سورہ الشعرآء

قرآن مجید کی 26 ویں سورت

قرآن مجید کی 26 ویں سورت، جس میں 11 رکوع اور 227 آیات ہیں۔

الشعرآء
دور نزولمکی
زمانۂ نزولمکی زندگی کا دورِ متوسط
اعداد و شمار
عددِ سورت26
عددِ پارہ19
تعداد آیات227
الفاظ1,322
حروف5,517

نام

آیت 224 والشعرآءُ یتبعھم الغاون سے ماخوذ ہے۔

زمانۂ نزول

مضمون اور اندازِ بیاں سے محسوس ہوتا ہے اور روایات اس کی تائید کرتی ہیں کہ اس سورت کا زمانۂ نزول مکہ کا دورِ متوسط ہے۔ ابن عباس رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کا بیان ہے کہ پہلے سورۂ طٰہٰ نازل ہوئی پھر واقعہ اور اس کے بعد الشعرآء۔[1] اور سورۂ طٰہٰ کے متعلق یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ حضرت عمر رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کے قبولِ اسلام سے پہلے نازل ہو چکی تھی۔

موضوع اور مباحث

تقریر کا پس منظر یہ ہے کہ کفار مکہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تبلیغ و تذکیر کا مقابلہ پیہم جحود و انکار سے کر رہے تھے اور اس کے لیے طرح طرح کے بہانے تراشے چلے جاتے تھے۔ کبھی کہتے کہ تم نے ہمیں کوئی نشانی تو دکھائی ہی نہیں، پھر ہمیں کیسے یقین آئے کہ تم نبی ہو۔ کبھی آپ کو شاعر اور کاہن قرار دے کر آپ کی تعلیم و تلقین کو باتوں میں اڑا دینے کی کوشش کرتے۔ اور کبھی یہ کہہ کر آپ کے مشن کا استخفاف کرتے کہ ان کے پیرو یا تو چند نادان نوجوان ہیں یا پھر ہمارے معاشرے کے ادنیٰ طبقات کے لوگ، حالانکہ اگر اس تعلیم میں کوئی جان ہوتی تو اشرافِ قوم اور شیوخ اس کو قبول کرتے۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان لوگوں کو معقول دلائل کے ساتھ ان کے عقائد کی غلطی اور توحید و معاد کی صداقت سمجھانے کی کوشش کرتے کرتے تھکے جاتے تھے، مگر وہ ہٹ دھرمی کی نت نئی صورتیں اختیار کرتے نہ تھکتے تھے۔ یہی چیز آنحضورصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لیے سوہانِ روح بنی ہوئی تھی اور اس غم میں آپ کی جان گھلی جاتی تھی۔

ان حالات میں یہ سورت نازل ہوئی۔ کلام کا آغاز اس طرح ہوتا ہے کہ تم اِن کے پیچھے اپنی جان کیوں گھلاتے ہو؟ ان کے ایمان لانے کی وجہ یہ نہیں ہے کہ انھوں نے کوئی نشانی نہیں دیکھی ہے، بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ہٹ دھرم ہیں، سمجھانے سے نہیں ماننا چاہتے، کسی ایسی نشانی کے طالب ہیں جو زبردستی ان کی گردنیں جھکا دے اور وہ نشانی اپنے وقت پر جب آ جائے گی تو انھیں خود معلوم ہو جائے گا کہ جو بات انھیں سمجھائی جا رہی تھی وہ کیسی بر حق تھی۔ اس تمہید کے بعد دسویں رکوع تک جو مضمون مسلسل بیان ہوا ہے وہ یہ ہے کہ طالبِ حق لوگوں کے لیے تو خدا کی زمین پر ہر طرف نشانیاں ہی نشانیاں پھیلی ہوئی ہیں جنہیں دیکھ کر وہ حقیقت کو پہچان سکتے ہیں، لیکن ہٹ دھرم لوگ کبھی کسی چیز کو دیکھ کر بھی ایمان نہیں لائے ہیں، نہ آفاق کی نشانیاں دیکھ کر اور نہ انبیا کے معجزات دیکھ کر۔ وہ تو ہمیشہ اس وقت تک اپنی ضلالت پر جمے رہے ہیں جب تک کہ خدا کے عذاب نے آ کر ان کو گرفت میں نہیں لے لیا ہے۔ اسی مناسبت سے تاریخ کی سات قوموں کے حالات پیش کیے گئے ہیں جنھوں نے اُسی ہٹ دھرمی سے کام لیا تھا جس سے کفار مکہ کام لے رہے تھے۔ اس اسی تاریخی بیان کے ضمن میں چند باتیں ذہن نشین کرائی گئی ہیں۔

اول یہ کہ نشانیاں دو طرح کی ہیں۔ ایک قسم کی نشانیاں وہ ہیں جو خدا کی زمین پر ہر طرف پھیلی ہوئی ہیں جنہیں دیکھ ہر صاحبِ عقل آدمی تحقیق کر سکتا ہے کہ نبی جس چیز کی طرف بلا رہا ہے وہ حق ہے یا نہیں۔ دوسری قسم کی نشانیاں وہ ہیں جو فرعون اور اس کی قوم نے دیکھیں، قوم نوح نے دیکھیں، عاد اور ثمود نے دیکھیں، قوم لوط اور اصحاب الایکہ نے دیکھیں۔ اب یہ فیصلہ کرنا خود کفار کا اپنا کام ہے کہ وہ کس قسم کی نشانیاں دیکھنا چاہتے ہیں۔

دوم یہ کہ ہر زمانے میں کفار کی ذہنیت ایک سی رہی ہے۔ ان کی حجتیں ایک ہی طرح تھیں۔ ان کے اعتراضات یکساں تھے۔ ایمان نہ لانے کے لیے ان کے حیلے بہانے یکساں تھے۔ اور آخر کار ان کا انجام بھی یکساں رہا۔ اس کے برعکس ہر زمانے میں انبیا کی تعلیم ایک تھی۔ ان کی سیرت و اخلاق کا رنگ ایک تھا۔ اپنے مخالفوں کے مقابلے میں ان کی دلیل و حجت کا انداز ایک تھا۔ اور ان سب کے ساتھ اللہ کی رحمت کا معاملہ بھی ایک تھا۔ یہ دونوں نمونے تاریخ میں موجود ہیں۔ کفار خود دیکھ سکتے ہیں کہ ان کی اپنی تصویر کس نمونے سے ملتی ہے اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات میں کس نمونے کی علامات پائی جاتی ہیں۔

تیسری بات جو بار بار دہرائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ خدا زبردست، قادر و توانا بھی ہے اور رحیم بھی۔ تاریخ میں اس کے قہر کی مثالیں موجود ہیں اور رحمت کی بھی۔ اب یہ بات لوگوں کو خود طے کرنی چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو اس کے رحم کا مستحق بناتے ہیں یا قہر کا۔

آخری رکوع میں اس بحث کو سمیٹتے ہوئے کہا گیا ہے کہ تم لوگ اگر نشانیاں ہی دیکھنا چاہتے ہو تو آخر وہ خوفناک نشانیاں دیکھنے پر کیوں اصرار کرتے ہو جو تباہ شدہ قوموں نے دیکھی ہیں۔ اس قرآن کو دیکھو جو تمھاری اپنی زبان میں ہے، محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دیکھو، ان کے ساتھیوں کو دیکھو، کیا یہ کلام کسی شیطان کا جن کا کلام ہو سکتا ہے؟ کیا اس کلام کا پیش کرنے والا تمھیں کاہن نظر آتا ہے؟ کیا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ان کے اصحاب رضوان اللہ علیہم اجمعین تمھیں ویسے ہی نظر آتے ہیں جیسے شاعر اور ان کے ہم مشرب ہوا کرتے ہیں؟ ضدم ضدا کی بات دوسری ہے، مگر اپنے دل کو ٹٹول کر دیکھو کہ وہ کیا شہادت دیتے ہیں۔ اگر دلوں میں تم خود جانتے ہو کہ کہانت اور شاعری سے اس کا کوئی دور کا واسطہ بھی نہیں ہے تو پھر یہ جان لو کہ تم ظلم کر رہے ہو اور ظالموں کا سا انجام دیکھ کر رہو گے۔

حوالہ جات

  1. روح المعانی جلد 19 صفحہ 64