15 اگست 2021ء کو طالبان کے بہادر سپاہیوں نے افغانستان کے دار الحکومت کابل میں داخل ہوئے جس کے بعد انھوں دار الحکومت کابل کا مکمل کنٹرول لے لیا جبکہ افغانستان کے بیشتر صوبوں کو طالبان پہلے سے ہی فتح کرچکے تھے جن کا سلسلہ مئی 2021 میں اس وقت شروع ہو چکا تھا جب مذاکرات میں پے در پے سختیات اور بات آگے نہ بڑھنے کی وجہ سے اشرف غنی نے افغان فورسز کو طالبان کی خلاف ملک گھیر سخت آپریشن کا حکم دیا جس کے بعد طالبان نے بھی اس کے رد عمل میں شدید آپریشنز کرکے بیشتر صوبوں کو اپنے کنٹرول میں لینا شروع کیا۔دوسری طرف طالبان اور اس وقت کی افغان حکومت کی لڑائی میں امریکا مکمل شکست خوردہ ہوکر انخلا کی تیاری میں مصروف عمل تھا ۔ جب طالبان کا ایک وفد صدارتی محل میں حکومتی نمائندوں سے اقتدار کی پُرامن منتقلی کے لیے مذاکرات کر رہا تھا اور مسلح طالبان کابل کا گھیراؤ کیے ہوئے تھے کہ جیسے ہی مذاکرات کا کوئی حل نکلے اور وہ اپنے رہنماؤں کی ہدایت پاتے ہی دار الحکومت میں داخل ہوجائیں، ایسے میں صدر اشرف غنی اچانک اپنے سیاسی رفقا کو تنہا چھوڑ کر ملک سے روانہ ہو گئے۔[8] مکرر صدر اشرف غنی کے ملک بدر ہونے کے چند گھنٹوں بعد ہی صدارتی محل سامنے تمام ہنگامی امور طالبان کے زیر اقتدار آئے۔ طالبان اور اشرف غنی کے مابین سابق افغان صدر حامد کرزئی اور چیف ایکزکٹیوعبداللہ عبداللہ نے ثالث کا کردار ادا کرتے ہوئے اشرف غنی کو پرامن نکلنے اور اقتدار کی منتقلی کی راہ ہموار کی۔ جس کے بعد طالبان نے تمام حکومتی لوگوں کے لیے عام معافی کا اعلان کرتے ہوئے تمام امور اپنے کنٹرول میں لے لیے۔ صوبہ پنجشیر کے علاوہ تمام صوبے اب طالبان کے زیر اقتدار آچکے تھے۔ پنجشیر میں بھی چند دن میں ہی مذاکرات کا سلسلسہ چلا جو ناکام ہوا جس کے بعد طالبان نے شمالی اتحاد کیخلاف شدید آپریشن کرکے سابق افغان نائب صدر امراللہ صالح اور احمد شاہ مسعود کے بیٹے احمد مسعود کو پسپا کرکے پنجشیر کو بھی فتح کر لیا۔

سقوط کابل 2021ء
سلسلہ افغانستان میں جنگ (2001ء – تاحال)

15 اگست 2021ء تک افغانستان کا نقشہ
تاریخ15 اگست 2021 – تاحال
مقامکابل، افغانستان
حیثیت
مُحارِب
تحریک اسلامی طالبان  افغانستان
غیر فوجی مدد:
 ریاستہائے متحدہ[ا]
 مملکت متحدہ[ب]
کمان دار اور رہنما
ہیبت اللہ[3]
عبدالغنی برادر[4]
افغانستان کا پرچم سہیل شاہین[5]
افغانستان کا پرچم اشرف غنی (فرار)[6]
شریک دستے
نامعلوم

Afghan National Security Forces (ANSF)

صدر اشرف غنی نے کہا ہے کہ کابل کے لاکھوں افراد کو خوں ریزی سے بچانے کے لیے افغانستان چھوڑا کیوں کہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں تصادم ہوتا، طالبان نے اسلحہ کے بل پر فتح حاصل کرلی اور وہ دلوں کو پہلے ہی سے فتح کرچکے تھے۔[9]

فائل:Taliban fighters.png
طالبان کے بہادر سپاہی 12 اگست 2021ء کو سقوط غزنی کے بعد گشت کر رہے ہیں۔

پس منظر

ترمیم

افغان فوج کو کئی برسوں سے کرپشن، نااہل قیادت، ناقص تربیت اور بے دلی جیسے مسائل کا سامنا تھا۔ فوج سے فرار کے واقعات عام تھے اور امریکا کے اسپیشل انسپکٹر جنرل برائے افغانستان ری کنسٹرکشن (سیگار) جان سوپک بہت پہلے خبردار کر چکے تھے کہ افغان فوج بطور ادارہ پائیدار نہیں ہے۔ افغان فورسز نے اس موسمِ گرما میں بعض علاقوں جیسے جنوب میں واقع لشکر گاہ میں طالبان کی بھرپور مزاحمت کی۔ لیکن اس بار انھیں طالبان کا مقابلہ کرتے ہوئے امریکا کی فضائی اور فوجی مدد حاصل نہیں تھی۔

اس فوج کو ایک ایسے دشمن کا سامنا تھا جس کی تعداد کم ہونے کے باجود وہ پوری طرح یکسو تھا۔ اسی لیے ایک کے بعد ایک شہر طالبان کے قبضے میں آتا گیا اور کئی فوجیوں اور بعض مواقع پر پوری یونٹ نے فرار اختیار کیا یا ہتھیار ڈال دیے۔[10]

حوالہ جات

ترمیم
  1. "Afghan president flees the country as Taliban move on Kabul"۔ AP NEWS (بزبان انگریزی)۔ 2021-08-15۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 اگست 2021 
  2. "Afghan President Ghani leaves country - reports"۔ BBC News (بزبان انگریزی)۔ 2021-08-15۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 اگست 2021 
  3. "After the fall of Kabul"۔ www.aspistrategist.org.au/۔ 16 اگست 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 اگست 2021 
  4. "'At the gates': Taliban ready to take Afghan capital" 
  5. Tom Batchelor (15 August 2021)۔ "Afghan president Ashraf Ghani flees capital Kabul for Tajikistan as Taliban enter city"۔ The Independent۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 اگست 2021 
  6. ^ ا ب Bill Roggio (14 August 2021)۔ "Taliban encircling Afghan capital Kabul, prepping final assault through east"۔ FDD's Long War Journal۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 اگست 2021 
  7. https://www.express.pk/story/2213804/10/
  8. https://www.express.pk/story/2213659/10/
  9. https://hamariweb.com/news/newsdetail.aspx?id=3322657