سراج اورنگ آبادی

ولی دکنی کے بعد دکن کے مشہور ترین شاعر۔

سراج اورنگ آبادی (پیدائش: 11 مارچ 1712ء— وفات: 6 اپریل 1764ء) دکنی شعرا میں ولی دکنی کے بعد اردو کے سب سے بڑے شاعر ہیں۔ سراج کی کلیات میں غزلیں، قصیدے، رباعیات اور مثنوی شامل ہیں، تاہم وہ اپنی مثنوی'بوستانِ خیال' اور اپنی غزلوں کی وجہ سے زیادہ مشہور ہوئے۔

سراج اورنگ آبادی
معلومات شخصیت
پیدائش 11 مارچ 1712ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اورنگ آباد   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 6 اپریل 1764ء (52 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اورنگ آباد   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ شاعر   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

پیدائش

ترمیم

سراج کی پیدائش بروز پیر 13 صفر 1124ھ مطابق 11 مارچ 1712ء کو اورنگ آباد میں ہوئی۔

سوانح

ترمیم

نام سید سراج الدین اور تخلص سراج تھا۔ اورنگ آباد میں پیدائش ہوئی اور تمام عمر وہیں بسر کی۔ بارہ سال کی عمر میں اُن پر وحشت طاری ہوئی اور گھر بار چھوڑ کر نکل گئے۔ مدتِ مدید تک یہ کیفیت رہی۔ 1734ء میں سراج حضرت شاہ عبد الرحمن چشتی سے بیعت ہوئے۔ سراج درویش و باکمال صوفی تھے اور اِن کے مریدین کی تعداد ان گنت تھی۔[1]

شاعری

ترمیم

سراج نے سخن کی ہر صنف میں طبع آزمائی کی۔اردو کا ایک ضخیم کلیات ، فارسی اساتذہ کے کلام کا انتخاب اور ایک مثنوی’’بوستان خیال‘‘ ان کی یادگار ہے۔ آپ ایک ہندوستانی صوفی شاعر تھے۔

شعروشاعری کا زمانہ

ترمیم

سراج 1734ء میں بیس سال کی عمر میں حضرت شاہ عبد الرحمن چشتیؒ سے بیعت کیے تھے۔ اسی زمانے میں انھوں نے اردو میں شعر گوئی کا آغاز کیا تھا۔ سنہ 1740ء کے بعد انھوں نے اپنے مرشد کے حکم پر شاعری کو خیرباد کہا۔[2]

وفات

ترمیم

سراج اورنگ آبادی کا انتقال 52 سال کی عمر میں بروز جمعہ 4 شوال 1177ھ مطابق 6 اپریل 1764ء کو اورنگ آباد میں ہوا۔

نمونہ کلام

ترمیم

سراج اورنگ آبادی کی یہ غزل بہت مشہور ہے، جسے بڑے بڑے نامور گلوکاروں نے گایا ہے۔

خبرِ تحیرِ عشق سن نہ جنوں رہا نہ پری رہی
نہ تو تو رہا نہ تو میں رہا جو رہی سو بے خبری رہی

شہ بے خودی نے عطا کیا مجھے اب لباس برہنگی
نہ خرد کی بخیہ گری رہی نہ جنوں کی پردہ دری رہی

کبھی سمتِ غیب سیں کیا ہوا کہ چمن ظہور کا جل گیا
مگر ایک شاخِ نہالِ غم جسے دل کہو سو ہری رہی

نظرِ تغافلِ یار کا گلہ کس زباں سیں بیاں کروں
کہ شرابِ صد قدح آرزو خمِ دل میں تھی سو بھری رہی

وہ عجب گھڑی تھی میں جس گھڑی لیا درس نسخۂ عشق کا
کہ کتاب عقل کی طاق پر جوں دھری تھی تیوں ہی دھری رہی

ترے جوشِ حیرتِ حسن کا اثر اس قدر سیں یہاں ہوا
کہ نہ آئینہ میں رہی جلا نہ پری کوں جلوہ گری رہی

کیا خاک آتشِ عشق نے دلِ بے نوائے سراجؔ کوں
نہ خطر رہا نہ حذر رہا مگر ایک بے خطری رہی

حوالہ جات

ترمیم
  1. محمد شمس الحق: پیمانۂ غزل، جلد اول، صفحہ47۔
  2. Taemeer News: مرٹھواڑہ میں اردو غزل کے چراغ - سراج اورنگ آبادی