قریش مکہ کی جانب سے اسلام کی دعوت کو ٹھکرانے اور اس کی راہ میں رکاوٹیں حائل کرنے کے بعد پیغمبر آخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مکہ کے علاوہ دیگر مقامات میں دعوت دینِ حق پھیلانے پر غور کیا اور اس مقصد کے لیے ان کا پہلا انتخاب مکہ کا قریبی شہر طائف تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بعثت کے دسویں سال طائف کا سفر کیا جو سفر طائف کہلاتا ہے۔

10 سال مکے میں دین حق کی دعوت دینے کے باوجود بے جا مخالفت اور قریش کی ستم ظریفیاں حضرت سیدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور مسلمانوں کی راہ میں بدستور حائل تھیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اس بات کا بخوبی علم تھا کہ قریش جو مدت سے شرک اور بت پرستی کے قائل تھے اتنی جلدی پیغام حق قبول نہیں کر سکتے۔ اسلام کی تبلیغ کے لیے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نظر انتخاب طائف پر پڑی اور اہل طائف کے کانوں تک توحید کی آواز پہنچانے کے لیے آپ نے بعثت کے دسویں سال حضرت زید بن حارثہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کو ساتھ لے کر طائف کا سفر کیا۔ طائف مکہ سے 50 میل کے فاصلے پر مشرق کی طرف ایک پہاڑی علاقہ ہے لیکن ان تک جب دعوت توحید پہنچی تو اہل مکہ کی طرح وہ بھی نہ صرف اس نئے دین کو قبول کرنے پر تیار نہ ہوئے بلکہ آپ کے ساتھ نازیبا سلوک کرنے میں قریش سے بھی دو قدم آگے نکل گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم وہاں بنو ثقیف کے تین معزز اشخاص عبد، مسعود اور حبیب جو تینوں بھائی تھے اور عمرو بن عمیر بن عوف کے لڑکے تھے، سے ملے لیکن انھوں نے نہایت بے رخی اور بد اخلاقی کا ثبوت دیا اور ہر طرح آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ نازیبا سلوک کیا اور آوارہ لڑکوں کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پیچھے لگا دیا جنھوں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو پتھر مار مار کر زخمی کر دیا حتیٰ آپ کے نعلین مبارک لہو سے بھر گئے۔ ابن ہشام بیان کرتے ہیں کہ

زخموں سے چور جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور حضرت زید رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ ایک باغ میں پناہ گزین تھے تو عتبہ نے انگوروں کا ایک خوشہ اپنے غلام عداس سے بھجوایا۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کہہ کر منہ میں رکھا۔ عداس نے حیرت سے کہا "یہ کلام تو یہاں کے باشندے نہیں بولتے"۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے عداس سے پوچھا کہ تم کہاں کے ہو اور کس مذہب سے تعلق رکھتے ہو؟ اس نے عرض کیا "میں مسیحی ہوں اور نینویٰ کا رہنے والا ہوں"۔ آپ نے اسے اسلام کی دعوت دی اور وہ مسلمان ہو گیا

اسی سفر سے واپسی پر جنوں کی ایک جماعت نے اسلام قبول کیا۔ سفرِ طائف آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حیات طیبہ کا ایک اہم واقعہ ہی نہیں بلکہ ایک انقلابی موڑ بھی ہے۔ اس سفر ہی میں طائف کے لوگوں نے اعلان حق قبول نہ کیا اور زخموں سے چور کر دیا۔ دوسری طرف ایک غلام نے اسلام قبول کیا۔ "طائف کا سفر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لیے ذاتی اعتبار سے امتحان، آزمائش اور ابتلا کا نقطۂ عروج ہے اسی لیے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسے معرکۂ احد سے زیادہ سخت دن قرار دیا ہے"۔[1]

حوالہ جات

ترمیم
  1. سیرت احمد مجتبیٰ