سلیمان بن صُرَد بن الجون خُزاعی (پیدائش 28 ھ بمطابق 594ء وفات 65 ھـ بمطابق 685ء) (عمر 91 سال) جن کا لقب «ابومطرف» تھا کوفہ کے معروف خاندان «بنو خزاعہ» کے سرداروں میں سے تھے۔ توابین کے پانچ لیڈروں کے سربراہ تھے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دور سے شرف یاب تھے اور صحابی تھے بلکہ مدینہ منورہ میں خود آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ہاتھوں مسلمان ہوئے اور ان کا پہلے یسار بن صرد نام تھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ہی نام تبدیل کر کے سلیمان رکھا تھا۔ [1]

سلیمان بن صرد خزاعی
 

معلومات شخصیت
تاریخ پیدائش سنہ 594ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 685ء (90–91 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عراق   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ انقلابی   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عسکری خدمات
لڑائیاں اور جنگیں معرکہ عین الوردہ ،  غزوہ خندق   ویکی ڈیٹا پر (P607) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

نام و نسب

ترمیم

اسلام

ترمیم

فتح مکہ سے پہلے مشرف باسلام ہوئے ،جاہلی نام یسار تھا، آنحضرتﷺ نے بد ل کر سلیمان رکھا،قبولِ اسلام کے بعد صحبت نبوی سے بھی مستفید ہوئے، اسلم وصحب النبی ﷺ ۔

جنگ صفین

ترمیم

حضرت علیؓ کے پرجوش حامیوں میں تھے، جنگ صفین میں انھوں نے بڑے کارنامے دیکھائے ،شامی فوج کے مشہور بہادر حوشب ذی ظلیم کو ان ہی نے مارا تھا، [2] اس جنگ میں سلیمان بہت زخمی ہوئے،لیکن کوئی زخم پشت پر نہ تھا، سب سامنے رخ پر تھے،صلحنامہ کی کتابت کے بعد حضرت علیؓ سے کہا امیر المومنین اگر اس وقت کوئی مدد گار ہوتا تو ہم ہر گز یہ معاہدہ منظور نہ کرتے۔ [3] حضرت علیؓ کی شہادت کے بعد آپ کی اولاد امجاد کے بھی اسی طرح خیر خواہ رہے، حضرت حسنؓ نے صرف چند مہینہ خلافت کرکے چھوڑدی، آپ کی وفات کے بعد جب کوفہ میں حضرت حسینؓ کے حامیوں کی جماعت بنی تو اس کے ایک سرگرم ممبر سلیمان تھے، ان کا گھر حامیان حسین کا مرکز تھا، یہیں سے حضرت حسینؓ کے پاس بلانے کے خطوط جاتے تھے۔ [4] لیکن یہ عجیب اتفاق ہے کہ جب حضرت حسینؓ تشریف لائے تو سلیمان ان کی کوئی مدد نہ کرسکے اور کربلا کا واقعہ ہائلہ پیش آگیا، اس واقعہ پر ان لوگوں کو سخت قلق ہوا،جو آپ کی مدد نہ کرسکے تھے؛چنانچہ سلیمان بن صرو اور ان کے دوسرے ساتھی مسیب بن نجد بہت نادم اور شرمسار ہوئے اورانہوں نے طے کیا کہ حضرت حسینؓ کے خون کا انتقام لے کر گذشتہ فرو گذاشت کی تلافی کرنی چاہیے چنانچہ سلیمان چار ہزار آدمیوں کو لے کر خونِ حسین کے انتقام کے لیے نکلے، یہ جماعت، توابین کہلاتی تھی، اس جماعت نے پہلا پڑاؤ ربیع الاول 60 ھ میں مقام نخیلہ میں کیا یہاں سے قرقییا کے قریب عین الوردہ پہنچے، عین الوردہ میں شامی لشکر کا مقابلہ ہوا سلیمان نہایت بہادری سے لڑے اور حصین بن نمیر تمامی کے ہاتھوں مارے گئے، فرش زمین پر گرتے وقت یہ الفاظ زبان پر تھے، فزت برب الکعبۃ فزت برب الکعبۃ، رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوا، رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوا، اس طرح ابن رسول اللہ کے خون کے انتقام میں جان دیکر گذشتہ غلطی کی تلافی کی اورحسینؓ کی محبت کے جرم میں ان کا سر کاٹ کر مروان بن حکم کے پاس بھیجا گیا [5]مقتول ہونے کے وقت 93 سال کی عمر تھی۔ [6]

عام حالات

ترمیم

سلیمان بن صرو کوفہ میں رہتے تھے،خزیمہ کے محلہ میں مکان تھا، اعزاز وشرف میں ممتاز حیثیت رکھتے تھے، کان لہ سن عالیہ وشرف وقدر وکلمۃ فی قومہ یعنی وہ سن رسیدہ صاحب مرتبہ وشرف اوراپنے قوم میں بااثر تھے، نیکی فضل وکمال اورعبادت وریاضت میں بھی بلند مرتبہ تھے۔ [7]

حوالہ جات

ترمیم
  1. الطبقات الكبرى لابن سعد
  2. (اخبار الطوال:198)
  3. (ایضاً)
  4. (اخبار الطوال:198)
  5. (ابن سعد،جلد4،ق2:30)
  6. (استیعاب:1/572)
  7. (ایضاً)