ایک ملک کی سرحدوں سے باہر جا کے دوسرے ملک کے اختیارات پر دخل اندازی کرنے کے عمل کو سامراجیت (imperialism) کہا جاتا ہے۔ یہ دخل اندازی جغرافیائی، سیاسی یا اقتصادی طور پر ہو سکتی ہے۔ کسی ملک یا کسی خطّے کو اپنے سیاسی یا مالیاتی اختیار میں لا کے وہاں کے باشندوں کو مختلف حقوق سے محروم کرنا اِس نظام کی سب سے ظاہری صورت ہے۔
نوآبادیات کے ذریعہ اپنے سامراج کو وسعت دینے والا یہ نظام، نامناسب اقتصادی، تہذیبی اور جغرافیائی مسائل پیدا کرتا ہے۔
قدیم چینی سامراج اور سکندر کے یونانی سامراج سے جدید امریکی سامراجیت تک اس کی بے شمار مثالیں ہیں۔ انیسویں صدی کے نصفِ اوّل سے بیسویں صدی کے نصفِ اوّل تک کا زمانہ زمانۂ سامراجیت کے نام سے معروف ہے۔ برطانیہ، فرانس، اطالیہ، جاپان، امریکہ وغیرہ جیسے ممالک نے اس زمانے میں عالمی پیمانے پر نوآبادیات قائم کیں۔

اردو کے نظریہ دان،ادبی اور ثقافتی نقاد محقق اور ماہر عمرانیات احمد سہیل لکھتے ہیں ""سامراج" ۔۔ کی اصطلاح دوسری جنگ عظیم کے بعد " نو آبادیات" کے نام سے جانی گئی۔ نوآبادیات ایک ایسا سفاک اور استبدادی رویہ ہوتا ہے۔ جس میں ایک طاقت ور ملک چھوٹے اور کمزور علاقوں پر اپنا تسلط قائم کرتا ہے اور ان کا سیاسی، معاشرتی، ثقافتی استحصال کیا جاتا ہے۔ اور فوجی قوت اور سازشوں سے مقامی اداروں اور ثقافت کو تباہ وبرباد کرتے ہیں۔ یہ مقامی زیر تسلط خطے کو " سونے کی چڑیا" تصور کرتے ہیں۔ ایک ملک کی سرحدوں سے باہر جاکے دوسرے ملک کے اختیارات پر دخل اندازی کرنے کے عمل کو سامراجیت کہتا ہے ۔ یہ دخل اندازی جغرافیائی ، سیاسی یا اقتصادی طور پر ہو سکتی ہے ۔ کسی ملک یا کسی خطّے کو اپنے سیاسی اختیار میں لاکے وہاں کے باشندوں کو مختلف حقوق سے محروم کرنا ، اِس نظام کا سب سے ظاہری صورت ہے ۔ نوآبادیات کے ذریعہ اپنے سامراج کو وسعت دینے والا یہ نظام ، نامناسب اقتصادی ، تہذیبی اور جغرافیائی مسائل پیدا کرتا ہے۔" لفظ سامراجیت "امپیریلزم" لاطینی اصطلاح imperium سے آیا ہے جس کا مطلب ہے "حکم دینا"۔ سامراج ایک ملک کی طاقت کو دوسرے علاقوں میں پھیلانے یا دوسرے ملک کی ثقافت ، سیاست یا معاشیات پر کنٹرول حاصل کرنے کی پالیسی یا عمل ہے۔

سامراج کو تصفیہ، خود مختاری یا کنٹرول کے کچھ بالواسطہ میکانزم کے ذریعے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اس کے دور رس اثرات ہیں اور یہ معیشتوں، موسمیاتی تبدیلیوں اور جنگ کے معاملات کو متاثر کر سکتا ہے۔"

ممالک جو برطانوی سامراج کے ماتحت تھا

کالونیوں کو کیوں آزادی دی گئی؟ ترمیم

آج بھی عالمی میڈیا اس بات کو چھپانے کی کوشش کرتا ہے کہ سامراجی طاقتوں نے خود ہی اپنی محکوم کالونیوں کو کیوں آزاد کیا۔ انٹرنیٹ پر اس سوال کے جواب میں صرف جھوٹ اور تضاد کی بھرمار ہے اور انتہائی نامعقول وضاحتیں موجود ہیں۔[1]
اگست 2017 میں کسی گورے نے یہ وجہ بتائی جو سراسر گمراہ کن ہے:

"برطانوی سلطنت تاریخ کی سب سے بڑی سلطنت تھی۔ دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر برطانیہ کو اپنی نوآبادیوں سے نکلنا پڑا۔ بڑی حد تک اس کی وجہ یہ تھی کہ صنعتی ترقی کی وجہ سے معاشی خوش حالی میں اضافہ ہوا تھا۔ ذرایع نقل و حمل میں بہت زیادہ ترقی ہوئی تھی۔ مواصلاتی رابطوں کے نئے طریقے ایجاد ہوئے تھے۔ سلطنت کی جانب سے نسلی اور مذہبی تعظیم اور آزادی اظہار وغیرہ میں اضافہ ہوا تھا۔"[2]

کالونیوں کو آزادی دینے کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ گورا دھاتی کرنسی کا نظام ختم کر کے کاغذی کرنسی رائج کرنے میں کامیاب ہو چکا تھا جو مکمل طور پر گوروں کے کنٹرول میں تھی اور آج تک ہے۔ ہر کالونی میں اس کا سینٹرل بینک بن چکا تھا جو گوروں کے کنٹرول میں تھا۔ 1944ء میں بریٹن اوڈز کا معاہدہ منظور کر کے تیسری دنیا کے سارے ممالک اپنی محکومی قبول کر چکے تھے۔ اب صرف ایکسپورٹ آف کیپیٹل (یعنی نوٹ چھاپ کر قرضے دے کر یا سرمائیہ کاری کر کے ) وہ سارے مالی اور سیاسی فوائد سامراجیوں کو حاصل ہو چکے تھے جو پہلے فوجی طاقت سے چھینے جاتے تھے۔ اب سامراجیوں کو کوئی ضرورت نہیں تھی کہ کالونیوں میں قیام کا رسک لیں اس لیے بریٹن اوڈز معاہدے کے بعد صرف چند سالوں میں دنیا بھر کی کولونیوں کو بظاہر آزاد کر دیا گیا لیکن تاریخ نے ثابت کر دیا کہ اس نام نہاد آزادی کے بعد بھی دولت سابقہ کالونیوں سے سامراجی ممالک تک منتقل ہوتی رہی۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ آزاد شدہ کالونیوں پر آج بھی سیاسی دباو برقرار ہے۔

"روائیتی نوآبادیاتی نظام کو 1940 سے 1960 کی دہائیوں میں توڑ دیا گیا۔ اس کے بعد دنیا کی مالیاتی طاقتوں (سینٹرل بینکرز) نے سیاسی کنٹرول کی بجائے مالیاتی کنٹرول اختیار کیا"۔
traditional model of colonialism was forcibly dismantled in the 1940s-1960s.
In response, global financial powers sought financial control rather than political control.[3]
ملک کب آزادی ملی
اردن 1946ء
فلسطین 1947ء
انڈیا- پاکستان 1947ء
سری لنکا 1948ء
میانمار (برما) 1948ء
لاوس 1949ء
مصر 1952ء
کمبوڈیا 1953ء
ویتنام 1954ء

مزید دیکھیے ترمیم

حوالہ جات ترمیم