سسکتے لوگ (ناول)
سسکتے لوگ (1996ء) (انگریزی: The God of Small Things) بھارتی مصنفہ اروندھتی رائے کا پہلا ناول ہے۔ یہ ناول جڑواں بچوں کے واقعات پر محیط ہے جن کی زندگیاں محبت کے ان قوانین نے برباد کر دی ہیں جو یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ کس کو کتنا اور کب پیار کرنا چاہیے۔ کتاب میں یہ بتایا گیا ہے کہ کیسے چھوٹی چھوٹی چیزیں انسان کے رویے اور زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اس ناول کو 1997ء کا مین بکر پرائز ملا تھا۔
مصنف | ارون دھتی رائے |
---|---|
مترجم | پروین ملک |
ملک | پاکستان |
زبان | اردو |
ناشر | عکس پبلی کیشنز |
تاریخ اشاعت انگریری | 1997ء |
سسکتے لوگ مصنفہ کی پہلی تصنیف ہے اور 2017ء تک یہ ان کا واحد ناول تھا۔ پھر 20 سال بعد انھوں نے دوسرا ناول دی منسٹری آف اٹموسٹ ہیپینیس لکھا۔ سسکتے لوگ کا مسودہ انھوں نے 1992ء میں ہی لکھنا شروع کر دیا تھا جس کو انھوں نے چار سال بعد 1996ء میں مکمل کیا اور اگلے سال اس کی اشاعت ہوئی۔ اس کہانی کی اہمیت پر سب سے پہلے پنکج مشرا کی نظر پڑی جنھوں نے اس کو تین برطانوی ناشرین کو بھیجا۔ مصنفہ کو 500,000 پاؤنڈ اسٹرلنگ کی پیشگی رقم ملی اور 21 ممالک میں کتاب کے حقوق فروخت کیے گئے۔ 2013ء میں اس ناول پر مبنی تلخیت نامی ایک پاکستانی ٹی وی سلسلہ ایکسپریس انٹرٹینمینٹ کی جانب سے نشر کیا گیا۔
پلاٹ
ترمیمیہ کہانی ضلع کوٹایم، کیرلا، بھارت کے آییمینیم کی ہے اور 1969ء ، جب جڑواں راحیل اور استھافین سات برس کے تھے اور 1993ء، جب وہ دونوں پھر سے ملے کے درمیاں گردش کرتی رہتی ہے۔ جہیز کی کمی کی وجہ سے امو کی شادی نہیں ہو پارہی ہے لہذا وہ اپنے جھٹ خفا باپ، پپاچی اور مظلوم ماں، مماچی کو چھوڑنے کا ارادہ کرلیتی ہے۔ وہ والدین کو کلکتہ میں دور کی آنٹی کے یہاں گرمی کی تعطیلات گزارنے کے لیے جانے دینے پر راضی کرلیتی ہے۔ وہاں سے اسے آییمینیم لوٹنا نہ پڑے، اس لیے وہ وہیں ایک آدمی سے شادی کرلیتی ہے لیکن بعد میں اسے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا شوہر شرابی ہے اور اسے جسمانی اذیتیں دیتا ہے اور اپنے باس کو جسمانی دھندے کے لیے بھیجنے کی کوشش کرتا ہے۔ اسی دوران میں وہ راحیل اور استھافین کو جنم دیتی ہے، پھر اپنے شوہر کو خیر آباد کہ کر اپنے والدین اور بھائیوں کے ساتھ رہنے کے لیے آییمینیم لوٹ آتی ہے۔ اس کے بھائی کا نام چکو ہے۔ چکو پپاچی کی موت کے بعد انگلستان کی ایک عورت مارگریٹ کو طلاق دیکر گھر آجاتا ہے۔
آییمینیم کا یہ خاندان کئی نسلوں پرمحیط ہے جس میں پپاچی کی ہمشیرہ، ناوومی آپی، جس کو بے بی کوچمما بھی کہتے ہیں، رہتی ہے۔ نوجوانی میں ہی بے بی کوچمما کو ایک آئرش پادری (مولیگن) سے محبت ہوجاتی ہے۔ پادری کی قربت حاصل کرنے کے لیے بے بی کوچمما خاندان والوں کی مخالفت کے باوجود مذہب کاتھولک کلیسیا کو اپنا لیتی ہے۔ تبدیلی مذہب کے کچھ ہی دنوں کے بعد اس پر انکشاف ہوتا ہے کہ اس کا محبوب اس سے قریب نہیں ہے۔ اس کے والد اس کو تبدیلی مذہب سے بچاکر ریاستہائے متحدہ امریکا بھیج دیتے ہیں۔ لیکن فادر مولیگن کے لیے اس کا پیار بے انتہا خالص ہوتا ہے اسی لیے وہ پوری زندگی شادی نہ کرنے کا فیصلہ کرلیتی ہے اور یوں اپنی زندگی تلخ بنا لیتی ہے۔ پوری ناول میں اس کو دوسروں کی بدقسمتی سے خوشی ہوتی ہے اپنی زندگی کی طرح دوسروں زندگیوں میں تلخی پیدا کے لیے کوشاں رہتی ہے۔وہ حقائق کو جوڑ توڑ کر مصیبتیں کھڑی کرتی رہتی ہے۔
” | کہانی کا آغاز کرنا کوئی بڑی بات نہیں ہے، کیونکہ مدتوں پہلے کتھک کلی نے یہ انکشاف کیا ہے کہ لافانی داستانوں کا راز ہے یہ کہ ان میں کوئی راز نہیں ہے۔ عظیم کہانیاں وہ ہوتی ہیں جنہیں آپ ایک بار سن کر دوبارہ سننا چاہتے ہیں۔ ان کہانیوں کو آپ کہیں بھی سنیں آپ کو نامانوسیت کا احساس نہیں ہوگا۔ وہ آخر تک روکے رکھنے کے لیے عجائب اور تھریلر کا سہارا نہیں لیتی ہیں۔ | “ |
ادھر مارگریٹ کے دوسرے شوہر کا ایک کار حادثہ میں انتقال ہوجاتا ہے اور چکو اس کو اور اس کی بیٹی سوفی کو کرسمس منانے کے لیے آییمینیم بلاتا ہے۔ ایک دن تھیٹر جاتے ہوئے ان کا سامنا کمیونسٹ مظاہرین کے ایک گروہ سے ہوتا ہے جو کوچمما کی تذلیل کرتے ہوئے اس کو پرچم لہرانے اور کمیونسٹ کی حمایت میں نعرہ لگانے کا دباؤ ڈالتا ہے۔ مظاہرین میں راحیل ویلوتھا کو دیکھ لیتا ہے جو ان کی خاندانی اچار کی فیکٹری میں کام کرتا ہے۔ معا بعد تھیٹر میں ایستھا کو ایک بسکٹ فروخت،‘‘ نارنجی اور لیموں مشروبات والا شخص ‘‘جنسی ہراسانی کا شکاربناتا ہے۔ ایستھا کے ساتھ ہوا یہ واقعہ کہانی میں خطرناک موڑ لیتا ہے۔ راحیل کا یہ دعوی کہ اس نے ویلوتھا کو کمیونسٹ کی اس بھیڑ میں دیکھا تھا جس نے بے بی کوچمما کو ہراساں کیا تھا، کوچمما کو یہ سوچنے پر مجبور کردیتا ہے کہ ویلوتھا نے ہی اس کو ہراسانی کا شکار بنایا ہے اور وہ اس سے دشمنی کرنا شروع کردیتی ہے۔ ویلوتھا ایک دلت ہے اور اس کے باوجود راحیل اور ایستھا کو ویلوتھا سے بے حد پیار ہوتا ہے جو ایک غیر معمولی بات ہے۔ ویلوتھا کی جانب اپنے بچوں کی رغبت دیکھ کر امو خود اس کی محبت میں گرفتار ہوجاتی ہے اور ان دونوں کے مابین محبت پروان چڑھنے لگتی ہے ۔ ان دونوں کی راتوں رات محبت خاندان کے لیے ایک ٹریجڈی ثابت ہوتی ہے۔ ویلوتھا کے تئیں محبت کے انکشاف کے بعد امو اس کے کمرہ میں بند کردیاجاتا ہے اور ویلوتھا کو بھگا دیا جاتا ہے۔ امو اپنی بھڑاس اور غصہ نکالنے کے لیے اس بدقسمتی کا سارا ذمہ اپنے جڑواں بچیوں پر ڈال دیتی ہے اور ان کو گلے کا طوق تصور کرتی ہے۔ پریشان ہو کر راحیل اور ایستھا بھاگنے کا منصوبہ بناتی ہیں۔ ان کی ماموں زاد بہن سوفی بھی ان کے ساتھ ہولیتی ہے۔ رات میں ندی کے اس پار ایک ویران گھر میں پناہ لینے کی غرض سے تینوں کشتی میں سوار ہوتی ہیں مگر بدقسمتی سے کشتی ڈوب جاتی ہے اور سوفی مرجاتی ہے۔ مارگریٹ اور چکو جب سفر سے واپس ہوتے ہیں تو ان کے سامنے صوفہ پر سوفی کی لاش پڑی ہوتی ہے۔ بے بی کوچما پولس تھانہ جاکر ویلوتھا کو سوفی کی موت کا ذمہ بتاتی ہے۔ پولس کا ایک گروہ ویلوتھا کو گرفتار کرلیتا ہے، ذات حدود لانگھنے کے پاداش میں اس کو بے تحاشہ پیٹا جاتا ہے اور موت کے جرم میں گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ جڑواں میں اس ویران گھر میں منظرکا مشاہدہ کرتی ہیں ۔ بعد میں جب دونوں پولس کو حقیقت سے آگاہ کرتی ہیں اور پولس کو یہ پتہ چلتا ہے کہ ویلوتھا ایک کمیونسٹ ہے اور وہ متنبہ ہوجاتا ہے کیونکہ اگر عوام کو پتہ لگ گیا کہ ویلوتھا کو غلط طریقہ سے گرفتار کر کے پیٹا گیا ہے یہ ہنگامہ ہوجائیگا اور کمیونسٹ عوام مشتعل ہو جائے گی۔ پولس کا چیف بے بی کوچمما کو ویلوتھا کے مجرم ثابت کرنے کا ذمہ دار بتاتا ہے۔ خود کو بچانے کے لیے بے بی کوچمما ایک خطرناک چال چلتی ہے کہ راحیل اور ایستھا کو یہ باور کراتی ہے کہ وہ سوفی سے جلتی تھیں اور اسی لیے انھوں نے اس کا قتل کر دیا اور سزا کے طور ان کو اور امو کو اب جیل میں جانا پڑے گا۔ اس سے بچنے کا طریقہ بتاتے ہوئے کہتی ہے کہ انسپکٹر سے جاکر کہیں کہ ویلوتھا نے ہی سوفی کو اغواکرکے اس کا قتل کر دیا ہے۔ ادھر مارے زخم کے ویلوتھا مرجاتا ہے۔ سوفی کی تدفین کے بعد امو پولس کے پاس جاکر اس کے اور ویلوتھا کے مابین داستان محبت سے پردہ اٹھا دیتی ہے۔ بے نقاب ہونے کے ڈر سے بے بی کوچمما چکو کو کہتی ہے کہ امو اور اس کی دو بیٹیوں نے ہی سوفی کو قتل کیا ہے۔ چکو امو کو نکال دیتا ہے اور ایستھا کو اپنے باپ کے پاس جانے پر دباؤ ڈالتا ہے۔ ایستھا پھر کبھی امو سے نہیں ملتی ہے۔ وہ کچھ برسوں کے بعد 31 برس کی عمر وفات پا جاتی ہے۔ ہندوستان میں اپنے غیر معمولی بچپن اور نوجوانے کے ایام گزارنے کے بعد راحیل شادی کر کے امریکا چلی جاتی ہے جہاں وہ آییمینیم لسٹنے سے قبل گھٹ گھٹ کر زندگی گزارتی ہے اور طلاق لے لیتی ہے۔ راحیل اور ایستھا اب 31 برس کی ہو چکے ہیں اور بچپن کے بعد پہلی دفعہ مل رہیے ہیں ۔ وہ دونوں اپنی غلطیوں اور دلخراش ماضی کی سزا بھگت رہے ہوتے ہیں۔ ان پر یہ ظاہر ہوجاتا ہے کہ ان کو زندگی میں ایسا کوئی نہیں ملا جو ان کو سمجھ سکے جیسا کہ وہ دونوں ایک دوسرے کو سمجھتے ہیں۔ ناول کے اختتام میں دونوں مباشرت کرتے ہیں ۔ ویلوتھا اور امو کی محبت کی داستان کو دوہراتے ہوئے ناول کا آخری صفحہ اختتام شد ہوتا ہے۔
کردار
ترمیمایستھا
ترمیمایستھا ایستھاپن یاکا کو مخفف ہے، وہ ایک سنجیدہ اور ذہین لڑکا ہے۔ راحیل کو جڑواں بھائی ہے۔
راحیل
ترمیمراحیل بھی کہانی گو ہے اور ایستھا سے پورے 18 منٹ چھوٹی ہے۔ سات سال کی عمر میں وہ جاپانی انداز میں فوارے کی طرح اپنے بالوں کو سر کے اوپر جما کر کے رکھتی تھی۔ اور زرد فریم کی عینک لگاتی تھی۔ وہ ایک ذہین اور سیدھے خیال کی لڑکی ہے جو سماج سے کبھی مطمئن نہیں ہو پائی۔
امو
ترمیمراحیل اور ایستھا کی ماں ہے۔ اپنی نئی زندگی بسانے کی غرض سے اس نے بابا نامی شخص سے شادی کیتاکہ اپنے خاندان سے دور رہ سکے۔ وہ ایک شرابی تھا جس نے اسے طلاق دے دی اور جب وہ امو اور اس کے بچوں کو مارنے پیٹنے لگا تب امو واپس اپنے گھر آگئی۔
ویلوتھا
ترمیمویلوتھا ایک اچھوت تھا۔ کافی ذہین تھا اور آئی خاندان کے اچار کے کارخانے میں کمھار تھا۔ ملیالم زبان میں اس کے نام کا مطلب ہوتا ہے سفید۔ وہ آییمینیم اپنے والد کی مددکرنے آیا تھااور مارکس وادی تحریک کا ایک فعال کارکن بن گیا۔
چکو
ترمیمچکو ایستھا اور راحیل کا ماموں ہے اور امو سے چال سال بڑا ہے۔ [1] اپنے آکسفورڈ تعلیم کے آکری سال وہ مارگریٹ سے ملتا ہے اور اس سے شادی کرلیتا ہے۔
بے بی کوچما
ترمیمبے بی کوچمما جڑواں بہن بھائی کی بڑی بوا ہے۔ وہ جوان تو ہے مگر اس کا وزن کافی زیادہ ہے۔ اس کی گردن پر ایک تل ہے۔ وہ ہمیشہ احساس برتری میں مبتلا رہتی ہے کیونکہ وہ امریکا سے لوٹ کر آئی تھی۔ اس نے پادری سے پیار تھا جو کافی معنوں میں اہم تھا۔
حوالہ جات
ترمیم- ↑ Arundhati Roy (1998)۔ The God of Small Things۔ IndiaInk۔ صفحہ: 37۔ ISBN 8186939024