ماہ صفر میں بئرمعونہ کا مشہور واقعہ پیش آیا۔ ایک نجدی عامر بن مالک کلابی نام کا ایک نجدی، مدینہ منورہ آیا، وہ مسلماں تو نہ ہوا، لیکن اس نے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے درخواست کی کہ، کچھ لوگ اس کے ساتھ بھیج دیے جائیں تاکہ اس کے قبیلہ میں وہ تبلیغ کریں، امید ہے وہ لوگ مسلمان ہوجائیں۔ اس پر 70 صحابہ کی جماعت اس کے ساتھ بھیج دی گئی۔ بئر معونہ کے کنواں کے پاس تمام صحابہ کو شہید کر دیا گيا، صرف تین لوگ ہی زندہ بچ سکے۔

سریہ منذر بن عمرو
عمومی معلومات
مقام بئر معونہ   ویکی ڈیٹا پر (P276) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
متحارب گروہ
مسلمان نجدی کافر
قائد
منذر بن عمرو ابو براء عامر بن مالک
قوت
70 قراء نامعلوم
نقصانات
67 صحابہ شہید، 1 زخمی، 2 گرفتار 2 قتل ہوئے

واقعات

ترمیم

ابو براء عامر بن مالک جو اپنی بہادری کی وجہ سے ملاعب الاسنہ (برچھیوں سے کھیلنے والا) کہلاتا تھا،بارگاہ رسالت میں آیا،حضور ﷺنے اس کو اسلام کی دعوت دی،اس نے نہ تو اسلام قبول کیا نہ اس سے کوئی نفرت ظاہر کی بلکہ یہ درخواست کی کہ آپ اپنے چند منتخب صحابہ کو ہمارے دیار میں بھیج دیجئے مجھے امید ہے کہ وہ لوگ اسلام کی دعوت قبول کر لیں گے۔ آ پ نے فرمایا کہ مجھے نجد کے کفار کی طرف سے خطرہ ہے۔ ابو براء نے کہا کہ میں آپ کے اصحاب کی جان و مال کی حفاظت کا ضامن ہوں[1] اس کے بعد حضور ﷺ نے صحابہ میں سے ستر منتخب صالحین کو جو قراء کہلاتے تھے بھیج دیا۔ یہ حضرات جب مقام بئرمعونہ پر پہنچے تو ٹھہر گئے اور صحابہ کے قافلہ سالار حرام بن ملحان حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا خط لے کر عامر بن طفیل کے پاس اکیلے تشریف لے گئے جو قبیلہ کارئیس اور ابوبراء کا بھتیجا تھا۔ اس نے خط کو پڑھا بھی نہیں اور ایک شخص کو اشارہ کر دیا جس نے پیچھے سے حرام بن ملحان کو نیزہ مار کر شہید کر دیا اور آس پاس کے قبائل یعنی رعل وذکوان اور عصیہ و بنو لحیان وغیرہ کو جمع کرکے ایک لشکر تیارکر لیااور صحابہ کرام پر حملہ کے لیے روانہ ہو گیا۔ حضرات صحابہ کرام بئرمعونہ کے پاس بہت دیر تک حرام بن ملحان کی واپسی کا انتظار کرتے رہے مگر جب بہت زیادہ دیر ہو گئی تو یہ لوگ آگے بڑھے راستہ میں عامر بن طفیل کی فوج کا سامنا ہوا اور جنگ شروع ہو گئی کفار نے عمر و بن امیہ ضمری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے سوا تمام صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کوشہید کر دیا،انہی شہداء کرام میں عامر بن فہیرہ بھی تھے۔ جن کے بارے میں عامر بن طفیل کا بیان ہے کہ قتل ہونے کے بعد ان کی لاش بلند ہو کر آسمان تک پہنچی پھر زمین پر آ گئی،اس کے بعد ان کی لاش تلاش کرنے پربھی نہیں ملی کیونکہ فرشتوں نے انھیں دفن کر دیا۔[2] عمرو بن اُمیہ ضمری کو عامر بن طفیل نے یہ کہہ کر چھوڑ دیا کہ میری ماں نے ایک غلام آزاد کرنے کی منت مانی تھی اس لیے میں تم کو آزاد کرتاہوں یہ کہا اور ان کی چوٹی کا بال کاٹ کر ان کو چھوڑ دیا۔[3] عمرو بن امیہ ضمری وہاں سے چل کر جب مقامِقرقرہ میں آئے تو ایک درخت کے سائے میں ٹھہرے وہیں قبیلۂ بنو کلاب کے دوآدمی بھی ٹھہرے ہوئے تھے۔ جب وہ دونوں سو گئے تو عامر بن اُمیہ ضمری نے ان دونوں کافروں کو قتل کر دیااور یہ سوچ کر دل میں خوش ہو رہے تھے کہ میں نے صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے خون کا بدلہ لے لیا ہے مگر ان دونوں شخصوں کو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم امان دے چکے تھے جس کا عمرو بن امیہ ضمری کو علم نہ تھا۔[4] جب مدینہ پہنچ کر انھوں نے سارا حال دربار رسالت میں بیان کیاتو اصحاب بئرمعونہ کی شہادت کی خبر سن کر سرکار رسالت صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو اتنا عظیم صدمہ پہنچا کہ تمام عمر شریف میں کبھی اتنا رنج و صدمہ نہیں پہنچا تھا۔ چنانچہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم مہینہ بھر تک قبائل رعل و ذکوان اور عصیہ و بنو لحیان پر نماز فجر میں لعنت بھیجتے رہے اورعمرو بن امیہ ضمری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے جن دو شخصوں کو قتل کر دیا تھا حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان دونوں کے خون بہا ادا کرنے کا اعلان فرمایا۔[5]

نتائج

ترمیم

قنوت نازلہ

ترمیم

انس بن مالک سے روایت کرتے ہیں انھوں نے کہا کہ آنحضرتﷺ تیس دن تک ان لوگوں کے لیے جنھوں نے بئرمعونہ پر آپ ﷺ کے اصحاب کو شہید کیا تھا یعنی رعل، ذکوان اور بنی لحیان کے لیے بد دعا فرماتے رہے اور فرمایا کہ عصیہ نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی، انس کہتے ہیں کہ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺپر ان شہداء بئرمعونہ کے حق میں آیات نازل فرمائی مگر بعد کو ان کا پڑھنا موقوف ہو گیا وہ آیات یہ ہیں۔ بَلِّغُوا قَوْمَنَا فَقَدْ لَقِينَا رَبَّنَا فَرَضِيَ عَنَّا وَرَضِينَا عَنْهُ۔[6]

عاصم بن سلیمان روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے کہا کہ میں نے انس سے دریافت کیا کہ نماز میں قنوت پڑھنا کیسا ہے؟ انھوں نے کہا ٹھیک ہے۔ میں نے کہا : رکوع سے پہلے یا بعد، انھوں نے کہا : رکوع سے پہلے، میں نے کہا : فلاں صاحب (محمد بن سیرین یا کوئی اور) تو آپ کے حوالہ سے کہتے ہیں کہ آپ نے کہا کہ رکوع کے بعد انس نے کہا وہ غلط کہتے ہیں رکوع کے بعد آنحضرت ﷺ نے صرف ایک ماہ تک قنوت پڑھی تھی اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ ﷺ نے ستر قاریوں کو مشرکوں کی طرف بھیجا تھا کیونکہ ان سے اور آپ ﷺ سے عہد تھا ان معاندین کفار نے عہد توڑ دیا اور دھوکا سے ان قاریوں کو شہید کر ڈالا چنانچہ اس وقت رسول اللہ ﷺ ایک ماہ تک رکوع کے بعد قنوت پڑھتے رہے اور ان کے لیے بد دعا فرماتے رہے۔[7]

اثرات

ترمیم
ماقبل:
سریہ عبد اللہ بن انیس
محرم 4 ہجری
سرایا نبوی
سریہ منذر بن عمرو
مابعد:
سریہ مرثد بن ابو مرثد
صفر 4 ہجری

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. المواہب اللدنیۃ ،باب بئرمعونۃ،ج2،ص494
  2. المواہب اللدنیۃ ج2ص587 باب غزوۃ الرجیع)
  3. المواہب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی، باب بئر معونۃ ،ج2،ص501
  4. السیرۃ النبویۃ لابن ھشام،حدیث بئر معونۃ، ص376
  5. مواہب اللدنیۃ، باب بئر معونۃ، ج2،ص503
  6. صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 1318
  7. صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 1319