مملکت متحدہ

یورپ کا ایک ملک
  

مملکت متحدہ برطانیہ عظمیٰ و شمالی آئرستان (United Kingdom of Great Britain and Northern Ireland)، جسے عام طور پر مملکت متحدہ (United Kingdom) یا برطانیہ (Britain) کے طور پر جانا جاتا ہے، شمال مغربی یورپ کا ایک ملک ہے۔ یہ جزیرہ برطانیہ اور شمالی آئرلینڈ کے علاوہ ملحقہ سمندر کے مختلف جزائر پر پھیلا ہوا ہے۔

مملکت متحدہ
مملکت متحدہ
مملکت متحدہ
برطانوی پرچم  ویکی ڈیٹا پر (P163) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مملکت متحدہ
مملکت متحدہ
نشان

 

شعار
(فرانسیسی میں: Dieu et mon droit ویکی ڈیٹا پر (P1451) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ترانہ:
زمین و آبادی
متناسقات 54°36′N 2°00′W / 54.6°N 2°W / 54.6; -2  ویکی ڈیٹا پر (P625) کی خاصیت میں تبدیلی کریں[1]
بلند مقام
پست مقام
رقبہ
دارالحکومت لندن  ویکی ڈیٹا پر (P36) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
سرکاری زبان انگریزی  ویکی ڈیٹا پر (P37) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
آبادی
حکمران
طرز حکمرانی آئینی بادشاہت  ویکی ڈیٹا پر (P122) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اعلی ترین منصب چارلس سوم (8 ستمبر 2022–)  ویکی ڈیٹا پر (P35) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
سربراہ حکومت رشی سنک (25 اکتوبر 2022–)  ویکی ڈیٹا پر (P6) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مقننہ مملکت متحدہ کی پارلیمان  ویکی ڈیٹا پر (P194) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
قیام اور اقتدار
تاریخ
یوم تاسیس 12 اپریل 1927  ویکی ڈیٹا پر (P571) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عمر کی حدبندیاں
لازمی تعلیم (کم از کم عمر)
لازمی تعلیم (زیادہ سے زیادہ عمر)
شرح بے روزگاری
دیگر اعداد و شمار
کرنسی پاؤنڈ اسٹرلنگ  ویکی ڈیٹا پر (P38) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مرکزی بینک بینک آف انگلینڈ  ویکی ڈیٹا پر (P1304) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
منطقۂ وقت متناسق عالمی وقت±00:00 (معیاری وقت)  ویکی ڈیٹا پر (P421) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ٹریفک سمت بائیں  ویکی ڈیٹا پر (P1622) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ڈومین نیم uk.  ویکی ڈیٹا پر (P78) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
سرکاری ویب سائٹ باضابطہ ویب سائٹ  ویکی ڈیٹا پر (P856) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
آیزو 3166-1 الفا-2 GB  ویکی ڈیٹا پر (P297) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بین الاقوامی فون کوڈ +44  ویکی ڈیٹا پر (P474) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
Map

برطانیہ کے چاروں طرف بحر اوقیانوس اور اس کے ذیلی بحیرے ہیں جن میں بحیرہ شمال، رودباد انگلستان، بحیرہ سیلٹک اور بحیرہ آئرش شامل ہیں۔

برطانیہ چینل سرنگ کے ذریعے فرانس سے منسلک ہے جو رودباد انگلستان کے نیچے سے گذرتی ہے جبکہ شمالی آئرلینڈ جمہوریہ آئرلینڈ کے ساتھ ملتا ہے۔

در حقیقت مملکت برطانیہ ایک سیاسی اتحاد ہے جو 4 ممالک انگلستان، اسکاٹ لینڈ، ویلز اور شمالی آئرلینڈ سے مل کر بنا ہے۔ ان کے علاوہ دنیا بھر میں برطانیہ کے دیگر کئی مقبوضات بھی ہیں جن میں برمودا، جبل الطارق یا جبرالٹر، مونٹسیرٹ اور سینٹ ہلینا بھی شامل ہیں۔

برطانیہ ایک آئینی بادشاہت ہے جو دولت مشترکہ کے 16 ممالک کی طرح شہنشاہ چارلس سوم کو اپنا حکمران تصور کرتی ہے۔

برطانیہ جی 8 کا رکن اور انتہائی ترقی یافتہ ملک ہے۔ اس کی معیشت دنیا کی پانچویں اور یورپ کی دوسری سب سے بڑی معیشت ہے جس کا اندازہ 2.2 کھرب امریکی ڈالرز ہے۔ برطانیہ آبادی کے لحاظ سے یورپی یونین کا تیسرا سب سے بڑا ملک ہے جس کی آبادی 60.2 ملین ہے۔ برطانیہ شمالی اوقیانوسی معاہدہ (نیٹو) اور اقوام متحدہ کا بانی رکن اور سلامتی کونسل کا مستقل رکن ہے۔ برطانیہ دنیا کی بڑی جوہری طاقتوں میں سے ایک ہے۔ یہ یورپی یونین کا بھی رکن ہے۔

سلطنت برطانیہ کے خاتمے کے باوجود انگریزی زبان کے عالمی استعمال اور دولت مشترکہ کے باعث برطانیہ کے اثرات ابھی بھی دنیا پر باقی ہیں۔

تاریخ ترمیم

برطانیہ یورپ کے ان ممالک میں سے ہے جن کی تاریخ بہت زرخیز ہے۔ کرو-میگنونز، جو قدیم برطانیہ بناتے تھے اس کا تصفیہ تقریباً 30,000 سال قبل شروع ہونے والی لہروں میں ہوا تھا۔ علاقے کے ما قبل تاریخ دور کے اختتام تک، خیال کیا جاتا ہے کہ آبادی کا زیادہ تر تعلق انسولر سیلٹک کہلانے والی ثقافت سے تھا، جس میں بریٹونک برطانیہ اور گیلک آئرلینڈ شامل ہیں۔ بریٹن قبائل کی وجہ سے ان جزائر کا نام برطانیہ پڑ گیا جو یورپ اور دیگر خطوں سے ہجرت کرکے برطانیہ میں آباد ہوئے۔ ان بریٹنوں کی اکثریت آج بھی ویلز کے علاقے میں مقیم ہے ان بریٹنوں کے مذہبی رہنماؤں کو ڈروئدا کہا جاتا تھا۔

رومن دور ترمیم

قبل مسیح کے رومی حکمران آگستس کے زمانے میں جزائر برطانیہ پر رومی حکومت کا قبضہ تھا اگرچہ کہ برطانیہ میں اس دور میں رہنے والے تمدن کے اعتبار سے زیادہ ترقی یافتہ نہ تھے مگر پھر بھی وہ رومہ تہذیب کا حصہ تصور کیے جاتے ہیں۔

117ء میں ھیڈرین کو روم کی سینٹ نے روم کا بادشاہ بنوایا۔اس دور میں ہیڈرین نے خصوصی طور پر برطانیہ پر توجہ دی۔ برطانیہ کی قدیم سڑکوں کی تعمیر ھیڈرین کے دور ہی میں ہوئی تھی اور قلعہ بندی کا آغاز بھی ہیڈرین کے دور ہی میں شروع ہوا جس کے بعد طویل مدت تک برطانیہ رومی سلطنت کا صوبہ بنا رہا اسی دور میں وسطی ایشیائی ممالک اور روس اور دیگر خطوں سے یورپ کی جانب خونخوار قبیلوں کی ہجرت کا آغاز ہوا جن میں اہم ترین قبیلے جرمن، ھن، مشرقی گاتھ، ایلارک، ونڈال، مغربی گاتھ، فرینک اور لمبارڈ شامل ہیں۔ ان خونخوار اور لڑاکا قبائل نے جن کی اکثریت وسطی ایشیا اور روس سے ہجرت کرکے یورپ میں داخل ہوئی تھی یورپ میں جنگ و جدل کی فضا قائم کردی یہ لڑاکا قبائل جو وحشیانہ زندگی کے خوگر تھے جلد ہی یورپ کی فضاؤں میں داخل ہو کر یورپ کی زندگی میں رچ بس گئے اور انھوں نے اپنے آبائی مذاہب کو چھوڑ کر یورپی مذہب مسیحیت کو اپنا لیا۔ ان جنگجو قبائل میں سے گاتھ جو کے مشرقی اور مغربی گاتھوں میں تقسیم تھے انتہائی لڑاکا اور جنگجو تھے۔ گاتھوں کی لڑائیوں کی وجہ سے یورپ کی سب سے مضبوط سلطنت زوال سے دوچار ہوئی جب کے یورپ کے بیشتر علاقے پر گاتھوں نے بذور شمشیر قبضہ کر لیا، گاتھوں کے حملے کی وجہ سے روم جس کی آبادی پانچ لاکھ کے قریب تھا تباہ و برباد ہو گیا۔ گاتھوں کے حملے ہی کی وجہ سے قسطنطین نے اپنا دار الحکومت روم کی جگہ قسطنطنیہ کو بنایا۔ مگر جلد ہی گاتھ مسیحی مذہب سے متاثر ہو گئے۔ اس کے ساتھ وہ یورپ کے بیشتر حصوں پر قابض ہوتے چلے گئے جس کی وجہ سے نوبت یہ ہو چکی تھی کہ اگرچہ گاتھ مسیحی ہو چکے تھے مگر اس کے باوجود یورپ کے تمدن یافتہ اور سابق حکمراں گاتھوں کو اچھی نگاہوں سے نہیں دیکھتے تھے۔ گاتھوں کے اقتدار کے دور میں اگرچہ کے یورپ میں کسی حد تک استحکام رہا مگر اس طرح نہیں جس طرح رومی حکومت کے دور میں رہا۔

حکومت ہفتگانہ ترمیم

جزائر برطانیہ بھی ان حملہ آووروں کے حملوں سے بری طرح سے متاثر ہوا ایک جانب رومی حکومت کی گرفت کمزور ہوئی تو دوسری جانب علاقائی حکومتیں قائم ہوتی چلی گئیں جو چھوٹے چھوٹے علاقوں پر مشتمل تھیں ان حکومتوں کو تاریخ میں حکومت ہفتگانہ کہا جاتا ہے اسی زمانے میں برطانیہ میں مسیحیت کی تبلیغ ہوئی اور برطانیہ کے مختلف علاقے بت پرستی سے مسیحیت کی آغوش میں چلے گئے اسی دوران میں آٹھویں صدی میں برطانیہ پر ڈنمارک کے رہنے والے ڈین قبائل نے حملے کرنا شروع کردیے۔ حملوں کا مقصد برطانیہ پر قبضہ کرنا تھا۔ ٹھیک اسی زمانے میں ناروے میں بسنے والے جنگجو وائیکنگ نے بھی برطانیہ پر قبضہ کرنے کے لیے حملے کرنا شروع کردیے۔ وائیکنگ یورپ کی تاریخ کی انتہائی جنگجو قوم تھی جس نے تمام یورپ میں اپنی وحشیانہ اور جنگجویانہ سرگرمیوں سے دہشت قائم کر رکھی تھی۔

ایلفریڈ اعظم ترمیم

اس زمانے میں برطانیہ کا بادشاہ ایلفرڈ بہت بہادر تھا، جسے ایلفرڈ اعظم بھی کہا جاتا ہے، نے ان وائی کنگ حملہ آوروں کے خلاف طویل ترین جنگیں لڑیں اور بڑی بہادری کے ساتھ وائیکنگ کا مقابلہ کیا جس کے نتیجے میں وائیکنگ پسپائی اختیار کرنے پر مجبور ہوئے۔ مگر اس کے باوجود ایلفرڈ اعظم نے جو صلح کا معاہدہ وائی کنگ کے ساتھ کیا، اس معاہدے میں حکمتِ عملی کے تحت دریائے ٹیمز سے اوپر کے علاقے جس میں شمالی و مشرقی انگلستان کا ایک وسیع علاقہ ان وائیکنگ کے حوالے کیا اور باقی حصہ بدستور ایلفرڈ اعظم کے قبضے میں رہا۔ ایلفرڈ اعظم کے بعد اس کی اولاد حکمران رہی یہاں تک کہ دسویں صدی کے آخر میں ڈنمارک کے بادشاہ نے حملہ کیا اور اس خاندان کا ایک فرد باقاعدہ انگلستان کا بادشاہ بن گیا۔ مگر اس کی حکومت کا خاتمہ اس کی موت کے بعد جلد ہی ہو گیا کیونکہ اس کی اولاد میں سے کوئی بھی حکمرانی کے قابل نہیں نکلا۔ لہٰذا 1042ء میں اس حکومت کا خاتمہ ہو گیا اور ایلفرڈ اعظم کی اولاد میں ایڈورڈ کو انگلستان کا بادشاہ بنایا گیا۔ مگر ایڈورڈ لاولد انتقال کرگیا جس کی موت کے بعد انگلستان میں تخت کے دو دعویداروں ھیرلڈ اور ولیم کے درمیان میں جنگ ہوئی جس میں ھیرلڈ مارا گیا اور ولیم انگلستان کا بادشاہ بنا۔ واضح رہے کہ ولیم ایڈورڈ کا رشتے دار تھا مگر چونکہ اس کا تعلق نارمنڈی سے تھا اس لیے اس کی حکومت کو نارمنوں کی حکومت تصور کیا جاتا ہے۔

نارمن دور ترمیم

جنگ ھیسٹینگز کے بعد انگلستان پر نارمنوں کی حکومت قائم ہو گئی تھی۔ ولیم اول نے انگلستان پر بڑی ہی فراست کے ساتھ حکومت کی۔ قدیم جاگیر دارانہ نظام بدستور قائم رکھا گیا، مگر اس کے باوجود ولیم کا ان جاگیرداروں پر بہت مضبوط کنٹرول تھا۔ اس کے احکامات تھے کہ کوئی بھی جاگیردار اس کی اجازت کے بغیر کوئی قلعہ تعمیر نہیں کر سکتا۔ بڑے بڑے مذہبی عہدیداروں کا تقرر بادشاہ کی مرضی کے بغیر ممکن ہی نہ تھا۔ 1087ء میں ولیم کی وفات کے بعد اس کا بیٹا ولیم ثانی بادشاہ بنا مگر لوگ اس سے بہت ناراض تھے جس کی وجہ سے ولیم ثانی 1100ء میں مارا گیا۔ جس کے بعد اس کا بیٹا ہنری اول تخت نشین ہوا، جس کے عہد میں تجارت کو بہت ہی فروغ حاصل ہوا۔ ہنری کے دور میں ہی انگریز تاجر برطانیہ سے باہر نکلے اور تجارت کے میدان میں دیگر یورپی اقوام کے مقابلہ میں جدوجہد شروع کی۔

پلانٹیجنیٹ خاندان ترمیم

ہنری اول کی وفات کے بعد اس کا نواسہ ہنری دوم کے نام سے انگلستان کا بادشاہ بنا۔ پلانٹیجنیٹ (Plantagenet) خاندان سے تعلق رکھنے والا ہنری دوم، ہنری اول کی بیٹی مٹیلڈا کا بیٹا تھا۔ مٹیلڈا کی شادی آنجو (Angou) کے نواب جیوفرے کے ساتھ ہوئی تھی۔ اس خاندان کا نشان ایک جھاڑی تھا اس لیے اس کو خاندان پلانٹیجنیٹ (Plantagenet) کہا جاتا ہے۔ ہنری دوم کے بعد انگلستان میں جب تک اس خاندان کی حکومت قائم رہی اس حکومت کو پلانٹیجنیٹ (Plantagenet) کا دور کہا گیا۔ ہنری دوم کے دور میں انگلستان کے نظام کو بہتر بنایا گیا۔ جو علاقے اس سے قبل انگلستان کے بادشاہوں کے ہاتھ سے نکل گئے تھے ان علاقوں پر دوبارہ قبضہ کیا۔ اس کے علاوہ ہنری نے عدالتی اصلاحات کی، مالیات کے محکمے کو ازسر نو منظم کیا، تجارت کو فروغ دینے کے لیے اقدامات کیے۔ اس کا سب سے یادگار قدم جو آج بھی ہنری دوم کی یاد دلاتا ہے وہ یہ ہے کہ اس نے آکسفورڈ یونیورسٹی کی بنیاد 1209ء میں رکھی۔ اس کے بعد اس کا بیٹا رچرڈ بادشاہ بنا، تاریخ میں اس بادشاہ کو رچرڈ شیردل کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ رچرڈ شیر دل تیسری صلیبی جنگ میں خود شامل ہوا تھا جس کے بعد اس کی بہن کی شادی سلطان ایوبی کے بھائی کے ساتھ ہوئی۔

سن 1272ء میں ہنری کا انتقال ہو گیا اور اس کا بیٹا ایڈورڈ انگلستان کا بادشاہ بنا جسے ایڈورڈ اول کہا گیا جو انگلستان کی تاریخ کا انتہائی قابل اور مدبر بادشاہوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس کے زمانے میں ویلز کی بغاوت کا خاتمہ ہوا، اسکاٹ لینڈ بھی انگلستان کے ساتھ شامل ہوا، اگرچہ یہ شمولت رسمی ہی تھی مگر اس کے باوجود اسکاٹ لینڈ پر انگلستان کا جھنڈا لہرایا گیا۔ اس کے ساتھ انگلستان کی معیشت کو بہتر بنانے کے لیے جو اہم ترین فیصلہ ایڈورڈ اول نے کیا وہ یہ تھا کہ 1290ء میں اس نے انگلستان کی حدود سے یہودیوں کو نکل جانے کے احکامات دیے۔ 1295ء میں ایک نمائندہ پارلیمنٹ بلوائی جس میں، بشپ، ایبٹ، بڑے بڑے امیر، نامور جنگجو اور مختلف قبائلی سرداروں نے شرکت کی۔ اس نمائندہ اجلاس میں پہلی بار میگنا کارٹا کی تصدیق کردی گئی اور اس کے ساتھ میگنا کارٹا میں ایک دفعہ مزید بڑھائی گئی کہ بادشاہ پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر کوئی غیر جاگیردار محصول نافذ نہیں کرے گا۔ ایڈورڈ کے دور کی ایک خوبی یہ ہے کہ متوسط طبقے سے بادشاہ باقاعدہ رابطہ قائم رکھتا تھا اور ان کی تجاویز سنتا تھا اور ان پر عمل درآمد بھی کرواتا تھا۔ بادشاہ کا یہ قدم انگلستان میں جمہوریت کو قائم رکھنے میں بہت مدد گار ثابت ہوا۔ اس کے ساتھ عدالتوں کی اصلاح بھی کی گئی، عدالتوں کی کارکردگی کے بارے میں ایک سوالنامہ شائع کیا جاتا تھا جس میں تمام عدالتی کارروائی کی تفصیل درج ہوتی تھی۔

خاندان لنکاسٹر ترمیم

رچرڈ کی وفات کے ساتھ ہی برطانیہ میں خاندان لنکاسٹر کا آغاز ہو گیا، جس کا بانی ہنری سوم تھا، جو ڈیوک آف لنکاسٹر کا بیٹا تھا۔ ہنری سوم کے دور میں برطانیہ میں بہت سے کام ہوئے، مگر ہنری کے دور میں بہت سے امرا نے بغاوت کی۔ فرانس نے بھی باغی سرداروں کی امداد میں اپنی فوج بھیجی۔ مگر 1413ء میں ہنری وفات پاگیا جس کے بعد اس کا بیٹا ہنری پنجم کے لقب سے بادشاہ بنا ہنری پنجم بہت ہی لائق بادشا ہ شمار کیا جاتا ہے۔ اس نے برگنڈی کے ڈیوک کیساتھ صلح کرکے فرانس کے تخت و تاج کا دعویٰ کر دیا اور فرانس کے خلاف لڑائی شرع کردی۔ جس کے بعد ہنری کی افواج نے ایجن کورٹ کے مقام پر فرانس کو شکست دیدی اور نارمنڈی کے علاقے کو فتح کر لیا۔ 1420ء میں صلح نامے کے نتیجے میں فرانس کے ولی عہد کو سلطنت سے محروم کرکے اعلان کر دیا گیا کہ ہنری پنجم ہی فرانس کا آئندہ بادشاہ ہو گا۔ مگر ہنری 1422ء میں اچانک وفات پاگیا ہنری پنجم کی وفات کے بعد اس کے نو ماہ کے بیٹے کو ہنری ششم کے لقب سے بادشاہ بنایا گیا۔ اس کے تین چچاؤں نے بادشاہ کے سرپرست کی حیثیت اختیار کی ایک چچا فرانس میں نائب السلطنت بن گیا دوسرا انگلستان میں نائب سلطنت بنا، مگر ان ہی دنوں فرانس میں بغاوت کی ابتدا ہو گئی، یہ بغاوت مشہور و معروف جون آف آرک نے شروع کی، جس کے نتیجے میں فرانس میں انگلستان کی حکومت کا خاتمہ ہو گیا۔ 1437ء میں ہنری بالغ ہو گیا لیکن وہ اچھا حکمران ثابت نہیں ہو سکا۔ اس کے دور میں بد نظمی ہی رہی کبھی کوئی نواب فوج جمع کرکے کنٹرول کرلیتا کبھی کوئی۔ ان حالات میں ڈیوک آف یارک کے پوتے نے بادشاہ کے خلاف اعلان بغاوت کر دیا۔ اس طرح ایک ہی خاندان کی دو شاخوں کے درمیان میں خانہ جنگی کی ابتدا ہوئی۔ یارک اور لنکاسٹر خاندانوں کے درمیان میں ہونے والی اس جنگ میں ابتدا میں یارک نے شاہی فوج کو شکست دے کر بادشاہ کو گرفتار کر لیا۔ مگر بادشاہ کی ماں اور ہنری پنجم کی بیوہ نے فوج جمع کرکے ڈیوک آف یارک کی افواج کو شکست دیدی۔ جنگ میں ڈیوک آف یارک مارا گیا مگر جنوبی انگلستان کے لوگوں کی حمایت سے ڈیوک آف یارک کے بیٹے ایڈورڈ نے شاہی افواج کو شکست دینا شروع کردی جس کے نتیجے میں جلد ہی لنکاسٹر خاندان شکست کھا گیا اور 1461ء میں خاندان یورک کی حکمرانی کی ابتدا ہو گئی۔ 1465ء میں ہنری ششم گرفتار ہو گیا جس کو ٹاؤر میں بند کر دیا گیا جہاں اس نے اپنی زندگی کے آخری دن خاندان پلانٹیجنیٹ (Plantagenet) کے آخری بادشاہ رچرڈ کی مانند گزارے۔

آئرلینڈ ترمیم

پانچویں صدی عیسوی میں مسیحی راہبوں کے ذریعہ آئرلینڈ میں مسیحیت پھیلی۔ اس سے قبل یہاں پر بت پرستی رائج تھی۔ مسیحیت پھیلنے کے تین سو برس بعد تک آئیر لینڈ میں مسیحی رہبانیت کے تحت ہی نظام کام کرتا رہا۔ مگر آٹھویں صدی کے بعد جو صورتِ حال انگلستان اور اسکاٹ لینڈ کی اوپر بتائی گئی ہے اس سے ملتی جلتی صورت حال آئرلینڈ کی ہو گئی، جہاں یورپ کے دیگر علاقوں کے مختلف قبائل آکر حملہ کرتے اور قبضہ کرلیتے تھے۔ مگر پھر سنہ 1171ء میں انگلستان کے نارمن بادشاہ ہنری دوم نے پوپ کے فرمان کے مطابق آئرلینڈ پر حملہ کرکے قبضہ کر لیا اور یوں وہاں انگلستان کی حکومت قائم ہو گئی۔

اسکاٹ لینڈ ترمیم

اسی طرح اسکاٹ لینڈ کی بھی صورت یہ تھی کہ پانچویں صدی میں اسکاٹ لینڈ چار حصوں میں تقسیم تھا۔ چھوٹے چھوٹے قبائلی سردار اپنی اپنی راجدھانی کے سردار بن کر بیٹھ گئے تھے۔ پانچویں صدی عیسوی میں اسکاٹ لینڈ کے لوگوں نے انگلستان کی حکومت کا خاتمہ کرکے اپنی مقامی حکومت قائم کرلی۔ مگر یہاں بھی اسی طرح کی صورت حال تھی کے اسکینڈینیویا کے ممالک کے لوگ اسکاٹ لینڈ پر حملہ آور ہوتے اور کبھی کسی علاقے پر قبضہ کرلیتے اور کبھی کسی علاقے پر۔ مگر پھر ان کو احساس ہوا اور 1034ء میں تمام اسکاٹ لینڈ ایک حکومت کے جھنڈے تلے آ گیا۔

انگلینڈ ترمیم

1199ء میں رچرڈ کی وفات کے بعداس کا بھائی جان بادشاہ بنا۔ برطانیہ کی تاریخ میں کنگ جان سے زیادہ اچھا بادشاہ کسی کو نہیں جانا جاتا ہے۔ کنگ جان کوئی زیادہ کامیاب باشاہ نہیں تھا۔ اس کے دور میں ایک جانب تو پوپ کے ساتھ کشمکش کا آغاز ہوا اور دوسری جانب امیروں اور جاگیرداروں کے ساتھ لڑائیاں ہوئیں جس کی وجہ سے انگلستان کی معیشت کو بہت نقصان پہنچا۔ مگر تاریخ میں کنگ جان کا نام اس اعتبار سے زیادہ مشہور ہے کہ اس کے دور میں اس جمہوریت کی ابتدا ہوئی جس کی وجہ سے آج برطانیہ کا نام قوموں میں سر بلند ہے۔ کنگ جان نے 1214ء میں اس دستاویز پر دستخط کیے جو تاریخ میں میگنا کارٹا یعنی منشور کبیر کے نام سے مشہور ہے۔ یہ ہی منشور انگلستان میں جمہوریت کی سنگ بنیاد تصور کیا جاتاہے۔ جان کے دور میں انگلستان میں پوپ کا عمل دخل زیادہ بڑھ گیا تھا۔ جان کے لیے ضروری تھا کہ پوپ کو خوش رکھنے کے لیے باقاعدہ نذرانے بھیجتا رہے جس سے معیشت بہت متاثر ہوئی اور اس کے نتیجے میں انگلستان مختلف شورشوں کا شکار ہوتا چلا گیا۔ 1216ء میں جان نے وفات پائی۔ جان کے بعد اس کا بیٹا ہنری سوم کے نام سے نو برس کی عمر میں انگلستان کا بادشاہ بنا۔ مگر اس کی خوش نصیبی یہ رہی کہ ایک انتہائی قابل شخص ولیم مارشل جو اس کے باپ جان کا ساتھی تھا ہنری سوم کا نائب السلطنت بنا۔ ولیم مارشل انتہائی قابل اور وفادار تھا۔ اس نے انتہائی قابلیت اور ذہانت کے ساتھ کار مملکت چلائے۔ جس کی وجہ سے انگلستان میں نو سالہ بادشاہ کی موجودگی میں کسی بھی طرح کی بے امنی اور بد انتظامی نہیں ہو سکی۔ مگر جلد ہی ولیم مارشل کی وفات کے بعد انتظامی معاملات بگڑنے لگے۔ ایک جانب پوپ انگریزی کلیساؤں سے چندے کی رقم کا مطالبہ کرتا تھا اور دوسری جانب پوپ کی طرف سے مختلف مذہبی مطالبات بھی وقتاً فوقتاً سامنے آتے رہتے تھے۔ پھر ویلز میں بغاوت کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اس کے ساتھ انگلستان اور فرانس کے درمیان میں جنگ بھی شروع ہو گئی۔ حالانکہ ہنری کی شادی فرانس کی شہزادی کے ساتھ ہوئی تھی مگر اس کے باوجود انگلستان اور فرانس کے درمیان میں جنگ ہوئی۔ پوپ کی جانب سے انگلستان میں مداخلت کا سلسلہ بھی جاری ہی رہا۔ ایک جانب تو پوپ نے اپنے مصارف کے لیے مستقل دباؤ ڈالنا شروع کیا جس کی انتہائی صورت یہ تھی کہ انگلستان کی پوری آمدنی کا ایک تہائی حصہ پوپ کے حوالے کیا جانے لگا۔ جس کے نتیجے میں عوام ناراض ہونے لگے اور امرا کی ایک کمیٹی جو 24 اراکین پر مشتمل تھی، نے اصلاحی اسکیم پیش کردی۔ ہنری نے اس اسکیم کو توڑنے کی بہت کوشش کی مگر اس میں اس کو کامیابی نہیں ہوئی۔ اس طرح خانہ جنگی کا آغاز ہو گیا جس میں بادشاہ کے بہنوئی سائمن ڈی مانفرٹ (Siman de Monfort) نے اصلاحی گروہ کی سرداری قبول کرلی۔ بادشاہ کو شکست ہوئی اور سائمن نے پورا انتظامی کاروبار سنبھال لیا۔ بادشاہ نے مشورے کے لیے جو مجلس بنا رکھی تھی اسے پہلے مجلس کبیر (Great Council) کہا جاتا تھا مگر 1240ء میں اس کا نام پارلیمنٹ رکھا گیا، جو آج تک جاری ہے۔ 1925ء میں سائمن نے ایک نمائندہ پارلیمنٹ بلوائی۔ بادشاہ کا بڑا بیٹا، ایڈورڈ جو پہلے اصلاحی پارٹی کے ساتھ تھا ان امیروں کے ساتھ مل گیا، جو بادشاہ کے طرف دار تھے۔ اس نے سائمن کو شکست دی۔ اب اقتدار دوبارہ ہنری کے ہاتھ میں آ گیا لیکن اس وقت بھی وہ برائے نام بادشاہ تھا کیونکہ تمام اقتدار ایڈورڈ کے ہاتھ میں ہی تھا۔  

ایڈورڈ کا دور اس اعتبار سے بھی بہت اہم ہے کہ اس دور میں آئیرلینڈ اور اسکاٹ لینڈ انگلستان کا حصہ بنے جو گریٹ برٹین کی ابتدا تھی اس کے ساتھ ایڈورڈ نے جو اہم ترین کام انجام دیا وہ یہ کہ 1209ء میں بننے والی آکسفورڈ یونیورسٹی کی جانب بھرپور توجہ دی گئی جس کے نتیجے میں انگلستان میں اعلیٰ تعلیم کا انتظام ہو سکا آکسفورڈ یونیورسٹی اس وقت دنیا کی سب سے قدیم یونیورسٹی شمار کی جاتی ہے جہاں سے کروڑوں طالب علم اس وقت اپنی تعلیم کو مکمل کرکے دنیا بھر میں پھیل چکے ہیں۔

یہ وہ دور تھا جب منگولوں نے چنگیز خان کی سربراہی میں منگولیا سے نکل کر بیرونی دنیا کی بڑی بڑی طاقتوں کو شکست دے کر تہلکہ مچا دیا تھا منگولوں کے گھوڑوں کی ٹاپوں نے عالمِ اسلام کے اہم ترین اور طاقتور ریاستوں سمرقند و بخارا اور بغداد کو روند کراور تباہ و برباد کرکے رکھ دیا تھا وہیں ان ہی منگولوں نے ایک جانب تمام روس دوسری جانب پولینڈ، جرمنی، آسٹریا، بلغاریہ، ترکی، رومانیہ پر قبضہ جمالیا تھا یورپ میں موجود مسیحیت کی سب سے بڑی روحانی شخصیت پوپ نے منگولوں کے حملے کو عذابِ خداوندی قرار دیا اور یورپ کے تمام بادشاہوں کو اس عذابِ خداوندی کا مقابلہ کرنے کے لیے یکجا ہونے کی دعوت دی مگر جلد ہی منگولوں کے پہلے بادشاہ چنگیز خان کے مر جانے کے بعد ایشیا میں مسلمانوں کے ہاتھوں پہلی شکست کھانے کے بعد منگولوں کی قوت تتر بتر ہونے لگی جس کے نتیجے میں ان کے طوفانی حملوں کا زور یورپ میں ختم ہو گیا اور یورپی ریاستوں نے ایک ایک کرکے منگولوں سے آزادی حاصل کرنا شروع کردی اس صورت حال کے اثرات برطانیہ پر بھی پڑے ایک جانب منگولوں کے ہاتھوں شکست کھانے والے قبائل پناہ لینے کے لیے برطانیہ کی جانب رخ کرنے لگے دوسری جانب برطانیہ میں اعلیٰ ترین صنعت کار اور تاجر آنے لگے یورپ کے اجڑنے کے ساتھ برطانیہ کے بسنے کا عمل بھی جاری ہوا اسے انگریز قوم کی خوبی ہی کہا جائے گا کہ انگریزوں نے اس صورت حال کا فائدہ اٹھایا اور ایسا قومی ماحول تشکیل دیا جس کے نتیجے میں قومی ترقی کے امکانات وسیع سے وسیع تر ہوتے چلے گئے۔

ایڈورڈ اول کی وفات کے بعد اس کے بیٹے ایڈورڈ دوم کے نام سے تخت نشین ہوا وہ زیادہ قابل نہ تھا اس لیے امیروں کا کنٹرول ایڈورڈ دوم پر تھا جس کی وجہ سے نہ تو ایڈورڈ دوم پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر کوئی کام کر سکتا تھا اور نہ ہی پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر اعلانِ جنگ کر سکتا تھا اس کے دور میں اسکاٹ لینڈ کے باغیوں نے شاہی فوج کو شکست دیدی جس کے نتیجے میں اسکاٹ لینڈ آزاد ہو گیا ایڈورڈ کی شکست کے نتائج اس کو اس طرح سے بھگتنا پڑے کہ 1327ء میں اسے تاج و تخت سے دستبردار ہونے پر مجبور کر دیا گیا آٹھ ماہ کی قید کے بعد اسے قتل کر دیا گیا جس کے بعد ایڈورڈ سوم پندرہ سال کی عمر میں بادشاہ بنایا گیا مگر جلد ہی اس نے تمام معاملات اپنے ہاتھوں میں لینا شروع کردیے۔ 1330ء میں اس نے تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لیے اور 1337ء میں فرانس کے خلاف جنگ شروع کی جو سو سال تک جاری رہی اس لیے اس جنگ کو صد سالہ جنگ بھی کہا جاتا ہے ایڈورڈ سوم کے دور میں انتظامی معاملات درست ہو گئے ا سی کے عہد میں پارلیمنٹ کا آغاز ہوا دارلعوام اور دار الامرا کا آغاز ہوا مگر 1348ء میں خونی پلیگ پھیلی جس کی وجہ سے نصف آبادی موت کا شکار ہو گئی اسی دور میں مسیحیت کی اصلاحی تحریک کا آغاز بھی ہوا اس تحریک کے بانی جان وکلف کا کہنا تھا کہ ہر شخص کسی کی وساطت کے بغیر خدا سے براہ راست رشتہ قائم رکھ سکتا ہے اور کلیساؤں کے ساتھ اوقاف رکھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، نیز پادریوں نے شادی نہ کرنے کا جو سلسلہ قائم کررکھا ہے وہ غلط ہے، پادریوں نے دولت جمع کرنے کا جو سلسلہ قائم کررکھا ہے وہ غلط ہے۔ اس طرح جان وکلف نے پوپ اور پادریوں کے تمام اقتدار کا خاتمہ کر دیا جان وکلف نے 1372ء میں بائبل کا مکمل انگریزی ترجمہ کیا۔ اپنے ان خیالات کی وجہ سے جان وکلف کو آخری دور میں بہت تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑا۔

دوسری جانب بڑھاپے کی وجہ سے ایڈورڈ بالکل ہی ناکارہ ہو گیا اس کا بڑا بیٹا بھی بیمار تھا اس وجہ سے برطانیہ کا نظام بگڑ گیا اس کے بیٹے نے حالات کو بہت درست کرنے کی کوشش کی مگر وہ 1376ء میں وفات پاگیا اس کا بیٹا رچرڈ سوم تخت نشین ہوا جو تخت نشین کے وقت صرف دس سال کا تھا اس کا چچا جان جو لینکاسٹر کا ڈیوک تھا بادشاہ کی سرپرست مجلس کا سربراہ بنایا گیا اس کے دور میں فرانس کے ساتھ از سر نو جنگ چھڑ گئی جس میں فلینڈرس کا علاقہ چھن گیا۔ اس وقت روپے کی سخت ضرورت پڑی جو محصول لگا کر حاصل کرنے کی کوشش کی گئی اس کی وجہ سے برطانیہ میں بے چینی بڑھنے لگی جس کی وجہ سے بعض مقامات پر تشدد کے واقعات بھی پیش آئے۔ بڑے بڑے زمینداروں کی جانب سے کسانوں کے ساتھ زیادتی کرنے کے نتیجے میں کسانوں کی جانب سے بغاوت ہو گئی۔ جاگیرداروں کے مراکز جلادئے گئے، بڑے بڑے زمیندار اور قانون داں اس بغاوت میں مار دیے گئے۔ انگلستان کے مشرقی اور جنوبی حصے سے ایک بہت بڑا ہجوم دو سرداروں ویٹ ٹائیلر اور پول ٹاکس کی قیادت میں لندن کی جانب روانہ ہوا۔ ہجوم کے بڑے بڑے مطالبات یہ تھے کہ زمینداروں نے کسانوں پر جو ناواجب ٹیکس لگائے ہوئے ہیں وہ منسوخ کر دئے جائیں، کلیساؤں کے اوقاف چھین لیے جائیں اور شکار کے تمام قوانین ختم کردئے جائیں۔ بادشاہ نے ہجوم سے ملاقات کرکے ان کے ساتھ ہوشیاری کے ساتھ مذاکرات کیے جس کے نتیجے میں ہجوم واپس ہو گیا۔ اس دوران میں ویٹ ٹائیلر مارا گیا اس کے بعد رچرڈ نے خومختار بننے کی کوشش کی پارلیمنٹ نے اس کے اس اقدام کی مخالفت کی اسی دوران میں ڈیوک آف لنکاسٹر کا بیٹا آئیر لینڈ سے آ گیا اس نے رچرڈ کے تمام اختیارات خود لے کر رچرڈ کو بادشاہت سے دستبردار کرکے اور رچرڈ کو ٹاؤر میں قید کر دیا جہاں رچرڈ نے 1400ء میں وفات پائی۔

یارک خاندان ترمیم

خاندان یورک کی حکمرانی برطانیہ کے عوام کے لیے نئی صبح بن کرطلوع ہواعوام مسلسل ہونے والی خانہ جنگی سے بے زار آچکے تھے۔

انگریزی اصلاحات نے سولہویں صدی میں سیاسی، آئینی، سماجی اور ثقافتی تبدیلی کا آغاز کیا اور چرچ آف انگلینڈ کا قیام عمل میں لایا گیا۔ مزید برآں، اس نے انگلینڈ کے لیے ایک قومی شناخت کی وضاحت کی اور آہستہ آہستہ، لیکن گہرے طور پر، لوگوں کے مذہبی عقائد کو بدل دیا۔ ویلز کو مکمل طور پر برطانیہ کی بادشاہی میں شامل کر لیا گیا اور آئرلینڈ کو انگلش تاج کے ساتھ ذاتی اتحاد میں ایک مملکت کے طور پر تشکیل دیا گیا تھا۔ اور باقی حصہ جس میں شمالی آئرلینڈ بننا تھا، آزاد کیتھولک گیلک اشرافیہ کی زمینیں ضبط کر لی گئیں اور انگلینڈ اور سکاٹ لینڈ کے پروٹسٹنٹ آبادکاروں کو دے دی گئیں۔

1603 میں، انگلستان، اسکاٹ لینڈ اور آئرلینڈ کی سلطنتیں ایک ذاتی اتحاد میں متحد ہوئیں جب اسکاٹس کے بادشاہ جیمز ششم نے انگلینڈ اور آئرلینڈ کے تاج وراثت میں حاصل کیے اور اپنے دربار کو ایڈنبرا سے لندن منتقل کر دیا۔ اس کے باوجود ہر ملک ایک الگ سیاسی وجود رہا اور اپنے الگ الگ سیاسی، قانونی اور مذہبی اداروں کو برقرار رکھا۔ 17ویں صدی کے وسط میں، تینوں مملکتیں متصل جنگوں کی ایک سیریز میں شامل تھیں (بشمول انگریزی خانہ جنگی) جس کی وجہ سے بادشاہت کا عارضی طور پر تختہ الٹ دیا گیا اور انگلینڈ، اسکاٹ لینڈ اور آئرلینڈ پر مشتمل دولت مشترکہ کی  جمہوریہ رہ گئی۔

ونڈسر خاندان ترمیم

اگرچہ بادشاہت بحال کر دی گئی، 1688 کے شاندار انقلاب اور اس کے بعد کے بل آف رائٹس 1689 کے ساتھ ساتھ اسکاٹ لینڈ میں کلیم آف رائٹ ایکٹ 1689 نے اس بات کو یقینی بنایا کہ یورپ کے باقی حصوں کے برعکس، شاہی مطلق العنانیت نہیں ہوگی۔ کیتھولک سے تعلق رکھنے والا کبھی بھی تخت پر نہیں بیٹھ سکتا۔ برطانوی آئین آئینی بادشاہت اور پارلیمانی نظام کی بنیاد پر تیار ہوگا۔ 1660ء میں رائل سوسائٹی کے قیام کے ساتھ، سائنس کی بہت حوصلہ افزائی ہوئی۔ اس عرصے کے دوران، خاص طور پر انگلستان میں، بحری طاقت کی ترقی اور دریافت کے سفروں میں دلچسپی بیرون ملک مقیم کالونیوں کے حصول اور آباد کاری کا باعث بنی، خاص طور پر شمالی امریکا اور کیریبین میں۔

اگرچہ 1606، 1667 اور 1689 میں برطانیہ کے اندر دو ریاستوں کو متحد کرنے کی پچھلی کوششیں ناکام ثابت ہوئی تھیں، لیکن 1705 میں شروع کی گئی کوشش کے نتیجے میں 1706 کے اتحاد کے معاہدے پر دونوں پارلیمانوں نے اتفاق کیا اور اس کی توثیق کی۔ یکم مئی 1707 کو، برطانیہ کی بادشاہی قائم ہوئی، جو یونین 1707 کے ایکٹ کے نتیجے میں ہوئی۔ 18ویں صدی میں، کابینہ کی حکومت رابرٹ والپول کے تحت تیار ہوئی، جو عملی طور پر پہلے وزیر اعظم (1721–1742) تھے۔ جیکبائٹ بغاوتوں کی ایک سیریز نے پروٹسٹنٹ ہاؤس آف ہینوور کو تخت سے ہٹانے اور کیتھولک ہاؤس آف اسٹورٹ کو بحال کرنے کی کوشش کی۔ جیکبائٹس کو بالآخر 1746ء میں کلوڈن کی جنگ میں شکست ہوئی، جس کے بعد سکاٹش ہائی لینڈرز کے قبیلے کے سرداروں کی جاگیردارانہ آزادی کو منسوخ کر کے زبردستی اسکاٹ لینڈ میں ضم کر دیا گیا۔ شمالی امریکا میں برطانوی کالونیاں جو امریکی جنگ آزادی میں ٹوٹ گئیں وہ ریاستہائے متحدہ بن گئیں، جسے برطانیہ نے 1783 میں تسلیم کیا۔

برطانوی راج یا سلطنت برطانیہ کو ’’سرکارِ انگلشیہ‘‘ بھی کہا جاتا تھا، خصوصاً 1857ء سے 1947ء کے دوران میں جب برصغیر مکمل طور پر سلطنت برطانیہ کا حصہ تھا۔

برطانہ کہ شاہی خاندانوں کی تفصیلات ترمیم

گریٹ برٹین یا متحدہ برطانیہ کی ابتدا ہوئی

کرام ویل اور اس کا بیٹا رچرڈ کرام ویل ڈکٹیٹر بنے 1649تا1712

ونڈسر خاندان کے بادشاہ اور ملکہ ترمیم

  • چارلس سوم 2022 سے تاحال

جغرافیہ ترمیم

برطانیہ کا کل رقبہ تقریباً 244,820 مربع کلومیٹر (94,530 مربع میل) ہے۔ یہ ملک برطانوی جزائر کے بڑے حصے پر قابض ہے اور اس میں برطانیہ کا جزیرہ، آئرلینڈ کے جزیرے کا شمال مشرقی ایک چھٹا حصہ اور ارد گرد کے کچھ چھوٹے جزائر شامل ہیں۔ یہ شمالی بحر اوقیانوس اور بحیرہ شمالی کے درمیان واقع ہے جس کے ساتھ جنوب مشرقی ساحل شمالی فرانس کے ساحل سے 22 میل (35 کلومیٹر) کے اندر آتا ہے، جہاں سے اسے انگریزی چینل کے ذریعے الگ کیا گیا ہے۔

لندن میں رائل گرین وچ آبزرویٹری کو 1884 میں بین الاقوامی میریڈیئن کانفرنس میں پرائم میریڈیئن کے ڈیفائننگ پوائنٹ کے طور پر چنا گیا تھا۔ یونائیٹڈ کنگڈم عرض البلد 49° اور 61° شمال اور عرض البلد 9° مغرب اور 2° مشرق کے درمیان واقع ہے۔ شمالی آئرلینڈ جمہوریہ آئرلینڈ کے ساتھ 224 میل (360 کلومیٹر) زمینی سرحد کا اشتراک کرتا ہے۔ برطانیہ کی ساحلی پٹی 11,073 میل (17,820 کلومیٹر) لمبی ہے۔ یہ چینل ٹنل کے ذریعے براعظم یورپ سے منسلک ہے، جو 31 میل (50 کلومیٹر) (24 میل:38 کلومیٹر) پانی کے اندر) دنیا کی سب سے طویل زیر آب سرنگ ہے۔ برطانیہ چار زمینی ماحولیاتی خطوں پر مشتمل ہے: سیلٹک broadleaf جنگلات ، انگلش لو لینڈ ساحلی جنگلات، شمالی بحر اوقیانوس کے نم ملے جلے جنگلات اور کیلیڈون جنگلات۔ 2023 میں برطانیہ میں جنگلات کا رقبہ 3.25 ملین ہیکٹر ہونے کا تخمینہ ہے، یہ برطانیہ کے کل رقبہ کا 13% ہے۔

سیاست ترمیم

برطانیہ آئینی راجشاہی کے تحت ریاست ہے۔ ملکہ ایلزبتھ دوم پندرہ دیگر دولت مشترکہ ریاستوں کا فرمانروا ہونے کے علاوہ برطنیہ کا صدر ملک ہے۔ فرمانروا کو مشورہ دینے کا، حوصلہ دینے کا اور انتباہ دینے کا حق ہے۔ برطانیہ دنیا کے ان چار ممالک میں سے ایک ہے جن کی کوئی تدوین شدہ آئین نہ ہو۔ لہٰذا برطانیہ کا آئین زیادہ تر الگ الگ تحریری ذرائع پر مشتمل ہے، بشمول تحریری قانون، منصف ساختہ نظائری قانون اور بین الاقوامی معاہدے، آئینی رواجوں کے ساتھ۔ چونکہ عام تحریری قانون اور آئینی قانون میں کوئی خاص فرق نہیں ہے، برطانوی پارلیمان آئینی اصلاح کر سکتا ہے صرف پارلیمانی قانون جاری کرنے سے اور لہٰذا آئین کی تقریباً کوئی بھی تحریری یا غیر تحریر شدہ عنصر کو منسوخ کرنے کی سیاسی اقتدار رکھتا ہے۔ تاہم کوئی پارلیمان ایسا قانون جاری نہیں کر سکتا جو آئندہ پارلیمان بدل نہ سکیں۔

حکومت ترمیم

برطانیہ کی ویسٹ مِنسٹر نظام پر مبنی پارلیمانی حکومت ہے جس کی دنیا بھر میں تقلید کیا گیا ہے: برطانوی سامراج کا ایک ورثہ۔ برطانیہ کا پارلیمان جو ویسٹمِنسٹر محل میں ملتا ہے اس کے دو ایوان ہیں؛ ایک منتخب ہاؤس آف کامَنز (ایوانِ زیریں) اور مقررہ ہاؤس آف لارڈز (ایوانِ بالا)۔ تمام مسوداتِ قانون جو جاری کیے جاتے ہیں انھیں قانون بنانے سے پہلے شاہی منظوری دی جاتی ہے۔

برطانوی حکومت کے سربراہ، وزیرِ اعظم کا عہدہ وہ رکنِ پارلیمان رکھتا ہے جس کو ہاؤس آف کامنز کے سب سے زیادہ ارکان کی حمایت حاصل ہوتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہاؤس آف کامنز میں جس سیاسی جماعت کو اکثریت حاصل ہو جاتی ہے، برطانوی وزیر اعظم اسی جماعت سے ہی چنا جاتا ہے۔ منتخب وزیر اعظم اس اکثریتی سیاسی جماعت کا سربراہ بھی ہوتا ہے۔ ملک میں وزیر اعظم کا عہدہ خالی ہونے پر بادشاہ ہاؤس آف کامنز میں اکثریتی سیاسی جماعت کے سربراہ کو حکومت بنانے کے لیے کہتا ہے۔ پھر وہ اکثریتی جماعت کا سربراہ ہاؤس آف کامنز سے ووٹ لیتا ہے۔ اس کے بعد وہ بادشاہ سے ملاقات کرتا ہے اور اپنی حکومت کی ترجیحات اور پالیسیوں سے آگاہ کرتا ہے

کابینہ عام طور پر دونوں ایوانوں میں سے وزیرِ اعظم کے جماعت کے ارکان سے چنا جاتا ہے اور زیادہ تر حصہ ہاؤس آف کامنز سے، جسے وہ ذمہ دار ہیں۔ وزیرِ اعظم اور کابینہ عاملانہ اقتدار رکھتے ہیں۔ ہاؤس آف کامنز کے انتخابات کے لیے، برطانیہ 650 حلقۂ انتخابوں میں تقسیم کیا جاتا ہے، جن میں سے ہر ایک ایک ہی رکنِ پارلیمان انتخاب کرتا ہے۔ عام انتخابات فرمانروا مقرر کرتا ہے وزیرِ اعظم کے مشورے پر۔ 1911ء اور 1949ء کے پارلیمانی قانون لازمی بناتے ہیں کہ نئے انتخابات پچھلے والوں کے بعد پانچ سال ختم ہونے سے پہلے مقرر ہوں۔

برطانیہ میں تین سب سے بڑے سیاسی جماعتیں ہیں کنزرویٹو پارٹی، لیبر پارٹی اور لبرل ڈیموکریٹس۔

مذہب ترمیم

عیسائیت کی شکلیں 1,400 سال سے زیادہ عرصے سے برطانیہ کی مذہبی زندگی پر حاوی رہی ہیں۔ اگرچہ شہریوں کی اکثریت اب بھی بہت سے سروے میں عیسائیت کے ساتھ شناخت کرتی ہے، 20ویں صدی کے وسط سے چرچ میں باقاعدگی سے حاضری ڈرامائی طور پر گر گئی ہے، جب کہ امیگریشن اور آبادیاتی تبدیلی نے دیگر عقائد، خاص طور پر اسلام کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس کی وجہ سے کچھ مبصرین نے برطانیہ کو ایک کثیر العقیدہ، سیکولرائزڈ یا بعد از مسیحی معاشرے کے طور پر مختلف انداز میں بیان کیا ہے۔ 2001 کی مردم شماری میں، تمام جواب دہندگان میں سے 71.6 فیصد نے اشارہ کیا کہ وہ عیسائی ہیں، جن میں اگلا سب سے بڑا عقیدہ ہے اسلام (2.8 فیصد)، ہندومت (1.0 فیصد)، سکھ مت (0.6 فیصد)، یہودیت (0.5 فیصد) , بدھ مت (0.3 فیصد) اور دیگر تمام مذاہب (0.3 فیصد)۔ جواب دہندگان میں سے، 15 فیصد نے کہا کہ ان کا کوئی مذہب نہیں ہے اور مزید 7 فیصد نے مذہبی ترجیح بیان نہیں کی۔ 2007 میں ایک ٹیئرفنڈ سروے سے پتہ چلتا ہے کہ دس میں سے صرف ایک برطانوی درحقیقت ہفتہ وار چرچ میں آتا ہے۔ 2001 اور 2011 کی مردم شماری کے درمیان، عیسائی کے طور پر شناخت کرنے والے لوگوں کی تعداد میں 12 فیصد کمی واقع ہوئی، جب کہ ان لوگوں کی فیصد جو کوئی مذہبی وابستگی نہیں بتاتے تھے دگنی ہو گئی۔ یہ دیگر اہم مذہبی گروہوں میں ترقی کے برعکس ہے، مسلمانوں کی تعداد میں سب سے زیادہ فرق سے کل تقریباً 5 فیصد تک اضافہ ہوا۔ مسلمانوں کی آبادی 2001 میں 1.6 ملین سے بڑھ کر 2011 میں 2.7 ملین ہو گئی ہے، جس سے یہ برطانیہ میں دوسرا سب سے بڑا مذہبی گروہ بن گیا ہے۔

حوالہ جات ترمیم

  1.     "صفحہ مملکت متحدہ في خريطة الشارع المفتوحة"۔ OpenStreetMap۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 مارچ 2024ء 

بیرونی روابط ترمیم

حکومتی
عمومی معلومات
سفر