ساجد سجنی
ریختی صنف سخن کے آخری قابل ذکر شاعر ساجد سجنی تھے۔
ریختی مردوں کے ذریعہ عورتوں کی مخصوص زبان، محاورے اور روز مرہ میں عورتوں کے باہمی معاملات اور جنسی جذبات کے اظہار پر مبنی شاعری ہے جو غزل کی ہیئت میں ہوتی تھی ۔’ریختی‘انیسوی صدی میں لکھنؤ کے خاص ثقافتی ماحول کی پیداوار تھی۔ اس کے اہم شاعروں میں یار علی جان، سعادت یار خان رنگین، محسن خاں محسن اور انشاء اللہ خان انشاء شامل تھے۔[1] اس صنف سخن کے آخری قابل ذکر شاعر ساجد سجنی تھے۔[2]
ساجد سجنی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 1922ء لکھنؤ |
مقام وفات | بھوپال |
قومیت | بھارتی |
عملی زندگی | |
پیشہ | شاعر |
وجہ شہرت | ریختی کے آخری قابل ذکر شاعر |
درستی - ترمیم |
پیدائش
ترمیمسکونت
ترمیمشاعری
ترمیمسجنی نے اس صنف سخن کا احیا کیا جو انیسویں صدی کے وسط میں عملاً ختم ہو چکا تھا۔ اسے اس نے ایک صحت مند سمت، زودبیانی، ظرافت اور مزاح کے پہلوؤں کو شامل کیا۔[2]
نمونہ کلام
ترمیمطلاق تو دے رہے ہو عتاب و قہر کے ساتھ | میرا شباب بھی لوٹا دو میرے مہر کے ساتھ |