زلزلہ قشر الارض سے توانائی کے اچانک اخراج کى وجہ سے رونما ہوتے ہيں۔ جس کى وجہ سے زلزلياتى لہريں پيدا ہوتى ہيں۔ يہ توانائى اکثر آتشفشانى لاوے کى شکل ميں سطح زمين پر نمودار ہوتى ہے۔ اس توانائى (آتشفشانى لاوے) کے قوت اخراج سے قشر الارض کى ساختمانى تختيوں ميں حرکت پذيرى پيدا ہوتى ہے۔ لہذا اپنے دوران حرکت يہ تختياں آپس ميں ٹکراتى ہيں جس کى وجہ سے سطح زمين کے اوپر جھٹکے (tremors) پيدا ہوتے ہيں۔ اور زلزلے رونما ہوتے ہيں۔
زلزلوں کي پیمائش ايک پيمانے پرکي جاتي ہے جسے ريکٹراسکيل کہا جاتا ہے- 1280 ميں، "زلزلوں" کو امريکہ ميں "ايورتھکوئيکينج" کہا جاتا تھا۔

فائل:Kashmir earthquake.jpg
زلزلۂ کشمیر

زلزلے کيوں آتے ہيں؟

ترمیم

دنيا کی تاريخ حادثات اور قدرتی آفات سے بھری پڑی ہے۔ ان ميں سے بعض قدرتی آفتوں نے تو انسانی آبادی کے بڑے حصّے کو ديکھتے ہی ديکھتے صفحۂٔ ہستی سے مٹاکر رکھ ديا۔ يہ حقيقت ہے کہ حادثات اور قدرتی آفات ميں زلزلے سے بڑھ کر کوئی دہشت ناک نہيں، اس لیے کہ يہ کسی پيشگی اطلاع کے بغير ايک دم نازل ہوتا ہے، يوں ذہنی طور پر اس کا سامنا کرنے کی تياری کا کسی کو بھی وقت نہيں ملتا۔ يوں بھی انسانی زندگی پر زلزلے کے اثرات ديگر قدرتی آفات مثلاً سيلاب، طوفان، وبائی بيماريوں اور جنگوں وغيرہ کے مقابلے ميں کہيں زيادہ گہرے اور ديرپا ہوتے ہيں، زلزلوں کی ہلاکت خيزی بھی جنگوں اور وبائی امراض سے کہيں زيادہ ہے۔ نفسياتی ماہرين کا تجزيہ ہے کہ زلزلے سے زندہ بچ جانے والے افراد پر برسوں شديد حزن و ملال، پژمردگی، خوف اور ڈراؤنے خواب مسلط رہتے ہيں۔ معلوم تاريخ کے مطالعے کے بعد ايک اندازہ لگايا گيا ہے اب تک آنے والے زلزلے آٹھ کروڑ انسانوں کو ہلاک کرچکے ہيں۔ مالی نقصانات کا تو شايد کوئی حساب ہی نہيں کيا جا سکتا۔ آٹھ اکتوبر کی صبح 8 بج کر 50 منٹ پر جو قيامت خيز زلزلہ آيا، اس نے جہاں آزاد کشمير اور صوبہ سرحد کے ہزارہ ڈويژن ميں تباہی پھيلائی وہيں پاکستان کا دار الحکومت اسلام آباد بھی اس ہلاکت آفريں زلزلے کی زد ميں آگيا۔ زلزلے کے ابتدائی جھٹکے اس قدر شديد اور خوفناک تھے کہ اسلام آباد اور راولپنڈی کے تمام لوگ گھروں، دفترو ں اور کاروباری مراکز سے خوفزدہ ہوکر سڑکوں پر آ گئے اور پھر کئی گھنٹوں تک سڑکوں پر ہی رہے۔ زلزلے کيوں آتے ہيں؟ آتش فشاں پہاڑ کيوں پھٹتے ہيں؟ اور دنيا کے کچھ حصّوں ميں اس قسم کے واقعات زيادہ کيوں رونما ہوتے ہيں؟ ان جيسے بہت سے سوالات 8 اکتوبر کے بعد اکثر لوگوں کے ذہنوں ميں شدوّمد سے گردش کر رہے ہيں!۔۔۔۔

صديوں پہلے لوگ زلزلے کے بارے ميں عجيب وغريب رائے رکھتے تھے، مثلاً عيسائی پادريوں کا خيال تھا کہ زلزلے خدا کے باغی اور گنہگار انسانوں کے لیے اجتماعی سزا اور تنبيہ ہوتے ہيں بعض قديم اقوام سمجھتی تھيں مافوق الفطرت قوتوں کے مالک ديوہيکل درندے جو زمين کے اندر رہتے ہيں، زلزلے پيدا کرتے ہيں قديم جاپانيوں کا عقيدہ تھا کہ ايک طويلِالقامت چھپکلی زمين کو اپنی پشت پر اُٹھائے ہوئے ہے اور اس کے ہلنے سے زلزلے آتے ہيں کچھ ايسا ہی عقيدہ امريکی ريڈ انڈينز کا بھی تھا کہ زمين ايک بہت بڑے کچھوے کی پيٹھ پر دھری ہے اور کچھوے کے حرکت کرنے سے زلزلے آتے ہيں سائیبيريا کے قديم باشندے زلزلے کی ذمّہ داری ايک قوی البحثّہ برفانی کتے کے سر تھوپتے ہيں، جو ان کے بقول جب اپنے بالوں سے برف جھاڑنے کے لیے جسم کو جھٹکے ديتا ہے تو زمين لرزنے لگتی ہے ہندوؤں کا عقيدہ ہے کہ زمين ايک گائے کے سينگوں پر رکھی ہوئی ہے، جب وہ سينگ تبديل کرتی ہے تو زلزلے آتے ہيں۔ قديم يونانی فلسفی اور رياضی داں فيثا غورث کا خيال تھا کہ جب زمين کے اندر مُردے آپس ميں لڑتے ہيں تو زلزلے آتے ہيں۔ اس کے برعکس ارسطو کی توجيہہ کسی حد تک سائنسی معلوم ہوتی ہے، وہ کہتا ہے کہ جب زمين کے اندر گرم ہوا باہر نکلنے کی کوشش کرتی ہے تو زلزلے پيدا ہوتے ہيں۔ افلاطون کا نظريہ بھی کچھ اسی قسم کا تھا کہ زيرِ زمين تيز و تند ہوائيں زلزلوں کو جنم ديتی ہيں۔ تقريباً 70 سال پہلے سائنسدانوں کا خيال تھا کہ زمين ٹھنڈی ہو رہی ہے اور اس عمل کے نتيجے ميں اس کا غلاف کہيں کہيں چٹخ جاتا ہے، جس سے زلزلے آتے ہيں۔ کچھ دوسرے سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ زمين کے اندرونی حصّے ميں آگ کا جہنم دہک رہا ہے اور اس بے پناہ حرارت کی وجہ سے زمين غبارے کی طرح پھيلتی ہے۔ ليکن آج کا سب سے مقبول نظريہ ”پليٹ ٹيکٹونکس“ کا ہے جس کی معقوليت کو دنيا بھر کے جيولوجی اور سيسمولوجی کے ماہرين نے تسليم کرليا ہے۔

فائل:Tsu02.jpg
زمین کی پلیٹیں

زمین کی پلیٹیں کے اس نظرئيے کے مطابق زمين کی بالائی پَرت اندرونی طور پر مختلف پليٹوں ميں منقسم ہے۔ جب زمين کے اندرونی کُرے ميں موجود پگھلے ہوئے مادّے جسے جيولوجی کی زبان ميں ميگما Magma کہتے ہيں، ميں کرنٹ پيدا ہوتا ہے تو يہ پليٹيں بھی اس کے جھٹکے سے يوں متحرک ہوجاتی ہيں جيسے کنويئر بيلٹ پر رکھی ہوئی ہوں، ميگما ان پليٹوں کو کھسکانے ميں ايندھن کا کام کرتا ہے۔ يہ پليٹيں ايک دوسرے کی جانب سرکتی ہيں، اوپر، نيچے، يا پہلو ميں ہوجاتی ہيں يا پھر ان کا درميانی فاصلہ بڑھ جاتا ہے۔ زلزلہ يا آتش فشانی عمل زيادہ تر ان علاقوں ميں رونما ہوتا ہے، جو ان پليٹوں کے Joint پر واقع ہيں۔

ارضی پليٹوں کی حالت ميں فوری تبديلی سے سطح ميں دراڑيں يا فالٹ Fault پيدا ہوتے ہيں جن ميں پيدا ہونے والے ارتعاش سے زلزلہ آتا ہے۔ زيرِزمين جو مقام ميگما کے دباؤ کا نشانہ بنتا ہے، اسے محور Focus اور اس کے عين اوپر کے مقام کو جہاں اس جھٹکے کے فوری اثرات پڑتے ہيں، زلزلے کا مرکز Epicentre کہا جاتا ہے۔ زلزلے کی لہريں پانی ميں پتھر گرنے سے پيدا ہونے والی لہروں کی طرح دائرے کی شکل ميں چاروں جانب يلغار کرتی ہيں۔ ان سے ہونے والی تباہی کا تعلق جھٹکوں کی ريکٹر اسکيل پر شدّت، فالٹ يا دراڑوں کی نوعيت، زمين کی ساخت اور تعميرات کے معيار پر ہوتا ہے۔ اگر زلزلہ زمين کی تہ ميں آئے تو ا س سے پيدا ہونے والی بلند موجيں پوری رفتار کے ساتھ چاروں طرف چلتی ہيں اور ساحلی علاقوں ميں سخت تباہی پھيلاتی ہيں۔

فائل:Tsu03.jpg
پلیٹوں کی حرکات

زلزلے دو قسم کے ہوتے ہيں، قدرتی وجوہات کی وجہ سے آنے والے زلزلوں کو ٹيکٹونک Tectonic زلزلے کہا جاتا ہے جبکہ انسانی سرگرميوں کی وجہ سے آنے والے زلزلے نان ٹيکٹونک Non Tectonic کہلاتے ہيں۔ ٹيکٹونک زلزلے انتہائی شدت کے بھی ہو سکتے ہيں۔ جبکہ نان ٹيکٹونک عام طور پر معمولی شدت کے ہی ہوتی ہيں۔ ايک ہی زلزلے کا مختلف علاقوں پر اثر مختلف ہو سکتا ہے چنانچہ کسی خطے ميں تو بہت زيادہ تباہی ہوجاتی ہے ليکن دوسرے علاقے محفوظ رہتے ہيں۔ زلزلے کی لہريں 25 ہزار کلوميٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے پھيلتی ہيں۔ نرم مٹی اور ريت کے علاقے ميں يہ نہايت تباہ کن ثابت ہوتی ہيں۔ ان کی شدّت کا اندازہ ريکٹر اسکيل پر زلزلہ پيما کے ريکارڈ سے لگايا جاتا ہے۔ جبکہ ظاہر ہونے والی تباہی کی شدّت مرکلی اسکيل Mercally Intensity Scale سے ناپی جاتی ہے۔ زلزلے سمندر کی تہ ميں موجود زمينی سطح پر بھی پيدا ہوتے ہيں اور حقيقت يہ ہے کہ زيادہ تر زلزلے سمندر کی تہ ميں ہی پيد اہوتے ہيں۔ بحری زلزلوں يعنی سونامی سے سمندر ميں وسيع لہريں پيدا ہوجاتی ہيں۔ انميں سے بعض تو ايک سو ميل سے لے کر 200 ميل تک کی لمبائی تک پھيل جاتی ہيں، جبکہ ان کی اونچائی 40 فٹ تک ہوتی ہے۔ يہ لہريں ساحل پر پہنچتی ہيں تو ساحل سے گذر کر خشکی کی جانب سيلاب کی طرح داخل ہوجاتی ہيں اور بے پناہ تباہی و بربادی پھيلاديتی ہيں۔

دنيا کے وہ خطے جہاں زلزلے زيادہ پيدا ہوتے ہيں، بنيادی طور پر 3 پٹيوں Belts ميں واقع ہيں۔ پہلی پٹی جو مشرق کی جانب ہماليہ کے پہاڑوں سے ملی ہوئی ہے، انڈيا اور پاکستان کے شمالی علاقوں ميں ہماليہ کے پہاڑوں سے ہوتی ہوئی افغانستان، ايران اور پھر ترکی سے گزرتی ہوئی براعظم يورپ اور يوگوسلاويہ سے فرانس تک يعنی کوہ ايلپس تک پہنچ گئی ہے۔ دوسری پٹی براعظم شمالی امريکا کے مغربی کنارے پر واقع الاسکا کے پہاڑی سلسلے سے شروع ہوکر جنوب کی طرف Rocky mountains کو شامل کرتے ہوئے ميکسيکو سے گذر کربراعظم جنوبی امريکہ کے مغربی حصّے ميں واقع ممالک کولمبيا، ايکواڈور اور پيرو سے ہوتی ہوئی چلّی تک پہنچ جاتی ہے۔ جبکہ تيسری پٹی براعظم ايشيا کے مشرق پر موجود جاپان سے شروع ہوکر تائيوان سے گزرتی ہوئی جنوب ميں واقع جزائر فلپائن، برونائی، ملائیشياءاور انڈونيشيا تک پہنچ جاتی ہے۔ دنيا ميں 50 فيصد زلزلے کوہِ ہماليہ، روکيز ماؤنٹين اور کوہِ اينڈيز ميں پيدا ہوتے ہيں اور يہ تينوں پہاڑی سلسلے اوپر بيان کردہ پٹيوں ہی ميں واقع ہيں۔ تقريباً 40 فيصد زلزلے، براعظموں کے ساحلی علاقوں اور ان کے قرُب و جوار ميں پيدا ہوتے ہيں جبکہ بقيہ 10 فيصد زلزلے دنيا کے ايسے علاقوں ميں جو نہ تو پہاڑی ہيں اور نہ ساحلی ہيں، رونما ہوتے ہيں۔

جب زمين کی پليٹ جو تہ در تہ مٹی، پتھر اور چٹانوں پر مشتمل ہوتی ہے، کسی ارضياتی دباؤ کا شکار ہوکر ٹوٹتی يا اپنی جگہ چھوڑتی ہے تو سطح زمين پر زلزلے کی لہريں پيدا ہوتی ہيں۔ يہ لہريں دائروں کی صورت ميں ہر سمت پھيل جاتی ہيں۔ جہاں پليٹ ميں حرکت کا مرکز واقع ہوتا ہے وہ Hypo Centre کہلاتا ہے۔ اس کے عين اوپر سطحِ زمين پر زلزلے کا مرکز Epicentre کہلاتا ہے۔ يہ لہريں نظر تو نہيں آتيں ليکن ان کی وجہ سے سطح زمين پر موجود ہر شے ڈولنے لگتی ہے۔[1]

سالانہ زلزلوں کا تناسب

ترمیم
ہر سال آنے والے زلزلوں کی تعداد ميگنیٹيوڈ کيفيت شدت (ميگنیٹيوڈ ) کیفیت
6 لاکھ سے زائد 2.0 سے کم صرف سيسمو گراف محسوس کرتا ہے۔
3 لاکھ 2.0 سے 2.9 انسان محسوس نہيں کرپاتا۔
49 ہزار 3.0 سے 3.9 ارتعاش محسوس ہوتا ہے۔
6ہزار 4.0 سے 4.9 ہلکی توڑ پھوڑ ہوتی ہے۔
ايک ہزار 5.0 سے 5.9 کھڑکيوں کے شيشوں پر اثر انداز ہوتا ہے، پلستر اُکھٹر جاتا ہے۔
120 6.0 سے 6.9 ديواروں ميں دراڑيں پڑجاتی ہيں۔ خستہ عمارتيں ڈھے جاتی ہيں۔
18 7.0 سے 7.9 کئی عمارتيں تباہ ہوجاتی ہيں، ڈيم کو بھی نقصان پہنچتا ہي
1 8.0 سے زيادہ پورا شہر مليا مليٹ ہوجاتا ہے۔ پہاڑوں کی چٹانيں ٹوٹ کر گرتی ہيں۔

(Source: Earthquake and Urban Environment Vol.1 G.Lennis Berlin, 1980)

تدابیر

ترمیم

زلزلہ جیسی آفت کا کما حقہ ازالہ مشکل ہے۔ اس کے لیے تین سطح پر تدابیر استعمال کی جاتی ہیں۔ ایک ہے قبل از وقت، دوسری ہے دوران ِ آفت اور تیسری ہے بعد از آفت۔ ان سطحوں پر نہ صرف بچاو بلکہ تخفیف کی تدابیر بھی ضروری ہیں۔[2]

زلزلہ عمومي اصطلاحات

ترمیم

زلزلہ کي صورت ميں، ليٹ جانا (DROP)، ڈھک لينا (COVER) اور پکڑے رہنا (HOLD ON) کو ياد رکھيں- فرش پر ليٹ جائيں اور چھپنے کيلئے کسي چيز کے نيچے رہيں اور اسے اس وقت تک پکڑے رہيں جب تک زلزلہ رک نہ جائے-

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. "زلزلے کیوں آتے ہیں"۔ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کراچی۔ نومبر 2005ء {{حوالہ خبر}}: اس حوالہ میں نامعلوم یا خالی پیرامیٹر موجود ہےs: |pmd= و|trans_title= (معاونت) والوسيط غير المعروف |seperator= تم تجاهله (معاونت)
  2. کارٹر۔ انتظام آفات۔ ایشین ڈویلپمنٹ بینک: ماندالویونگ (فلپائن)، 2008ء، ص 191۔