سردار نقوی امروہوی
پروفیسر سردار نقوی امروہوی (پیدائش:21 مارچ، 1941ء - وفات: 5 فروری، 2001ء ) پاکستان کے ممتاز اردو مرثیہ گو شاعر تھے۔
پروفیسر سردار نقوی امروہوی | |
---|---|
پیدائش | سید سردار احمد 21 مارچ 1941 ء امروہہ، برطانوی ہندوستان |
وفات | 5 فروری 2001 ء کراچی، پاکستان |
قلمی نام | سردار نقوی |
پیشہ | ماہرِ تعلیم ، دانشور ، شاعر |
زبان | اردو |
شہریت | پاکستانی |
تعلیم | ایم ایس سی ( ریاضی) |
مادر علمی | کراچی یونیورسٹی |
حالات زندگی اور تعلیمی سفر
ترمیمسید سردار محمد نقوی المعروف سردار نقوی 21 مارچ، 1941ء کو امروہہ، اتر پردیش، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام سید انوار محمد نقوی تھا۔[1] ابتدائی تعلیم کا سلسلہ امروہہ ہی میں اپنی والدہ کے نانا حکیم سید حیدر نظر کی زیرِ نگرانی ہوا۔ تقسیم ہند کے بعد اپنے وطن سے ہجرت کر کے کراچی آ گئے اور یہیں باقی تعلیم مکمل کی۔ کراچی یونیورسٹی سے بی ایس سی (آنرز) اور 1962ء میں ایم ایس سی (ریاضی) کی اسناد حاصل کیں ۔[2]
کیرئیر کا آغاز
ترمیمپروفیسر سردار نقوی نے ملازمت کی ابتدا 1963ء میں جیالوجیکل سروے ڈپارٹمنٹ سے کی۔ 1965ء تک اسٹنٹ ڈائریکٹر کی پوسٹ پر رہے پھر گورنمنٹ کالج برائے طلبہ، کوئٹہ میں شعبہ جیالوجی کے استاد اور بانی کی حیثیت سے خدمات کا آغاز کیا تاہم 1970ء میں کراچی آ گئے اور یہاں محکمہ تعلیم کے مختلف اہم عہدوں پر فائز رہے۔ 1977ء میں ڈی جے کالج کراچی کے شعبہِ جیالوجی میں استاد مقرر ہوئے اور 1997ء میں بحیثیت پروفیسر اور سربراہِ شعبہ جیالوجی کے (ذاتی درخواست پر قبل از وقت) ریٹائرمنٹ لے لی۔[3]
شعر و سخن
ترمیمانھوں شاعری کی ابتدا 1957ء میں سولہ برس کی عمر میں کی۔ ابتدا میں ہی ترقی پسند تحریک سے متاثر ہوئے اور اپنی شاعری کا رشتہ انسانی دکھ اور آلام سے جوڑا۔ انھوں نے نعت، منقبت، غزل، مرثیہ ہر صنف میں لکھا۔ تاہم مرثیہ گوئی میں ملک گیر شہرت پائی۔ ایک عرصہ تک ریڈیو پاکستان کراچی اور پی ٹی وی پر ان کا مرثیہ تحت اللفظ ہر سال باقاعدگی سے پیش ہوا۔ سردار نقوی جب گورنمنٹ کالج، کوئٹہ میں تعینات تھے اس دوران اس شہر میں اردو مرثیہ متعارف کرنے کا سہرا بھی ان کے اور اثر جلیلی صاحب کے سر باندھا جاتا ہے۔ وہ جدید مرثیہ نگاروں میں ایک منفرد اسلوب کے حامل تھے۔ عاشور کاظمی نے ان کی مرثیہ گوئی میں کلاسیکی اور جدید طرز کا موازنہ ان الفاظ میں کیا ہے۔
” | سردار نقوی اگرچہ مرثیئے کی کلاسیکی روایات کے پاسدار تھے مگر ترقی پسند سوچ نے انہیں ایک سلیقہ اور ہنر مندی سکھائی کہ کلاسیکی فریم ورک میں نئی فکر اور نئی سوچ کو کیسے پیش کیا جا سکتا ہے۔یہ امتزاجِ رنگ و نکہت سردار نقوی کی پہچان بنا۔ البتہ بین نگاری کے معاملے میں انہوں نے طرزِ قدیم کو اپنایا۔[4] | “ |
نمونہِ کلام
ترمیمنعتیہ اشعار
مدینے کو جو جنت کہہ رہا ہوں | حقیقت ہے حقیقت کہہ رہا ہوں | |
میری آواز سنتے ہیں فرشتے | کہ میں نعتِ رسالت کہہ رہا ہوں | |
کہاں میں اورکہاں نعتِ پیمبر (ص) | بحدِ استطاعت کہہ رہا ہوں |
غزل
رنگ اِک آتا رہا چہرے پہ اِک جاتا رہا | میں تو ماضی کو فقط آئینہ دِکھلاتا رہا | |
دُھوم تھی جس کے تکّلم کی، وہی جانِ سُخن | جب حدیثِ دِل کی بات آئی تو ہکلاتا رہا | |
پیاس صحرا کے مُقدّر میں جو تھی، سو اب بھی ہے | ابر برسا بھی تو، بس دریا کو چھلکاتا رہا |
مرثیہ کا بند
علم کو علم ، جہالت کو جہالت کہنا | فسق کو فسق ، شریعت کو شریعت کہنا | |
ظلم کو ظلم ، عدالت کو عدالت کہنا | کذب کو کذب ، صداقت کو صداقت کہنا | |
کتنا دشوار ہے ، یہ بولہبی سے پوچھو | ||
کس قدر سہل ہے ، فرزندِ نبی(ص) سے پوچھو ! |
تدوین، تصانیف اور تراجم
ترمیم- گریہِ فرات
- کربلا شناسی
- مستقبل کی نسلوں کے نام حضرت علی کا پیغام
- تہذیبوں کا تصادم اور تفاہم
- پروفیسر کرار حسین (مرحوم )کی سلسلہ تقاریر 'مطالعہِ قرآن ' کی تلخیص ( 8 کتب )
- فاطمہ فاطمہ ہے ڈاکٹر علی شریعتی کی کتاب کا ترجمہ
- ڈاکٹر علی شریعتی کے متعددمقالات کا فارسی سے اردو ترجمہ
وفات
ترمیمسردار نقوی کی وفات 5 فروری 2001ء کو کراچی میں ہوئی اور انھیں کراچی کے قبرستان وادیِ حسین میں دفن کیا گیا۔
حوالہ جات
ترمیم- ↑ Bio-bibliography.com - Authors
- ↑ https://rekhta.org/ebooks/urdu-marsiya-pakistan-mein-zameer-akhtar-naqvi-ebooks تعارف سردار نقوی، صفحہ 377، اردو مرثیہ پاکستان میں از ضمیر اختر نقوی
- ↑ سوانحی خاکہ، کتاب پرسہ، سردار نقوی، ناشر پروفیسر سردار نقوی اکیڈمی
- ↑ https://rekhta.org/ebooks/urdu-marsiye-ka-safar-aur-bisvin-sadi-ke-urdu-marsiya-nigar-sayyad-ashoor-kazmi-ebooks تعارف سردار نقوی ، صفحہ 686،اردو مرثیہ کا سفر از سید عاشور کاظمی
- ↑ سردار نقوی ::::: رنگ اِک آتا رہا چہرے پہ اِک جاتا رہا ::::: Sardar Naqvi | اردو محفل فورم