سفیان بن عیینہ
سفیان بن عیینہ (پیدائش: 25 دسمبر 725ء— وفات: 25 فروری 815ء) محدث، ثقہ، حافظ، فقیہ، امام حجت اور آٹھویں طبقہ کے رؤسا میں سے تھے۔ امام سفیان بن عیینہ کا شمار زمرہ تبع تابعین کے ممتاز علما میں ہوتا ہے۔ جن محدثین کرام نے حدیثِ نبوی کی ترتیب و تدوین میں کارہائے نمایاں انجام دیے، ان میں سفیان بن عیینہ کا نام سر فہرست ہے۔
شیخ الاسلام | |
---|---|
سفیان بن عیینہ | |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 725ء کوفہ |
وفات | 25 فروری 814ء (88–89 سال) مکہ |
مذہب | اسلام |
بہن/بھائی | |
عملی زندگی | |
استاذ | ایوب سختیانی ، شعبہ بن حجاج ، سلیمان بن مہران الاعمش ، ابن شہاب زہری ، سفیان ثوری ، مالک بن انس |
تلمیذ خاص | احمد بن حنبل ، محمد بن ادریس شافعی ، یحییٰ بن معین ، ابن ابی شیبہ |
پیشہ | محدث ، مفسر قرآن ، فقیہ |
پیشہ ورانہ زبان | عربی |
شعبۂ عمل | علم حدیث ، تفسیر قرآن |
درستی - ترمیم |
تفسیر سفیان بن عیینہ
ترمیمسفیان بن عیینہ کے علم و فضل اور دیانت وتقویٰ کا ہرکوئی معترف ومداح ہے، زمرۂ تبع تابعین میں حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی تدوین و تربیت کا کام جن بزرگوں نے انجام دیا ان میں سفیان بن عیینہ کا نام سرفہرست ہے، ان کا ایک زرین کارنامہ یہ بھی ہے کہ کلامِ الہٰی کے وہ لفظی ومعنوی رموزونکات جواب تک سینوں میں محفوظ چلے آ رہے تھے، ان کووہ صفحۂ قرطاس پرلائے؛ گواس خدمت میں ان کے دوسرے معاصر بزرگ مثلاً اسحاق بن راہویہ، سفیان ثوری، وغیرہ بھی شریک ہیں اور ان میں سے بعض بزرگوں کی تفسیریں توآج تک موجود ہیں، سفیان بن عیینہ کی تفسیر کے اس وقت موجود ہونے کا توکوئی علم ہمیں نہیں ہے؛ مگربعض واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ تیسری صدی تک وہ اہلِ علم میں متداول رہی اور اس کا فیض ہندوستان تک پہنچا تھا، محمد بن ابراہیم ویلی (سندھ) جوتیسری صدی کے ہندوستانی عالم ہیں، ان کے ذکر میں یہ فقرہ ملتا ہے: یروی کتاب التفسیر لابن عیینہ۔ [1] ترجمہ: یہ ابن عیینہ کی تفسیر کی روایت کرتے ہیں۔
نام و نسب
ترمیماسم سفیان، کنیت ابو محمد اور لقب امام الحرام اور محدث الحرم ہے۔ سلسلہ نسب اس طرح ہے: ابو محمد سفیان بن عیینہ بن ابو عمران میمون ہلالی۔ ابن عیینہ کے دادا ابو میمون عمارہ ضحاک کے بھائی محمد بن مزاحم کے غلام تھے والد عیینہ والیِ کوفہ خالد بن عبد اللہ قسری کے عمال میں سے تھے۔ 120ھ میں جب خالد کو معزول کر دیا گیا تو عیینہ والیِ کوفہ یوسف بن عمر ثقفی کے عتاب کاشکار ہوئے گھر بار چھوڑ کر کوفہ سے پورے خاندان کے ساتھ مکہ آگئے اور حرم ہی میں پناہ لی اور وہیں مستقل سکونت اختیار کرلی۔
ولادت اور تعلیم و تربیت
ترمیمسفیان بن عیینہکی ولادت ہشام کے عہد خلافت میں سنہ107ھ میں کوفہ میں ہوئی، کوفہ اس وقت فقہا ومحدثین کا سب سے بڑا مرکز تھا؛ یہاں کی ہرمسجد مدرسہ تھی اور ہرگھر سے قال اللہ اور قال الرسول کی آواز سنائی دیتی تھی؛ حتی کہ ایوانِ حکومت کے تاجدار بھی اپنی تمام بے راہ رویوں کے باوجود اس آواز سے مانوس تھے؛ غرض اسی روح پرور ماحول میں امام کا نشو و نما ہوا اور یہیں ان کی تعلیم و تربیت کا آغاز ہوا، ائمہ میں بیشترایسے گذرے ہیں جن کے والدین غریب تھے یاان کے سنِ شعور سے پہلے انتقال کرچکے تھے، اس لیے ان میں بہت کم ایسے بزرگ ہیں جن کی تعلیم و تربیت کسی خاص نظم و تربیت سے ہوئی ہو؛ مگرامام سفیان بن عیینہ ان خوش قسمت لوگوں میں تھے جن کے والدین زمانہ تعلیم و تربیت میں زندہ تھے اور مالی اعتبار سے مطمئن بھی تھے اس لیے ان کی تعلیم باساعدہ ہوئی۔
ولادت اور بچپن
ترمیمابن عیینہ اُموی بادشاہ ہشام بن عبد الملک کے عہدِ ملوکیت میں کوفہ میں 15 شعبان 107ھ بمطابق 725ء میں پیدا ہوئے اور ان کے والد انھیں مکہ معظمہ میں لے گئے۔ 7 برس کی عمر میں قرآن حفظ کیا۔ ان کا غیر معمولی حافظہ تھا، خود ان کا اپنا قول ہے کہ میں جس چیز کو ضبط تحریر میں لایا وہ مجھے یاد ہو گئی۔ ابھی چار برس کی عمر تھی کہ حفظِ قرآن کے لیے بٹھادیا گیا، 7/برس کی عمر میں اس سے فارغ ہو گئے، حفظِ قرآن کے بعد حدیث کی کتاب شروع کرادی گئی، غالباً یہ اس لیے کیا گیا کہ کلام الہٰی کے ساتھ بچپن ہی میں ارشاداتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا کچھ ذخیرہ بھی ان کے سینے میں محفوظ ہوجائے، یہ سلسلہ تقریباً 15/برس کی عمر تک جاری رہا، اس عمر کوپہنچ جانے اور والدین کی پوری توجہ کے باوجود اب تک طبیعت میں حصولِ علم کا پورا شوق نہیں پیدا ہوا تھا، اس لیے کہ ان کے والد ہمیشہ ان کونصیحت کرتے اور احساس ذمہ داری دلای دلاتے رہتے تھے، ان کی ایک نصیحت کے الفاظ تذکروں میں محفوظ ہیں، انھوں نے ایک دن کہا: پیارے بیٹے! بچپن کا زمانہ ختم ہوا اور تم اب سن شعور کوپہنچے اب پورے طور سے خیر کی طلب یعنی حصولِ علم دین میں لگ جاؤ مگر اس راہ میں سب سے زیادہ ضروری چیز یہ ہے کہ اہلِ علم کی اطاعت وخدمت کی جائے اگرتم ان کی اطاعت وخدمت کروگے توعلم و فضل کی دولت سے بہرہ مند ہو گئے۔ [2] یہ نصیحت ان کے دل میں گھرگئی، خود کہتے ہیں کہ میں نے والد کی اس نصیحت کوزندگی بھرحرزجان بنائے رکھا اور کبھی اس سے سرموتجاوز نہ کیا، اس کی تصریح تونہیں ملتی کہ یہ نصیحت کہاں کی مکہ میں یاکوفہ میں؛ مگرقرینِ قیاس یہ ہے کہ نصیحت مکہ ہی میں کی گئی، اس لیے کہ ان کا خانوادہ مکہ سے کوفہ سنہ120ھ میں گیا، جب کہ ان کی عمر 14، 15/ سال کی تھی اور خود ان کا بیان ہے کہ یہ سنہ122ھ سے بالتزام مکہ کے ائمہ حدیث کی خدمت میں جانے لگے تھے، ظاہر ہے یہ التزام واحساسِ ذمہ داری ان میں پہلے نہیں تھا جب ہی توان کے والد نے یہ نصیحت کی تھی، اس لیے یہ نصیحت یقیناً مکہ میں کی گئی ہوگی۔ مکہ اس وقت ائمہ تابعین کا گہوارہ تھا، امام زہری رحمہ اللہ، عمربن دینار رحمہ اللہ، ابن جریج رحمہ اللہ اور بہت سے سرآمدوروزگار ائمہ قرآن وسنت کی مجالس یہاں برپا تھیں، والد کی نصیحت کے بموجب یہ ائمہ اور خصوصیت سے امام زہری اور عمروبن دینار کی مجالس درس میں شریک ہونے لگے اور جب تک مکہ میں رہے ان سے جدا نہیں ہوئے۔ [3] سنہ 126ھ میں عمروبن دینار کا انتقال ہو گیا، جس سے یہ چشمۂ فیض توبند ہو گیا؛ مگرابھی دوسرا چشمۂ علم جاری تھا کہ نہ جانے کیا اسباب ہوئے کہ یہ مکہ سے پھرکوفہ چلے گئے۔ [4]
خاندان
ترمیمسفیان بن عیینہ غلام خاندان کے ایک فرد تھے، ان کے والد کا نام عینسہ اور دادا کا نام ابوعمران میمون تھا (بعض اہلِ تذکرہ نے ابوعمران ان کے دادا کانام بتایا ہے، [5] اور بعض نے ابوعمران عیینہ کی کنیت بتائی ہے [6] ان کے والد والی کوفہ خالد بن عبد اللہ القسری کے عمال میں تھے (اس بارے میں اہلِ تذکرہ کے درمیان اختلاف ہے کہ ان کے عمال حکومت میں تھے یاوالد ابن سعد نے ان کے والد ہی کولکھا ہے اور زیادہ قرینِ قیاس یہی ہے کہ اس لیے ہم نے اس بیان کوترجیح دی ہے) مگرسنہ120ھ میں ہشام نے خالد کومعزول کر دیا اور ان کی بجائے یوسف بن عمر ثقفی کوکوفہ کا گورنرمقرر کیا، یوسف کوخالد نے پرانی پرخاش تھی، اس لیے اس نے برسرِاقتدار آتے ہی خالد کے عمال سے بدلہ لینا شروع کر دیا، سفیان کے والد عیینہ بھی عتاب میں آئے؛ مگروہ کسی طرح چھپ کرکوفہ سے مع اہل و عیال مکہ آگئے اور جوارِ خدا میں پناہ لی اور ببعد میں یہیں مستقل سکونت اختیار کرلی اس وقت امام ابن عیینہ کی عمر13/سال تھی، ان کا خاندان اپنے علم و فضل کی وجہ سے ممتاز تھا، ان کے نوبھائی تھے، جن میں پانچ صاحب علم و فضل تھے۔
کوفہ واپسی
ترمیمابھی بیس سال کی عمر کو نہ پہنچے تھے کے پھر کوفہ میں آئے اور امام ابو حنیفہ کے پاس تحصیل علم حدیث کے لیے بیٹھے اور ان سے روایت کی، آپ کا قول ہے کہ پہلے امام ابو حنیفہ ہی نے مجھ کو محدث بنایا ہے، پھر عمرو بن اور ضمرہ بن سعید کی مصاحبت کی اور ان سے اور زہری وابی اسحٰق سبیعی و محمد بن المنکدرو وابی زیادہ عاصم بن ابی النجو المقری و اعمش اور عبد الملک بن عمیر وغیرہم سے حدیث کو سُنا اور آپ کے چچا مصعب اور عبد الرزاق بن ہمام صنعانی ویحییٰ بن اکثم نے روایت کی اور اصحاب صحاح ستہ نے آپ سے بکثرت تخریج کی۔ امام شافعی کا قول ہے کہ اگر آپ اور امام مالک نہ ہوتے تو حجاز سے علم چلا جاتا اور یہ بھی انھوں نے کہا ہے کہ میں نے کوئی شخص ایسا نہیں دیکھا جس میں مثل آپ کے فتویٰ دینے کا مادہ موجود ہو اور پھر وہ مثل آپ کے فتویٰ دینے سے زیادہ پ رہی ز کرے۔ آپ نے ستر مرتبہ حج کیا۔
ذہانت اور شوقِ جستجو
ترمیمبچپن ہی سے نہایت ذکی اور ذہین تھے، ان ائمہ کی حدمت میں ان کی ذہانت وذکاوت کومزید جلا ہوئی اور ان میں ایسی دقتِ نظری اور قوتِ تحقیق پیدا ہو گئی کہ بڑے بڑے ائمہ ان کا اعتراف کرنے لگے، ابن جریج جوممتاز تبع تابعین میں ہیں، مکہ میں ان کی مجلسِ درس برپا تھی، ایک دن سفیان ان کی خدمت میں گئے، ابن جریج کوئی روایت بیان کر رہے تھے، جس میں انھوں نے صحابی کے نیچے کے راوی کا نام نہیں لیا؛ بلکہ یہ کہا کہ مجھ سے ایک شخص نے بیان کیا ہے کہ ابنِ عباس رضی اللہ عنہ یہ فرماتے ہیں، ابن عیینہ کوراوی کے نام نہ لینے کی وجہ سے خلش ہوئی اور نہوں نے اس کی تلاش کی معلوم ہوا کہ وہ راوی ابھی زندہ ہے، تحقیق کے بعد وہ دوبارہ ابنِ جریر کے پاس پہنچے، اتفاق سے اس دن بھی وہ اسی روایت کودہرا رہے تھے، جب انھوں نے یہ کہا کہ ایک شخص نے مجھ سے یہ بیان کیا ہے تویہ بولے: ابوالولید اس کے راوی توعبیداللہ بن ابی یزید ہیں، مقصد یہ تھا کہ آپ تحقیق کرلیتے توسلسلہ سند کا ابہام دور ہوجاتا، ابن جریج یہ سن کربولے: قد غصت عليه ياغواص۔ [7]
قوتِ حافظہ
ترمیمخدا نے قوتِ حافظہ بھی غیر معمولی عطا کیا تھا، اپنی قوتِ حافظہ کے بارے میں خود ہی فرماتے تھے کہ: ماكتبت شيئا قط الاشيئا حفظته۔ [8] ترجمہ:میں جس چیز کوضبطِ تحریر میں لایا وہ مجھے یاد ہو گئی۔ سفیان بن عیینہ کے اساتذہ کی فہرست بڑی لمبی ہے، صرف تابعین میں اسّی سے زائد بزرگوں سے انھوں نے کسب فیض کیا تھا [9] چنش مشاہیر کے نام یہ ہیں: امام زہری، امام شعبہ، مسعر بن کدام، عمربن دینار، ابواسحاق، السبیعی، محمد بن عقبہ، حمید الطویل، زیادہ بن علاقہ، صالح بن کیسان وغیرہ۔
درس وتدریس
ترمیممکہ میں 5،6/برس رہنے کے بعد سنہ126ھ میں جب کہ ان کی عمر ابھی 19،20/برس کی تھی، مکہ سے اپنے آبائی وطن کوفہ چلے آئے، یہاں بھی ائمہ تابعین وتبع تابعین کی متعدد مجلسیں قائم تھیں اور ان سب سے انھوں نے استفادہ کیا تھا؛ مگر خاص طور سے وہ مسعر بن کدام کی صحبت میں زیادہ رہے، گویہ خود اس وقت مرجع خلائق تھے؛ مگرانہوں نے ابن عیینہ سے خواہش کی کہ وہ تحدیث روایت کا سلسلہ شروع کریں، سفیان بن عیینہ کے سینہ میں گوامام زہری اور عمروبن دینار کی مرویات کے خزینے محفوظ تھے؛ مگرانہوں نے کم سنی کی معذرت کی، مسعر بن کدام نے کہا کہ آپ کے پاس امام زہری اور عمروبن دینار کا سرمایہ روایات موجود ہے توپھر آپ کوکم سنی کی پروا نہ کرنی چاہی، مقصد یہ تھا کہ اس راہ میں عمرکی نہیں؛ بلکہ علم وفہم کی ضرورت ہوتی ہے اور اس سے آپ بہرہ ور ہیں؛ غالباً انہی کے مشورے کے بعد انھوں نے اپنا سلسلہ درس شروع کیا۔ کوفہ یہ جس وقت پہنچے اس وقت وہاں سب سے وسیع حلقۂ درس امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا تھا، ان کویہ فخر حاصل ہے کہ جب امام کوان کی آمد کا علم ہوا توانہوں نے اپنے تلامذہ اوور عام اہلِ کوفہ سے کہا کہ تمھارے پاس عمروبن دینار کی مرویات کا حافظہ آگیا ہے؛ چنانچہ لوگ ان کی مرویات سے اخذ واستفادہ کرنے کے لیے ان کے پاس آنے لگے، وہ خود کہتے ہیں کہ مجھ کوجس نے سب سے پہلے محدث بنایا وہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ہیں۔ [10] کوفہ میں اس وقت امام اعمش رحمہ اللہ اور امام شعبہ رحمہ اللہ کے درس کا بھی ہرطرف چرچا تھا؛ مگرجب ابن عیینہ نے درس دینا شروع کیا توان ائمہ کے تلامذہ بھی ان کی مجلسِ درس میں شریک ہونے لگے، عبد اللہ بن داؤد کہتے ہیں کہ ہم لوگ امام اعمش رحمہ اللہ کے درس میں شریک تھے کہ کسی نے آکر یہ اطلاع دی کہ سفیان بن عیینہ نے بھی تحدیث شروع کردی ہے؛ چنانچہ ہم لوگ اعمش کی مجلس سے اُٹھے تواُن کے درس میں شریک ہوئے، اہلِ تذکرہ ان کی جلالت علم کے ذکر میں اسی بات کا خاص طور سے ذکر کرتے ہیں کہ انھوں نے امام اعمش کی زندگی ہی میں اپنی مجلسِ درس قائم کردی تھی۔ [11] امام شعبہ اپنے تلامذہ سے کہا کرتے تھے جس کوعمروبن دینار کی مرویات مطلوب ہوں اس کوابنِ عیینہ کے پاس جانا چاہیے۔ [12] امام اعمش اور امام شعبہ ان کے شیوخ حدیث میں سے ہیں؛ مگران دونوں بزرگوں نے بھی ان سے سماع حدیث کیا تھا، بغدادی نے لکھا ہے کہ ایک بار ابن عیینہ، امام اعمش رحمہ اللہ کی مجلسِ درس میں گئے اور پچاس حدیثیں بیان کیں؛ اسی طرح امام شعبہ کے بارے میں لکھا ہے کہ انھوں نے ان سے سوروایتیں سنی ہیں [13] سفیان بن عیینہ ہرسال زیارتِ حرمین کے لیے جاتے تھے، ان کے درس میں یوں بھی طلبہ کا ہجوم رہتاتھا؛ مگرحج کے زمانہ میں جب کہ سارے ممالکِ اسلامیہ کی آبادی مکہ میں سمٹ آتی تھی، سماعِ حدیث کے لیے ان کے پاس ایک ازدحام ہوتا تھا؛ بلکہ بہت سے تشنگانِ چشمہ نبوت تواسی غرض کے لیے سفر حج کی مشکلیں برداشت کرتے تھے، امام ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: فقد كان خلق يحجون والباعث لهم لقي ابن عيينة فيزدحمون عليه في أيام الحج۔ [14] ترجمہ:ایک مخلوق حج کے لیے اسی لیے جاتی تھی کہ سماعِ حدیث کے لیے ابن عیینہ کی ملاقات نصیب ہو؛ چنانچہ حج کے زمانہ میں ان کے گرد ایک اژدھام ہوتا تھا۔
معاصرین میں ان کا علمی مقام
ترمیمامام زہری رحمۃ اللہ علیہ اور عمروبن دینار رحمہ اللہ کے تلامذہ سارے ممالکِ اسلامیہ میں پھیلے ہوئے تھے؛ مگران ائمہ کے جوتلامذہ سب سے زیادہ قابلِ وثوق اور معتمد سمجھے جاتے تھے، ان میں سفیان بن عیینہ بھی تھے؛ بلکہ بعض حیثیتوں سے یہ سب میں ممتاز تھے، ابن المدینی کا بیان ہے کہ: مافي أصحاب الزهري أتقن من ابن عيينة۔ [15] ترجمہ: زہری کے تلامذہ اور اصحاب میں سب سے قابل وثوق ابن عیینہ کی ذات تھی۔ ایک شخص نے ابن المدینی سے پوچھا کہ زہری کے تلامذہ میں مقدم کون ہے؟ بولے، تقدم تومجھے حاصل ہے؛ مگران کے اصحاب میں جن کے سماع میں شک نہیں کیا جا سکتا نہ ان پرکسی نے کلام کیا ہے اور نہ زبان طعن کھولی ہے، وہ سفیان بن عیینہ اور زیاد بن سعد ہیں [16] ان ہی کا بیان ہے کہ میں نے سعید القطان سے پوچھا کہ امام زہری کے فیض یافنون میں آپ معمر اور سفیان بن عیینہ میں سے کس کوزیادہ پسند کرتے ہیں، بولے سفیان کو[17] اسی طرح عمروبن دینار کی مرویات کے بھی یہ سب سے بڑے امین سمجھے جاتے تھے، امام احمد بن حنبل فرحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سفیان عمروبن دینار کوسب سے زیادہ جاننے والے تھے، یحییٰ بن معین نے ایک دن کہا کہ سفیان عمروبن دینار کی مرویات کے سب سے بڑے حافظ تھے، کسی نے پوچھا کہ حماد بن زید سے بھی زیادہ، بولے ہاں! پھرپوچھا کہ اگرعمروبن دینار کی کسی روایت میں سفیان بن عیینہ کے درمیان اختلاف ہوجائے توآپ کس کوترجیح دیں گے؟ بولے ابن عیینہ کو، اوپر امام شعبہ کا قول گذرچکا ہے جس کو عمروبن دینار کی روایات مطلوب ہوں وہ ابن عیینہ کے پاس جائے۔ [18] حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ تمام حفاظ حدیث کا اس امرپراتفاق ہے کہ عمروبن دینار کی مرویات کے سب سے زیادہ قابل وثوق راوی یہی ہیں۔ [19]
فن حدیث میں ان کا اصلی مقام
ترمیماوپرجواقوال نقل کیے گئے ہیں اُن سے یہ اندازۃ توہوگیا ہوگا کہ مکہ میں حدیث نبوی کا جوذخیرہ تھا، اپنے زمانہ میں اس کے یہ سب سے بڑے محافظ سمجھے جاتے تھے؛ مگریہ ان کے علم و فضل کا ایک گوشہ تھا، حدیث میں ان کے اصلی مقام کوسمجھنے کے لیے ہمعصر علما کے چند اور اقوال پرنظرڈال لینی ضروری ہے۔ جہاں تک روایتوں کی کثرت اور ان کے حفظ اور ضبط تحریر میں لانے کا تعلق ہے، اس میں ان کوکوئی انفرادی امتیاز حاصل نہیں تھا، ان کی مرویات کی کل تعداد سات ہزار بتائی جاتی ہے؛ انھوں نے اپنا کوئی مجموعہ بھی نہیں چھوڑا، اس کے برخلاف اتباعِ تابعین میں بہت سے بزرگوں کے سینوں میں ان سے کہیں زیادہ روایتیں محفوظ تھیں اور اُن میں سے بہتوں نے اپنے مجموعہ ہائے حدیث بھی یادگار چھوڑے تھے، اتباعِ تابعین کے زمرہ میں جوچیز ان کوممتاز کرتی ہے وہ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا فہم، تفسیر، حدیث کا ملکہ اور وثوق واعتماد ہے، ان اوصاف میں کم لوگ ان کے ہمسر تھے، احمد بن عبد اللہ کا بیان ہے کہ ان کا شمار حکمائے حدیث میں ہوتا تھا؛ گوکہ ان کی روایتیں صرف سات ہزار تھیں اور انھوں نے کوئی حدیث کا مجموعہ بھی نہیں چھوڑا۔ [20] امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے تھے کہ میں نے ان کے جیسا حدیث کی بہتر تفسیر وتشریح کرنے والا نہیں دیکھا۔ [21] ان ہی کا قول ہے کہ علم میں جتنی پختگی اور وثوق واعتماد ان کوتھا میں نے کسی دوسرے میں نہیں دیکھا۔ [22] عبد العزیز بن ابی داؤد کہتے ہیں کہ سفیان ثوری رحمہ اللہ کی مجلس میں جب اصحاب حدیث نہیں ہوتے تھے تووہ مرسل روایتوں کی بجائے مسندروایتیں بیان کرتے تھے، میں جب ان مسندروایتوں کوسن کران کی مجلس سے اُٹھتا توابنِ عیینہ کے پاس جاتا اور ان روایتوں کوان کے سامنے پیش کرتا، وہ کہتے کہ اس میں یہ غلطی اور اس میں یہ خامی ہے؛ پھرمیں امام ثوری رحمہ اللہ کے پاس آتا اور ان سے ابن عیینہ کی تنقید کا ذکر کرتا توفرماتے کہ بھائی ابن عیینہ نے جوکہا ہے وہ صحیح ہے۔ [23] مشہور امام جرح و تعدیل عبد الرحمن بن مہدی سے کسی نے پوچھا کہ حدیث میں ابن عیینہ کا مقام کیا ہے، بولے، ان کوحدیث کی تفسیر اور حدیث کے متفرق الفاظ کے جمع کرنے میں مہارت حاصل تھی [24] وہ حدیث کی تشریح میں بے جاتاویل کوپسند نہیں کرتے تھے، خصوصیت سے زجروتوبیخ کے سلسلہ میں ارشادات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی تاویل وتفسیر جو بے خوفی پیدا کر دے، غلط سمجھتے تھے، ایک بار فرمایا کہ اس حدیث: وَمَنْ غَشَّنَا فَلَيْسَ مِنَّا وَحَمَلَ عَلَيْنَا فَلَيْسَ مِنَّا۔ ترجمہ: جس نے فریب کیا وہ مسلمان نہیں ہے، جس نے مسلمانوں پرحملہ کیا وہ مسلمان نہیں ہے۔ کی تفسیر جولوگ یہ کرتے ہیں کہ ایسا شخص ہمارے طریقہ اور حسن سیرت پرنہیں ہے وہ غلطی پر ہیں، امام نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ اس سے ان کا مقصد یہ ہے کہ ایسی احادث جن میں معاصی پرسخت تنقید کی گئی ہو ان کی تفسیر کرکے ان تنبیہات کوہلکا کرنے کی ضرورت نہیں ہے؛ تاکہ لوگوں کے اندر گناہوں سے بچنے کا زیادہ سے زیادہ جذبہ پیدا ہو، وہ گناہ کرکے بے خوف نہ ہوجائیں۔ [25] متقدمین میں تواس طرح کی تاویل کا جذبہ کم تھا؛ مگرمتاخرین میں بہت سے لوگوں نے زجروتوبیخ کے سلسلہ میں بہت سے فرمودات نبویﷺ کواپنی تاویل وموشگافی سے اتنا بے اثر بنادیا ہے کہ ان کا وہ مقصد ہی فوت ہو گیا، جس کے لیے وہ فرمائے گئے تھے ۔
ان کی روایتوں کا درجہ
ترمیمتمام ائمہ حدیث نے ان کی مرویات کوقابل وثوق اور لائق اعتنا سمجھا ہے، ابن المدینی کہتے ہیں کہ یہ اہلِ حجاز کی روایتوں کے سب سے بڑے عالم ہیں۔ [26] ابوحاتم کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے لیے ان کا علم حجت ہے، ابن قطان کا قول ہے کہ یہ چالیس برس سے حدیث کے امام ہیں، عجلی کا بیان ہے کہ ان کی ذات قابل وثوثق اور قابل اعتماد ہے۔ [27] ابن المدینی کا بیان اوپرآچکا ہے کہ ان کی روایتوں میں شک نہیں کیا جا سکتا اور نہ ان پرکسی نے کلام کیا ہے۔ [28] ان سے کسی نے پوچھا کہ حدیث میں کون شخص سب سے بہتر ہے، بولے مجھے توابن عیینہ سے بہتر کوئی آدمی نہیں ملا۔ [29]
جرح
ترمیماکثراہلِ علم نے لکھا ہے کہ حدیث میں ان کی وثاقت اور اتفاق وتثبت اتنا مسلم ہے کہ توثیق و تعدیل سے ان کی ذات مستغنی ہے۔ [30] مگربعض اہلِ علم نے لکھا ہے کہ آخری عمر میں ان کا حافظہ کمزور ہو گیا تھا، اس لیے ان کی عمر کے آخری دوسالوں میں ان سے جن لوگوں نے سماع حدیث کیا تھا ان پراعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ یحییٰ بن سعید القطان بیان کرتے ہیں کہ آخری عمر میں میں نے ان سے کہا کہ میں دیکھتا ہوں کہ آپ وہی روایتیں جن کوایک بار بیان کرچکے ہیں، اب بیان کرتے ہیں توان میں کچھ نہ کچھ زیادتی یاکمی ہوجاتی ہے، بولے پہلا ہی سماع ٹھیک ہے، اب میں بوڑھا ہو گیا ہوں؛ اسی بناپر یحییٰ بن سعید نے جوان کے ارشد تلامذہ میں تھے، اعلان کر دیا تھا کہ سنہ197ھ کے بعد جن لوگوں نے ابن عیینہ سے سماع حدیث کیا ہے ان کی روایتوں کا کوئی اعتبار نہیں ہے، اس لیے کہ آخری دوسالوں میں ضعفِ حافظہ کی وجہ سے ابن عیینہ کوروایتوں میں اشتباہ پیدا ہوجاتا تھا۔ [31] اندازہ لگائیے کہ محدثین نے حدیث کی روایت اور اس کی حفاظت میں کتنی چھان بین اور تحقیق وتدقیق سے کام لیا ہے، ابن عیینہ جیسے بیشمار ائمہ حدیث ہیں جن کی مرویات کوایک خاص عمر کے بعد محدثین نے قبول نہیں کیا ہے؛ پھربھی کچھ اہلِ ہوس یہ کہتے ہیں کہ ذخیرۂ حدیث قابل اعتماد نہیں ہے؛ حالانکہ اگراس زمین پرسرمایۂ حدیث ناقابل اعتماد ہے تودنیا کی کوئی تحریری دستاویز قابل اعتبار نہیں ہو سکتی۔
تفسیر میں ان کا مقام
ترمیمتابعین کے عہد تک علم تفسیر کوئی الگ فن نہیں بنا تھا، نہ اب تک مخصوص طور سے اسی موضوع پرکسی نے کوئی تصنیف کی تھی؛ لیکن اتباع تابعین کے عہد میں جب بہت سے دینی علوم کی داغ بیل پڑی اور ان کی تدوین وترتیب شروع ہوئی توعلم تفسیر بھی حدیث سے ایک الگ فن قرار پایا اور اس پربہت سی کتابیں تصنیف ہوئی۔ زمرۂ اتباع تابعین میں جن بزرگوں کواس فن میں کوئی خصوصیت حاصل تھی اور انھوں نے اپنی تحریری یادگاریں بھی چھوڑی ہیں، ان میں سفیان بن عیینہ بھی ہیں، ان کی قرآن فہمی کا صحیح اندازہ تواس وقت لگایا جا سکتا تھا جب کہ ان کی کتاب سامنے ہوتی؛ مگراس وقت اس کے موجود ہونے کا کوئی علم نہیں ہے....... ہمعصر علما نے ان کی قرآن فہمی کے بارے میں جورائے دی ہے وہ یہ ہے: امام احمد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اہلِ علم میں ان سے زیادہ قرآن کا جاننے والا میں نے نہیں دیکھا۔ [32] ابن وہب کہتے ہیں کہ مارأیت اعلم بکتاب اللہ من ابن عیینہ، ابن عیینہ سے بڑا کتاب اللہ کا عالم میں نے نہیں دیکھا۔ [33] عبد الرحمن بن مہدی سے کسی نے ان کے علم و فضل کے بارے میں سوال کیا؛ انھوں نے بہت سے اوصاف کا تذکرہ کرنے کے بعد یہ بھی کہا کہ: معرفتہ باامن القرآن۔ [34] ترجمہ: ان کوقرآن کی معرفت بھی حاصل تھی۔ ایک روایت میں ہے کہ انھوں نے کہا کہ قرآن کی معرفت میں وہ سفیان ثوری سے بڑھے ہوئے تھے۔ [35] ابتدا میں ذکرآچکا ہے کہ ان کی تفسیر تیسری صدی تک اہلِ علم میں متداول تھی اور اس کا فیض ہندوستان تک پہنچا تھا۔
تفقہ
ترمیمیہ اجتہاد وفقہ کی دولت سے بھی بہرہ ورد تھے، ان کے اجتہاد وتفقہ کے اندازہ کے لی یہ بات کافی ہے کہ فقہ میں یہ امام شافعی کے استاد ہیں، امام احمد نے ان کوفقہا میں شمار کیا ہے، امام نووی نے تویہاں تک لکھا ہے کہ: وهوأحد أجداد الشافعية فى طريق الفقه۔ [36] ترجمہ: جن لوگوں نے شافعی طریقہ تفقہ کی بنیاد رکھی سفیان بن عیینہ ان کے اجداد میں ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ شافعی فقہ میں اجتہاد واستنباط مسائل کے ساتھ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا جوحسین امتزاج ملتا ہے اس کے پیدا کرنے میں جن بزرگوں نے حصہ لیا ان میں سفیان بن عیینہ بھی تھے؛ ورنہ زمانہ کے لحاظ سے یہ امام شافعی رحمہ اللہ سے مقدم تھے، بایں ہمہ علم و فضل فتویٰ دینے سے گریز کرتے تھے، امام شافعی فرماتے ہیں کہ افتا کا جتنا مادہ ان میں موجود تھا، میں نے کم لوگوں میں دیکھا؛ مگروہ اس سے اتنا ہی گریز بھی کرتے تھے [37] امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ فقہ کا کوئی مسئلہ جب ان کے سامنے آتا تھا توعموماً میری طرف اشارہ کرکے کہا کرتے تھے، ان سے پوچھو۔ [38]
اخلاق وکردار
ترمیمعلم و فضل کے ساتھ سیرت وکردار میں بھی اسلامی زندگی کی صحیح تصویر تھے، ان کی زندگی نہایت سادہ تھی، خصوصاً کھانے پینے میں، ان کے ایک شاگرد ان کے یہاں آئے؛ انھوں نے دیکھا کہ ان کے آگے جوکی دوموٹی روٹیاں رکھی ہوئی ہیں، یہ دیکھ کرشاید ان کوتعجب ہوا ہوگا؛ اسی لیے فرمایا کہ چالیس سال سے یہی میری غذا ہے [39] اس جوکی روٹی کی اہمیت اس وقت زیادہ معلوم ہوگی جب عباسی دور کے تمدن کوسامنے رکھا جائے جس میں لوگ ستو بھی کھجور اور میووں کا استعمال کرتے تھے؛ مگروہ اپنی سادگی کوبے حد چھپاتے تھے؛ اسی وجہ سے شاید ان کے بارے میں لوگوں کوشاید کچھ غلط فہمی تھی، ان کے ایک شاگرد کہتے ہیں کہ ایک دن وہ مجھے گھر کے اندر لے گئے اور ایک گوشہ میں بٹھادیا، اس کے بعد جوکی ایک موٹی روٹی نکالی؛ پھرفرمایا کہ لوگ کیا کہتے ہیں؟ اسے چھوڑو برسوں سے میری یہی غذا ہے۔ [40] شاید اسی اخفا کی وجہ سے ان کی سیرت وکردار کے واقعات بہت کم تذکروں میں ملتے ہیں، خود فرماتے ہیں کہ اگرآدمی کے ظاہر وباطن میں توافق ہوتوعدل ہے اور اگرباطن ظاہر سے اچھا ہوتوا سکی افضلیت کا کیا کہنا؛ لیکن اگرظاہر اچھا اور باطن برا ہوتو پھریہ ظلم ہے، یعنی جوشخص ایسا کرتا ہے وہ اپنے اوپر ظلم کرتا ہے؛ کبھی ایونِ حکومت کا رُخ نہیں کیا، ایک بار یمن میں وہاں کے گورنر معن بن زائد رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہو گئی، اس نے ان کوکچھ ہدیہ پیش کیا، اسے قبول توکرلیا مگرپھرکبھی اس کی نوبت نہ آنے دی، امام ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ : صوم وصلوٰۃ سے ان کوجوشغف تھا وہ توتھا ہی؛ مگرحج کعبۃ اللہ کا توانہیں عشق تھا، جب سے ہوش سنبھالا، اس وقت سے وفات تک شاید ہی کسی سال اس سعادت سے محروم رہے ہوں، اہلِ تذکرہ لکھتے ہیں کہ انھوں نے سترحج کیے تھے، ان کا معمول تھا کہ جب زیارتِ حرمین کے لی جاتے توخدا کی بارگاہ میں یہ دُعا کرتے کہ خدایا دوبارہ پھرتواس سے بہرہ مند کرنا؛ مگرسنہ 198ھ میں جب آخری بار زیارت کے لیے گئے توان کا بیان ہے کہ خدا سے میں اتنی بار دُعا مانگ چکا تھا کہ اس سال دُعا مانگتے ہوئے مجھے شرم آئی؛ چنانچہ اسی سال ان کا انتقال ہو گیا۔ [41]
حکیمانہ اقوال
ترمیمان کی سیرت اور کردار کے واقعات اہلِ تذکرہ نے بہت کم لکھے ہیں؛ مگردوسروں کی سیرت وکردار کونشوونما دینے کے لیے ان کے بہت سے حکیمانہ اقوال کتابوں میں ملتے ہیں؛ ہم چند اقوال یہاں نقل کرتے ہیں، اس آئینہ میں ان کی سیرت کے خدوخال بھی دیکھے جا سکتے ہیں، فرمایا: زہد وتقویٰ، صبر اور موت کے انتظار کا نام ہے، علم جب تم کونفع نہ پہنچائے گا، جس کوعقل زیادہ ملتی ہے، عموماً اس کوروزی کم ملتی ہے۔ [42] فرمایا کہ جو شخص صرف لوگوں کودکھاوے کے لیے کوئی کام کرتا ہے توخدا ایسے شخص پرغضب آلود ہوتا ہے، فرمایا کہ ضروریاتِ زندگی کی طلب دنیا کی محبت نہیں ہے، فرمایا کہ اگرمیرا دن کم عقلوں کی طرح اور میری رات جاہلوں کی طرح غفلت میں گذرے توپھر میں نے جوعلم حاصل کیا ہے وہ بے فائدہ ہے، جولوگ اللہ اور اس کے بندوں کے درمیان تعلق جوڑنے کا واسطہ ہیں وہ خدا کے یہاں سب سے بلند مرتبہ ہیں، یعنی انبیا اور ان کے بعد علما، فرمایا جوشخص یہ سمجھے کہ میں فلاں سے بہتر ہوں تواس نے غرورکیا اور ابلیس کو اس غرور ہی نے حضرت آدم علیہ السلام کے سامنے سجدہ کرنے سے روکا تھا، جوشخص اپنی نفسانی خواہش کی بنا پرکوئی گناہ کرتا ہے تواس سے توبہ کی اُمید رکھو اور جوشخص جذبۂ تکبر کے ساتھ کوئی معصیت کرتا ہے تواس پرلعنت ہے، اس لیے ابلیس نے جذبہ تکبر ہی سے نافرمانی کی تھی، اس لیے ملعون ومردود ہوا (یعنی محض نافرمانی ہوتی تواتنی سخت سزانہ ملتی)۔ فرمایا کہ جوشخص علم اس لیے حاصل کرتا ہے کہ اس سے لوگوں کو نفع پہنچے اس کا درجہ خدا کے یہاں وہی ہے جوکسی ایسے غلام کا آقا کے یہاں ہوتا ہے جووہی کام کرتا ہے، جس سے آقا خوش ہو؛ فرمایا کہ جب کوئی عالم لَااَدْرِیْ (میں نہیں جانتا) کہنا چھوڑ دیتا ہے تووہ اپنی ہلاکت کا سامان کرتا ہے، فرمایا کہ نماز کی توقیر یہ ہے کہ مسجد میں اقامت سے پہلے آؤ، اسحاق بن اسرائیل کہتے ہیں کہ میں نے سفیان کی زبان سے یہ بات سنی ہے وہ کہتے تھے کہ راہِ حق پرچلو اور غلط روی نہ اختیار کرو؛ خواہ راہِ حق کے چلنے والے کتنے ہی کم کیوں نہ ہوں۔ فرمایا کہ ایام تین ہیں کل گذشتہ یہ ہمارا صاحب حکمت اور معلم ہے جواپنی حکمت آموزی چھوڑ جاتا ہے، آج یہ ایک بچھڑ جانے والا دوست جس کی جدائی بڑی طویل ہے، یہ تمھارے پاس آتا رہتا ہے؛ مگرتم اس کے پاس نہیں جا سکتے، کل آئندہ اس کے بارے میں نہیں کہا جا سکتا ہے کہ تم اس کوپاسکوگے یانہیں؟۔ فرمایا کہ قیامت کے دن تین آدمیوں کوبڑی شدید حسرت وندامت ہوگی، ایک وہ ااقا جس کے غلام کا حسن عمل قیامت کے دن اس سے زیادہ ہوگا، دوسرے وہ مالدار جس نے مال جمع کیا؛ مگراس میں سے ایک پھوٹی کوڑی کسی کونہ دی، اس کے مال کوجب اس کے ورثہ نے پایا توراہِ خدا میں صدقہ کر دیا، تیسرے وہ عالم جس نے اپنے علم سے نہ خود کوئی فائدہ اُٹھایا اور نہ دوسروں کوکوئی فائدہ پہنچایا؛ مگراس سے دوسروں نے علم حاصل کیا اور اس نے خود بھی فائدہ اُٹھایا اور دوسروں کوبھی فائدہ پہنچایا۔ ایک مجلس میں کوئی رقت آمیز بات ہوئی اس پریہ روپڑے کسی نے پوچھا کہ دوسرے لوگ تواس بات سے بے قرار نہیں ہوئے، آپ کیوں اس قدر بے خود ہو گئے، بولے جب آنسوگرجاتا ہے توقلب کوسکون ہوجاتا ہے؛ کسی نے رضائے حداوندی کے بارے میں سوال کیا، فرمایا کہ اللہ سے راضی وہ شخص ہے جوجس حاصل میں ہے، اس کے علاوہ دوسری حالت کی خواہش نہ رکھے، احنف بن قیس فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے کہ قبل اس کے کہ تمھیں کوئی ذمہ داری سونپی جائے، دین کا فہم حاصل کرو، سفیان اس کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جب آدمی کودین کا فہم حاصل ہوگا تووہ عہدہ اور سرداری کی طلب نہیں کریگا [43]۔
وفات
ترمیمیکم رجب 197ھ بمطابق 814ء میں مکہ معظمہ میں وفات پائی اور کوہ حجون کے پاس مدفون ہوئے۔[44]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ (نزہۃ الخواط:1/70)
- ↑ (تہذیب الاسما:1/245)
- ↑ (تاریخ بغداد:9/177)
- ↑ (تاریخ بغداد:9/183)
- ↑ (ابنِ خلکان)
- ↑ (تہذیب))
- ↑ (تاریخ بغداد:4/169، شاملہ، موقع الوراق۔ دیگرمطبوعہ:9/182)
- ↑ (تاریخ بغداد:4/169، شاملہ، موقع الوراق۔ دیگرمطبوعہ:9/179)
- ↑ (تاریخ بغداد:9/179)
- ↑ (ابن خلکان:1/376)
- ↑ (تاریخ بغداد:9/175)
- ↑ (تاریخ بغداد:9/180)
- ↑ (تاریخ بغداد:9/175)
- ↑ (تذکرۃالحفاظ:1/193، شاملہ، المكتبة الرقمية)
- ↑ (تذکرۃ الحفاظ، للذھبی:1/193، شاملہ، المكتبة الرقمية۔تہذیب التہذیب:4/119)
- ↑ (تاریخ بغداد:9/178)
- ↑ (تاریخ بغداد:9/178)
- ↑ (تاریخ بغداد:9/178)
- ↑ (تہذیب:4/116)
- ↑ (تہذیب الاسماء:1/244)
- ↑ (تہذیب الاسماء:1/244)
- ↑ (تہذیب التہذیب:4/12)
- ↑ (تاریخ بغداد:9/181)
- ↑ (تاریخ بغداد:9/182)
- ↑ (تہذیب الأسماء:1/225)
- ↑ (تہذیب التہذیب:4/121)
- ↑ (تہذیب الاسماء:4/122،119)
- ↑ (تاریخ بغداد:9/178)
- ↑ (تاریخ بغداد:9/182)
- ↑ (تہذیب التہذیب:4/124)
- ↑ (تہذیب التہذیب:4/120)
- ↑ (تہذیب التہذیب:4/120)
- ↑ (تہذیب الاسماء:1/224)
- ↑ (تاریخ بغداد:9/182)
- ↑ (تذکرۃ الحفاظ:1/239)
- ↑ (تہذیب الأسماء:1/315، شاملہ، مصدر الكتاب:فائل وورد أهداه بعض الأخوة للبرنامج۔ دیگرمطبوعہ:1/225)
- ↑ (صفوۃ الصفوۃ:1/376)
- ↑ (تہذیب الاسماء:1/59)
- ↑ (تہذیب الاسماء:1/224)
- ↑ (صفوۃ الصفوۃ)
- ↑ (تاریخ بغداد:9/184)
- ↑ (تذکرۃ الحفاظ:1/270)
- ↑ (یہ تمام اقوال صفوۃ الصفوۃ، جلد:2، صفحہ نمبر:131/ تا صفحہ نمبر:135/ سے لیے گئے ہیں)
- ↑ سير اعلام النبلا -جلد8 صفحہ 454