زاہد وخشی
خواجہ مولانا محمد زاہد وخشی سلسلہ نقشبندیہ میں اہم مقام رکھتے ہیں۔
زاہد وخشی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
تاریخ پیدائش | 17 فروری 1448ء |
تاریخ وفات | 4 نومبر 1529ء (81 سال) |
عملی زندگی | |
استاذ | عبید اللہ احرار |
درستی - ترمیم |
ولادت
ترمیمآپ بخارا کے علاقہ حصار کی نواحی بستی وخش میں 14 شوال 856ھ بمطابق 1448ء کوپیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے والد ماجد سے ہی حاصل کی۔ آپ خواجہ مولانا محمد یعقوب چرخی رحمۃ اللہ علیہ کے نواسے ہیں۔
طریقت کی ابتدا
ترمیمآپ نے طریقت کے ابتدائی اسباق یعنی ذکر کی تلقین آپ کے کسی خلیفہ سے حاصل کی تھی۔ ان کا نام معلوم نہ ہو سکا۔ اس کے بعد آپ ریاضت و مجاہدہ میں مشغول ہو گئے حتیٰ کہ آپ کے اندر انوارات الٰہیہ کو جذب کرنے کی بے پناہ قوت پیدا ہو گئی۔ اسی دوران آپ کے کان میں خواجہ عبید اللہ احرار کے فیض کی آواز پہنچی تو آپ نے حصار سے سمرقند کی طرف رخت سفر باندھا۔ وہاں پہنچ کر آپ محلہ واسرائے میں قیام پزیر ہوئے۔ یہاں سے عبید اللہ احرارکی خانقاہ تقریباً چھ میل کے فاصلے پر تھی۔ احرار کو بذریعہ کشف معلوم ہوا کہ محمد زاہدہماری ملاقات کے لیے آ رہے ہیں تو آپ نے دل میں ارادہ فرمایا کہ ہمیں آگے جاکر ان کا استقبال کرنا چاہیے۔ حالانکہ سخت گرمی پڑ رہی تھی اور دوپہر کا وقت تھا۔ آپ نے اپنے خادمین سے فرمایا ہماری سواری کا اونٹ لاؤ اور آپ اس پر سوار ہوئے اور مریدین کو ساتھ لے کر چل پڑے۔ کسی کو مجال نہیں تھی کہ استفسار کرتا کہ آپ اس وقت سخت گرمی کے عالم میں کہاں تشریف لے جا رہے ہیں۔ آپ نے بھی اونٹ کو اس کے حال پر چھوڑدیا کہ جہاں چاہے چلا جائے۔ بالآخر اونٹ محلہ واسرائے میں محمد زاہدکی قیام گاہ کے سامنے ٹھہر گیا۔ آپ اونٹ سے اترے، اسی اثناء میں محمد زاہدکو بھی معلوم ہو گیا کہ عبید اللہ احرارتشریف لائے ہیں۔ آپ بے اختیار دوڑے آئے اور انکا استقبال کیا اور آپ کی پابوسی کا شرف حاصل کیا۔ اس کے بعد آپ زاہد وخشی کو ساتھ لے کر اندر تشریف لے گئے اور خلوت میں جاکر اپنے واردات و معاملات و مقامات، احرار کی خدمت میں گوش گزار کر دیے اور بیعت ہونے کی خواہش کا اظہار فرمایا۔ احرارنے آپ کو اسی وقت بیعت فرمالیا اور اسی مجلس میں آپ پر ایسی توجہ فرمائی کہ تمام منازل طے فرمادیں اور تکمیل کے درجہ تک پہنچادیا اور ساتھ ہی خلافت عطا کرکے آپ کو وہیں سے رخصت بھی عنایت فرمادی۔ یہ دیکھ کراحرار کے بعض مریدین آتشِ حسرت میں بے اختیار حضور کی خدمت میں عرض گزار ہوئے کہ ہمیں کئی برس ہو گئے خدمت بجا لاتے ہوئے، لیکن ایسی مہربانی نہیں ہوئی جیسی کہ آپ نے مولانا زاہد پر فرمائی کہ پہلی صحبت میں ہی نوازدیا۔ آپ نے فرمایا کہ مولانا زاہد، چراغ، تیل اور بتی تیار کرکے ہمارے پاس آئے تھے، ہم نے صرف روشن کرکے رخصت کر دیا۔
خلافت
ترمیمعبید اللہ احرار نے دین کی ترقی و ترویج کے لیے بے پناہ کام کیا اور اپنے بعدبہت خلفاء کو چھوڑا تاکہ یہ مشن جاری و ساری رہے۔ آپ کے خلفاء میں سب سے بڑے اور معظم خلیفہ محمد زاہد وخشی ہیں۔ آپ نہایت امیر گھرانے کے چشم و چراغ تھے، لیکن امارت کے ساتھ آپ کے والدین صاحبِ تقویٰ اور بزرگ انسان تھے۔ اسی لیے محمد زاہد کی طبیعت مبارک ابتدا سے ہی درویشانہ رہی۔ محمد زاہدنے اجازت کے بعد تبلیغ پر کمر کس لی اور دین کی اشاعت میں بھرپور حصہ لیا اور ایک دنیا نے آپ سے فیض حاصل کیا اور مقامات و کمالات کے درجات طے کیے۔ آپ احرارکے خلیفۂ اعظم تھے اور علومِ ظاہر و باطن کے ساتھ ساتھ فقر و تجرید اور توحید و ورع میں مقاماتِ عالیہ پر فائز المرام تھے۔
وصال
ترمیمآپ یکم ربیع الاول 936ہجری بمطابق 1529ء کو وخش میں ہی واصل بحق ہوئے اور وہیں پر آپ کا مزار پرانوار ہے، جہاں سے لوگ فیوض و برکات حاصل کرتے ہیں۔[1][2] [3]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ تذکرہ مشائخ نقشبندیہ نور بخش توکلی صفحہ209 تا 210 ناشر مشتاق بک کارنر لاہور
- ↑ حضرت خواجہ محمد زاہد وخشی۔ سلسلہ نقشبندیہ
- ↑ "آرکائیو کاپی"۔ 07 اگست 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 ستمبر 2015
ماخذ
ترمیم- حضرات القدس، تذکرہ نقشبندیہ خیریہ، نفحات القدس
پیش نظر صفحہ تصوف سے متعلق موضوع پر ایک نامکمل مضمون ہے۔ آپ اس میں مزید اضافہ کرکے ویکیپیڈیا کی مدد کرسکتے ہیں۔ |