے ہیڈکوارٹرز بند ہونے کے نتیجے میں اس کے وقار کو شديد نقصان پحنچا اور کم از کم کاغذی طور پر زمينی فوج فضائیہ اور بحریہ کے برابر نہ رہی۔ [17]

پیوتن اصلاحات

ترمیم

صدر ولادمير پیوتن کے دور میں مزيد فنڈ جاری ہوئے، زمینی فورسز کا ہیڈکوارٹر دوبارہ قائم کيا گيا اور کچھ پیش رفت تربیت پے ہوئی۔ 2007 میں 18 ماہ سے 2008 میں ایک سال کر دی گئی۔ فنڈنگ میں اضافہ 1999ء میں شروع کیا گیا۔ روسی معیشت میں کچھ بہتری ديکھنے ميں آئی اور خاص طور پر تیل سے وابستہ آمدنی میں اضافے کے بعد "روس کے سرکاری طور پر دفاعی اخراجات کم از کم روسی فیڈریشن کے قیام کے بعد سے پہلی مرتبہ بڑھے۔ بجٹ 2000 میں 141 بلین رُوبلس سے 2001 میں 219 ارب رُوبلس ہوا۔ اس کا زیادہ تر اہلکاروں کی مالی معاونت پر خرچ کیا گیا — 2001 میں 20 فیصد اضافے کے ساتھ تنخواہيں بڑھيں، تربیتی پروگرام میں 26000 اضافی سارجنٹ بھرتی کرنے پر کم از کم 31 ارب رُوبلس(1۔1 ارب امریکی ڈالر) لاگت آنے کی توقع تھی۔ اضافہی بجٹ میں تحقیق و ترقی مالی کيلئے بھی فنڈ جاری ہوئے۔ 2004 میں الیگزینڈر گولٹز نے بتايا کہ بالا کمانڈ کی پرانے کانسکرپٹ نظام کو قائم رکھنے کی کوشش کی وجہ سے فوج کی بنیادی مضبوطی کی بہت تھوڑی امید ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ کچھ حد تک يہ روس کا سماجی مسئلہ ہے اور آنے والے کچھ وقت تک رہے گا۔گولٹز نے کہا کہ: "اس سب کا مطلب یہ ہے کہ روسی مسلح افواج ملک کا دفاع کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں اور ساتھ ہی وہ خود روس کے لیے بھی خطرناک ہیں،۔ اعلٰی فوجی کمانڈروں میں بنیادی تبدیلیاں کرنے کی نہ تو مرضی ہے نہ ہی صلاحیت ہے۔" مزيد رقم اہلکاروں اور سامان کے لیے مختص کی گئی۔ روسی وزیر اعظم ولادمير پیوٹن نے جون 2008 میں کہا کہ نے کہا کہ "مستقل تیاری حالت"والی يونٹوں کے اہلکاروں کے مالیاتی وظیفے نمایاں طور پر بڑھائے جائیں گے کہ۔ مئی 2007 میں "مستقل تیاری حالت"والی يونٹوں ميں جوان کی فی مہینہ تنخواہ 65000 رُوبلس(2،750 امریکی ڈالر) اور افسران کی فی مہینہ تنخواہ 100000 – 150،000 رُوبلس(امریکی ڈالر 4،230 – $6،355) کے یونٹس فی مہینہ 100000 – 150،000 رُوبلس(امریکی ڈالر 4،230 – $6،355) کی گئی۔ جبکہ ایک سال کے لازمی سروس کے اقدام سے دادووشچانا (جونير فوجيوں پر سينئر فوجيوں کے تشدد کی روسی روايت)میں خلل تو آجائے گا، تاہم یہ معاشرتی تبدیلی کے بغیر بالکل ختم نہیں ہوگی۔ دوسرے جائزے کے مطابق روسی مسلح افواج کو 2008 سے روس کی آبادی کی شرع گرنے سے شديد مشکلات شديد کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ان عوامل اور جاری بدعنوانی کے نتیجه میں، اضافی فنڈنگ کے باوجود روسی فوج میں زيادہ بہتری نہیں آسکی۔ [18]

سردوکوف اصلاحات

ترمیم

2007 میں وزیر دفاع انیٹلی سردوکوف نے فوج کے ایک اہم تنظیم نو شروع کی،تمام ڈویژنوں کو بریگیڈ میں تبدیل کرنے کے علاوہ تمام فالتو افسران کو فارغ کرديا گيا۔ تاہم اس کا زيادہ اثر مسلسل تیاری"مستقل تیاری حالت"والی يونٹوں پے ہی پڑٓا۔ یکم جنوری 2016 تک 39 سے 40 بریگیڈ جن ميں 39 آل آرمز بریگیڈ، 21 آرٹلری اور ايم آر ايل بریگیڈ، سات طيارہ شکن بریگیڈ، 12 مواصلاتی بریگیڈز اور دو الیکٹرانک وارفیئر بریگیڈ کھڑے کرنے کا ارادہ کيا گيا۔ اس کے علاوہ، 18ويں مشین گن آرٹلری ڈویژن کو مشرق بعید میں قائم رکھا گيا اور اضافی 17 رجمنٹوں کے قيام کی منظوری دی گئی ۔ تنظیم نو کے دوران کمان کے 4 صيغوں فوجی ضلع - فوج - ڈویژن- رجمنٹ کی جگہ 3 صيغے: اسٹریٹیجک کمانڈ - آپریشنل کمانڈ - بریگیڈ کرديے گئے۔ بریگیڈوں کو بطور "مستقل تیاری حالت"والی يونٹ کے آزادانہ یا مشترکہ کمانڈ کے تحت دیگر بریگیڈوں کے ساتھ مل کر لڑائی کے قابل بنايا جائے گا۔ 4 ستمبر 2009 کو ایک بیان میں، آر جی ايف کمانڈر ان چیف ولادمير بولڈیقریف نے کہا کہ روسی فوج میں نصف اصلاحات یکم جون تک نافظ ہوجائيں گی اور کہ "مستقل تیاری حالت" کے 85 بریگیڈ پہلے ہی کھڑے کيے جاچکے ہيں۔ ان میں آل آرمز بریگیڈ، میزائل بریگیڈ، حملہ آور بریگیڈز اور الیکٹرانک وارفیئر بریگیڈز شامل ہیں ۔ [19]

تنظيم

ترمیم
 
فرونسنسکايا ايمبينکمنٹ 20ـ22 ماسکو ميں موجود روسی رمينی فوج کا ہيڈکوارٹر.

روس کے صدر روسی فیڈریشن کی مسلح افواج کے سپریم کمانڈر ان چیف ہوتے ہيں۔ فوج کی مرکزی کمانڈ (روسی ميں"گلاوکومات" کہتے ہيں) ماسکو میں ہے۔ اس کو 1997میں ختم کرديا گيا تھا لیکن صدر پیوٹن کی طرف سے 2001ء میں کرنل جنرل نکولائی کارمالٹساو کے زمینی فوج کے کمانڈر ان چیف اور نائب وزیر دفاع کے تقرر کے بعد اس کو دوبارہ قائم کرديا گيا۔ کارمالٹساو نے 2004 میں کمانڈ کرنل جنرل (بعد میں جنرل) الیایی ماسلوف کے حوالے کر دی۔ جنوری 2014 تک روسی زمینی افواج کے عارضی کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل سرگئی استراکوو تھے جنھوں نے روسی صدر ولادمير پیوٹن کی طرف سے سابق کمانڈر کرنل جنرل ولادمير چرکان کے بدعنوانی کے الزامات پر برطرف کيے جانے پر زمہ دارياں سنبھاليں۔ استراکوو نے 2 مئی 2014 کو کمانڈ نئے کمانڈر کرنل جنرل اوليگ سالیوکاوو کے حوالے کی۔ زمینی افواج کی مرکزی کمانڈ کے سب سے اہم محکموں میں زمینی فوج کے مرکزی سٹاف، امن فوجی دستوں،اسلحہ، گراؤنڈ فوجیوں کی فلاح، زمینی افواج (اہلکار)،اور فوجی تعلیم کے مہکمے شامل ہيں۔ ڈايريکٹريٹس کی ایک بڑی تعداد فوج کے کمانڈر ان چیف نائب وزیر دفاع کی حیثیت سے بھی کمان کرتے تھے ہيں۔ ان میں اشعاع، کیمیائی اور حیاتیاتی دفاع، انجینئرز اور فضائی دفاع وغيرہ شامل ہیں۔ ان کی اصل تعداد نامعلوم ہے۔[20]

ڈھانچہ

ترمیم
 
2007 ميں روسی زمينی فوج (بڑا کرنے کو کلک کريں)

فوج کی شاخوں میں موٹر رائفل، ٹینک، توپ خانہ اور راکٹ فورسز، فضائی دفاع، خصوصی کور (جاسوسی، سگنل، ریدیوالیکٹرونک جنگ وجدل، انجینئری، تابکاری، کیمیائی اور حیاتیاتی تحفظ، تکنیکی معاونت وغيرہ) فوجی یونٹيں اور لاجسٹک سپورٹ شامل ہیں ۔ موٹر رائفل فارمیشنيں جو زمینی فوج ميں سب سے زیادہ تعداد ميں ہيں فوج کا دل ہيں۔ وہ زمین اور فضائی اہداف نشانہ بنانے والے آلات، میزائل، ٹینک، آرٹلری، مارٹروں اور ٹینک شکن، اینٹی کرافٹ میزائل سسٹمز اور تنصیبات کی تباہی اور جاسوسی اور کنٹرول کے طاقتور اسلحہ سے لیس ہیں۔ اندازہ لگایا گیا ہے کہ زمینی فوج ميں فی الحال 19 موٹر رائفل ڈویژن اور بحریہ کی کمان ميں بھی بالٹک بحری بيڑے کے ساحلی علاقوں اور کامچاٹکہ کے شمال مشرقی علاقوں اور دوسرے شمالی علاقوں ميں موجود موٹر رائفل ڈویژن ہيں۔ "اڈوں کے لیے ذخیرہ ہتھیاروں اور آلات کے طور پر" مشہور بریگیڈ، کی ایک بڑی تعداد ہے بھی موجود ہے۔ ٹینک سوار دستے زمینی فوج کی اہم طاقت اور حربی کامیابی کے لیے ایک طاقتور ذریعہ ہیں۔ بمطابق 2007 ٹینکوں کے تین اقسام کے دستے موجود تھے: ماسکو فوجی ضلے ميں موجود ميں چوتھا اوردسواں،سائبیرین فوجی ضلے ميں موجود دوسرا اور پانچھواں گارڈ ڈويژن اور مشرقِ بعید کے فوجی ضلے ميں موجود اکيسواں ٹینک ڈويژن۔ توپ خانہ اور راکٹ فورسز زمینی فوج کو اہم فائری قوت فراہم کرتے ہيں۔ زمینی فوج میں اس وقت پانچ یا چھ ساکت مشين گن/آرٹلری ڈويژن اور ماسکو فوجی ضلے ميں موجود فیلڈ آرٹلری کا 34واں گارڈ ڈويژن شامل ہیں۔ سائبیرین فوجی ضلے ميں بارواں،اور مشرقِ بعید کے فوجی ضلے میں موجود پندھرواں ڈويژن شائد ختم کرديئے گئے ہيں۔ فضائی دفاعی فوج (پی وی او) دشمن فضائیہ کی تباہی کا بنیادی ذريعہ ہے۔ يہ زمين سے فضا ميں مار کرنے والے ميزائلوں طيارہ شکن توپ خانے اور ریڈیو اور تکنیکی یونٹوں اور ڈويژنوں پر مشتمل ہے۔ آرمی ایوی ایشن، جس کا کام زمینی فوج کی براہ راست فضائی مدد ہے 2003 کے بعد سے روسی فضائيہ کے کنٹرول ميں ہے۔ تاہم 2015 تک، آرمی ایوی ایشن واپس زمینی فوج کو منتقل ہو جائے گی اور اسميں 18نئے ایوی ایشن بریگیڈز کا اضافہ کيا جائے گا۔ ریاست کے اسلحہ کے پروگرام کے تحت آرڈر کيے گئے تقریباً 1000 نئے ہیلی کاپٹروں ميں سے 900 آرمی ایوی ایشن کے لیے ہوں گے۔ [21]

2010 کے بعد کی تبديلياں

ترمیم

2008 کی روسی فوجی اصلاحات کے نتیجے میں، زمینی فوج چار نئے فوجی اضلاع کے ماتحت آرميوں پر مشتمل ہے: (مغربی، جنوبی، وسطی اور مشرقی فوجی اضلاع)۔ نئے اضلاع کا کردار ان کے ذمہ داری کے علاقوں کے اندر موجود زمینی فوج کے ساتھ ساتھ بحری افواج اور اور فضائی دفاعی فورسز کی آپريشنل سٹرٹيجک کمان کا ہوگا۔ ہر بڑی فارميشن خود مختار ہے اور غیر خود مختار چھوٹی فارمیشنوں کی کمان کرے گی۔ تاہم يہ واضح نہيں ہے کہ يہ چار آپريشنل سٹرٹيجک کمان متعدد سروسز کی شموليت کی بدولت (فضائيہ، زمینی فوج اور بحریہ) کس بالا ہيڈکوارٹر کو رپورٹ کريں گی۔ 2009 کے دوران (پہلے سے موجودہ) بقايا تمام 23 ڈويژنوں کو، چار ٹینک بریگیڈز، 35 موٹر رائفل بریگیڈ، ايک مشين گن ہلکی آرٹلری ڈویژن سے قائم ایک پراکرتیا بریگیڈ اور تین چھاتہ بردار حملہ بریگیڈ ميں منظم کيا گيا ۔ 2013ء میں 2 گارڈ تمنسکایا موٹر رائفل ڈویژن اور 4 گارڈ کانٹمروفسکیا ٹینک ڈویژن بریگیڈز کو منظم کر کے بنائے گئے۔ [22]

 
  مغربی فوجی ضلاع

  جنوبی فوجی ضلاع

  وسطی فوجی ضلاع

  مشرقی فوجی ضلاع
فارميشن ہيڈ کوارٹر کا مقام
مغربی فوجی ضلاع (کرنل جنرل اينڈريی کارتاپلوف) ہيڈ کوارٹرز سينٹ پيٹرزبرگ
* پہلی گارڈ ٹينک آرمی اودنتسووو
* 6ويں آرمی آگالاتوو
* 20ويں گارڈ آرمی وورنيز
جنوبی فوجی ضلاع (کرنل جنرل اليگزنڈر گالکن)[23] ہيڈ کوارٹرز روستوف نا دانو
* 49ويں آرمی ستاوروپول[24]
* 58ويں آرمی ولادی کاوکاز
وسطی فوجی ضلاع (کرنل جنرل ولاديمير زارودنتسکی) ہيڈ کوارٹرز ييکاتيرن برگ
* دوسری گارڈ ٹينک آرمی سامارا
* 41ويں آرمی نوووسی برسک
مشرقی فوجی ضلاع (ليفٹيننٹ جنرل سرگئی سورووسخن) ہيڈ کوارٹرز خابارووسک
* 5ويں آرمی يوسوريسک
* 29ويں آرمی چتا، کالسکائے کريل
* 35ويں آرمی بيلوگورسک، امر اوبلاسٹ
* 36ويں آرمی اولان ادی

اہلکار

ترمیم
 
2001 ميں کوسوو ميں چوکی پے کھڑا روسی فوجی گاڑی کی تلاشی ليتے ہوئے
 
2014 ميں سينٹ پيٹرز برگ ميں پريڈ ميں حصہ ليتے روسی فوجی
 
نمائش ميں لگا روسی فوج کا "بارمتسہ" جنگی لباس

2006 میں ایک اندازے کے مطابق زمینی افواج میں مجموعی طور پر 190,000 کے لگ بھگ کانسکرپٹوں اور 35000 چھاتہ بردار فوجی اہلکاروں سمیت 395,000 افراد، شامل ہیں۔ 1995-96 میں اس کے مقابلے میں ایک اندازے کے مطابق 210,000 کانسکرپٹوں سمیت 670,000 اہلکار تھے۔ درست اعداد و شمار حاصل کرنا بہر حال روس سے باہر کے لوگوں کے لیے مشکل کام ہے زمینی فوج 1992 میں وجود ميں آئی اس نے بغير کسی تبديلی کے تیزی سے انحطاط کی کیفیت سے دوچار سوویت فوجی افرادی قوت کا نظام ورثے ميں پايا۔ سوویت یونین کی زمینی فوج میں روایتی طور پر بھرتی تين سالہ لازمی سروس يعنی کانسکرپشن پے ہوتی تھی، جو 1967 میں تین سے دو سال ہو گیا تھا۔ يہ نظام سوویت یونین بھر میں ہزاروں کی تعداد میں موجود کميساروں کے ذریعے چلتا تھا۔ ہر سال جنوری اور مئی کے درمیان ہر نوجوان سوویت مرد شہری کی فہرست ہر علاقے سے اسکول اور نوکريوں سے موصول ہونے پر اس کو فوجی سروس کی تشخیص کے لیے مقامی "وویانکومات" کو رپورٹ کرنا ہوتا تھا ۔ وویانکومت مسلح افواج جنرل سٹاف کی طرف سے بھیجے گئے اس سال فوج کی ضرورت کے کوٹے کے تحت بھرتی کرتا تھا۔ نئے کانسکرپٹوں کو پھر ملک بھر میں ریل سے ان کے مستقبل کے یونٹوں میں بھيجا جاتا تھا۔ آمد پر وہ نوجوان اپنے فوجی کورس کا آغاز کرتے اور سینئر کی حکمرانی قاعدہ "دادووشچانا" (لفظی مطلب:دادا کی حکمرانی) کے نظام کا حصہ بن جاتے ." پیشہ ور نان کمیشنڈ افسران (این سی او) ایک بہت ہی کم تعداد ميں تھے کيونکے زیادہ تر سيکشن کمانڈر اور پلاٹون سارجنٹ بنانے کے کم دورانيے کے کورس پے بھيجے گئے کانسکرپٹ ہی ہوتے تھے۔ اس کے علاوہ مختلف قسم کے جدید ہتھیاروں کے لیے درکار مہارتوں کيلئے پراپورشچک وارنٹ افسروں کی آسامياں بنائی گئيں۔[25]

سوویت فوج افسر اور سپاہی کے تناسب کے حساب سے اوپر سے زيادہ بھاری ہو گئی تھی اس کی بنيادی وجہ افرادی قوت ميں نسبتاً کم تعلیم کی سطح اور پیشہ ورانہ نان کمیشنڈ افسران کی عدم موجودگی تھی۔ دوسری عالمی جنگ اور آفیسروں کے تعلیم کے معيار ميں بڑی توسیع کے بعد افسران چار سے پانچ سالہ اعلیٰ فوجی کالجوں کی پيداوار تھے۔ دوسری مسلح افواج کی طرح نو کمیشن يافتہ افسران عام طور پر پلاٹون لیڈر بن کے سپاہیوں کی فلاح و بہبود اور تربیت کے ذمہ دار ہوتے تھے۔ نوجوان سوویت فوجی افسروں یونٹوں میں لگاتار کام کرتے اور مہينے ميں مشکل سے ايک دو دن ہی چھٹی لے پاتے۔ افسروں کی قلت کے باعث سالانہ چھٹی بھی اکثر اوقات خطرے ميں پڑجاتی۔ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے وقت ان وجوہات کے باعث سوویت فوجی افسروں کا مورال خطرناک حد تک گر چکا تھا۔ 2000 کے ابتدائی سالوں میں، بہت سے جونیئر افسران کی نوکری ميں کوئی دلچسپی نہيں تھی— 2002 ء میں نصف سے زائد افسران نے فوج جلدی چھوڑ دی۔ ان کے مورال کے اس حد تک گرنے کی بنيادی وجہ يہ تھی کہ فوج ميں ان کے تبادلے کا تمام تر اختيار ان کے بالا افسران کے ہاتھ ميں ہوتا تھا جو عام طور پر کارکردگی کو نظر انداز کرکے ذاتی پسند ناپسند پے تبادلے کرتے، جس کو دل چاہا تو ماسکو بھيجواديا اور جس کو دل چاہا چينی سرحد پے کسی شکستہ حال پوسٹ پے بھيج ديا۔ [26]

موجودہ حالت ميں خواتین کی زمینی افواج میں بھرتی پر بہت کم معلومات دستیاب ہيں۔ بی بی سی کے مطابق 2002ء میں روسی فوج میں 90,000 خواتین تھیں۔ پوری روسی مسلح افواج میں خواتین کی تعداد 120000 سے 160000کے درميان ہے۔ خواتین نرسنگ، مواصلات اور انجینئری کے میدان میں زیادہ کردار ادا کر رہی ہيں۔ بعض افسران کی بیویوياں بھی ملازمت ميں شامل ہیں۔[27]

کانٹريکٹ سپاہی

ترمیم

کانٹريکٹ سپاہی (کونٹرکتناک) بھرتی کرنے کا نظام اگرچہ 1990 کی دہائی میں چھوٹے پيمانے سے شروع ہوکر فوج ميں بڑے پيمانے پے چل رہا ہے ليکن ان فوجيوں کا معيار بہت خراب ہے۔ دسمبر 2005 ء میں وزیر دفاع سرگئی ایوانوف نے تجویز دی — کانٹريکٹ فوجیوں کے علاوہ — تمام سارجنٹوں کو پیشہ ورانہ فوجی بنا کر فوج ميں پیشہ ور نان کمیشنڈ افسران کی تعداد مجموعی طور پر تقریباً 140,000 کر دی جائے۔ حالیہ پروگرام پیشہ ور سارجنٹوں کے لیے اضافی 26000 آسامياں پيدا کر رہا ہے۔ سی آئی اے کے مطابق 2005 تک کانٹريکٹ فوجی روسی مسلح افواج کا 30 فیصد تھے اور یہ کہ مئی 2006 تک، 178,000 کانٹريکٹ فوجی زمینی فوج اور بحریہ میں خدمات انجام دے رہے تھے۔ پلاننگ کے مطابق 2010 تک مسلح افواج کا 70 فیصد رضاکار ارانہ بھرتی شدہ فوجيوں پے مشتعمل ہوگا۔ 2005 ء کے اختتام پر، زمینی افواج کے پاس 40 رضاکار ارانہ بھرتی شدہ فوجيوں پے مشتعمل اور 20 مسلسل تیاری حالت والی یونٹس موجود تھيں۔ کانٹريکٹ فوجیوں کی تعداد چاہے کچھ بھی ہو الیگزینڈر گولٹز جیسے مفسرین حربی يونٹوں ميں اضافے سے زيادہ پر اميد نہيں کيونکے سینئر افسران "پیشہ ورانہ نان کمیشنڈ افسران اور کانسکرپٹوں ميں فرق نہيں روا رکھتے۔ ايسے کانسکرپٹ سارجنٹوں ميں بيرکوں ميں کمان کا نہ تو تجربہ ہوتا ہے نہ تعليم۔ برسوں سے بیرکوں میں نظم و ضبط کی صورت حال قائم کرنے ٰکی کوشش کے باوجود بھی 2002ء کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق حادثات اور جرائم کے نتیجے میں ڈیوٹی پر 531 فوجی ہلاک ہوئے اور 20000 زخمی ہو گئے۔ وزیر دفاع ایوانوف کے مطابق، "ان حادثات کی شرح گر نہیں رہی ہے"۔ ہر سات ميں سے دو فوجی ملازمت کے دوران منشیات اور شراب کے عادی بن جاتے ہيں اور ہر بيس ميں سے ایک جنسی عصمت دری کا نشانہ بنتتا ہے۔ [28]

مزيد ديکھیے

ترمیم

روسی فضائيہ

حوالہ جات

ترمیم
  1. Главнокомандующий Сухопутными войсками Олег Салюков. Биография (بزبان روسی)۔ ITAR TASS۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 6 مئی 2014 
  2. "Russian Ground Forces Overview"۔ GlobalSecurity۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 ستمبر 2024 
  3. "Russia Military Power"۔ US Department of Defense۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 ستمبر 2024 
  4. "Russia's Ground Forces: Structure and Strategy"۔ Council on Foreign Relations۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 ستمبر 2024 
  5. "Official website [Translated by Babelfish and amended for readability]."۔ Russian Ministry of Defence۔ January 9، 2007 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 اکتوبر 2006 
  6. "Russia's Defense Spending"۔ SIPRI۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 ستمبر 2024 
  7. International Institute for Strategic Studies (1992)۔ The Military Balance 1992–3۔ London: Brassey's۔ صفحہ: 89 
  8. David Isby (1988)۔ Weapons and Tactics of the Soviet Army۔ Jane's۔ صفحہ: 23۔ ISBN 9780710607890 تأكد من صحة |isbn= القيمة: checksum (معاونت) 
  9. "Russia's Military Might"۔ Deutsche Welle۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 ستمبر 2024 [مردہ ربط]
  10. "The Modern Russian Army"۔ Jane's Defence۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 ستمبر 2024 
  11. "Russian Ground Forces - Structure and Equipment"۔ FAS (Federation of American Scientists)۔ 14 ستمبر 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 ستمبر 2024 
  12. Mikhail Barabanov (2015)۔ Russia's New Ground Forces: Building a Modern Army۔ CAST۔ صفحہ: 37۔ ISBN 9785902404779 تأكد من صحة |isbn= القيمة: checksum (معاونت) 
  13. "Russian Ground Forces"۔ Army Technology۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 ستمبر 2024 [مردہ ربط]
  14. Mark Galeotti (2017)۔ The Modern Russian Army 1992–2016۔ Osprey Publishing۔ صفحہ: 45۔ ISBN 9781472825238 تأكد من صحة |isbn= القيمة: checksum (معاونت) 
  15. "Russian Armed Forces Overview"۔ Military Factory۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 ستمبر 2024 [مردہ ربط]
  16. "Russian Ground Forces Doctrine"۔ RAND Corporation۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 ستمبر 2024 
  17. "Ground Forces of the Russian Federation"۔ BBC News۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 ستمبر 2024 
  18. "The Russian Military - Analysis"۔ Institute for the Study of War۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 ستمبر 2024 [مردہ ربط]
  19. "Russian Army History"۔ History Channel۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 ستمبر 2024 
  20. "Russian Army Structure"۔ Center for Strategic and International Studies۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 ستمبر 2024 [مردہ ربط]
  21. "Russia's Military Might"۔ Deutsche Welle۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 ستمبر 2024 [مردہ ربط]
  22. Mikhail Barabanov (2015)۔ Russia's New Ground Forces: Building a Modern Army۔ CAST۔ صفحہ: 37۔ ISBN 9785902404779 تأكد من صحة |isbn= القيمة: checksum (معاونت) 
  23. "The Russian Defense Ministry has major staff changes"۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 اپریل 2010 
  24. Igor Ilyin۔ "Сергей Севрюков принял штандарт командующего 49-й общевойсковой армией" [Sergey Sevryukov accepted command of the 49th Combined Arms Army]۔ www.stapravda.ru (بزبان الروسية)۔ Stavropol Pravda۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 فروری 2016 
  25. "Russia's Defense Spending"۔ SIPRI۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 ستمبر 2024 
  26. "Russian Ground Forces in Ukraine"۔ Reuters۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 ستمبر 2024 
  27. "Russian Army Structure"۔ Center for Strategic and International Studies۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 ستمبر 2024 [مردہ ربط]
  28. "Russia's National Guard - A Growing Military Power"۔ Al Jazeera۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 ستمبر 2024 [مردہ ربط]