سرائے سدھو (انگریزی: Sarai Sidhu) پاکستان کا ایک آباد مقام جو ضلع خانیوال تحصیل کبیر والا میں واقع ہے۔ یہ ایک یونین کونسل بھی ہے ۔[1]

گاؤں
ملک پاکستان
صوبہپنجاب، پاکستان
ضلعضلع خانیوال
تحصیلتحصیل کبیروالہ


سرائے سدھو قبل ازمسیح کا تاریخی قصبہ ہے جو دریائے راوی سے ایک کلومیٹر دور جنوب میں واقع ہے تاریخ یہ بھی بتاتی ہے 325 قبل از مسیح سکندر اعظم فتوحات کرتا ہوا جب ملتان پہنچا تو وہ بیمار ہو گیا توا س کا معالج سرائے سدھو سے ملتان منگوایا گیا تھا 2500 سال پہلے نورالدین جہانگیر کے دور میں سرائے سدھو تلمبہ میں شامل تھا تلمبہ ،سرائے سدھو اور مخدوم پور کی تہذیب او ر قصباتی بناوٹ ایک جیسی ہے تو قیاس آرائی کی جا سکتی ہے کہ یہ تینوں شہر 2500 سال پہلے آباد تھے۔ سرائے سدھو کو شاہجہاں کے دور میں تلمبہ سے الگ کر دیا گیا ،تاریخی اہمیت کا حامل قصبہ ضلعی صدر مقام خانیوال سے چالیس کلومیٹر دور شمال کی جانب دریائے راوی کے جنوبی کنارے آباد ہے۔ سرائے سدھو کے تاریخی شواہد آج بھی قدم قدم پر موجود ہیں رام ً لچھمنً اور سیتا نے اپنے جلاوطنی کے کم و بیش دس سال دریائے راوی کے کنارے سرائے سدھو کے نزدیک گزارے جن کے آثار اب بھی موجود ہیں۔ شیر شاہ سوری جب اپنے لشکر کے ہمراہ سرائے سدھو سے گزرتے توا ن کا کئی کئی ماہ برگد کے درخت کے نیچے قیام ہوتا تھا۔ اپنی عبادت کے لیے انھوں نے مسجد بنوائی جو آج کل پریس کلب سرائے سدھو کا حصہ ہے۔ پانی نکالنے کے لیے انھوں نے ایک کنوا کھدوایا جو مٹی ڈال کے بند کر دیا گیا اوراس دور کے ہندوئوں کی عبادت کے لیے مندر بھی تعمیر کروایا جو اب خستہ حال ہو چکا ہے۔ اسی دور میں شیرشاہ سوری نے لاہور براستہ سرائے سدھو متی تل سڑک بنوائی جو شیر شاہ سوری جرنیلی سڑک کہلواتی ہے۔ شہر کے درمیان معروف بزرگ بابا ارجن شیر بخاری کا مزار ہے مزار کے عقب میں موجود مسجد ہے جس کے متعلق بیان کیا جاتا ہے کہ ہندو مسلم فساد کھڑا ہو گیا کہ ہندومندر تعمیر کرنا چاہتے تھے۔ مسلمانوں نے راتوں رات مسجد کھڑی کر دی جو آج بھی موجود ہے۔ سرائے سدھو کے آس پاس کے لوگ اس وقت ہندوئوں کے مقروض ہوتے تھے اور ہندو اپنا کاروبار کرتے تھے ۔ 1825ء میں تھانہ سرائے سدھو کا وجود عمل میں آیا اور برگد کے درخت کے نیچے پولیس افسران کچہریاں لگا کر لوگو ں کو انصاف مہیا کر تے تھے۔ اس دور سے 1985تک تھانہ سرائے سدھو کا حدود اربعہ وسیع و عریض تھا، شمال میں درکھانہ بار ، جڑالہ پل ، 25پل، جنوب مغرب میں نواں شہر ، بند بوسن ، سردار پور ، رنگ پور تک ملتا تھا اور مشرق میں عبد الحکیم پر مشتمل تھا۔آج قدیم تھانہ کے مزید تین تھانے وجود میں آچکے ہیں جن میں تھانہ نواں شہر ، تھانہ عبد الحکیم اور حویلی کورنگا ہے، جن کا شمار ماڈل تھانوں میں کیا جاتا ہے۔ قدیم تھانہ حدود اربعہ کے لحاظ سے پنجاب بھر میں سب سے بڑا تھانہ تھا۔ 1849ءمیں جب ملتان کا ایسٹ انڈیا کمپنی سے الحاق ہوا تو اس وقت سرائے سدھو ملتان کی عمل داری میں شامل تھا، انگریز حکومت نے الحاق کے فوراً بعد سرائے سدھو کو تحصیل کا درجہ دے دیا۔ 1889ء میں جب کبیروالا کو تحصیل کا درجہ دیا گیا تو سرائے سدھو کی تحصیلی حیثیت ختم کر کے کبیروالا میں شامل کر دیا۔ 1850ء میں سرائے سدھو میں پہلا پرائمری اسکول بنایا گیا سرائے سدھو میں تاریخی ورثہ کے حوالے سے عمارتیں اب بھی موجود ہیں۔ تھانہ کے سامنے ریسٹ ہاوس تھا جس کی دیکھ بھال نہ ہونے کیوجہ سے اس کو ختم کر دیا گیا جو سرائے سدھو کی تاریخ کا ایک حصہ تھا۔ اب موجودہ دور میں تاریخی گورنمنٹ ہائی اسکول کی عمارت کو ختم کر کے گرلز ہائی اسکول بنا دیا گیا ہے جس کی وجہ سے سرائے سدھو ایک تاریخی عمارت سے محروم ہو گیا۔موجودہ دور میں گورنمنٹ ڈگری کالج ، آر ایچ سی ہسپتال ، ویٹرنری ہسپتال ، ڈاکخانہ، دفتر زراعت، ٹیلی فون ایکسچینج و دیگر سہولیات تو مہیا کر دی گئیں لیکن سرائے سدھو کی تاریخی حیثیت کسی نے بحال نہ کی۔ [2]

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. "آرکائیو کاپی"۔ 24 مارچ 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 اگست 2017 
  2. غضنفر مہدی لنگاہ