سونے میں موجود چاندی کو الگ کرنے کو انگریزی میں gold parting کہتے ہیں۔ انسان نے سونے میں سے چاندی الگ کرنے کا فن لگ بھگ 2,600 سال پہلے لیڈیا (ترکی) میں دریافت کر لیا تھا اور سونے کے سکے بنانے شروع کیے۔

لندن کے میوزیم میں رکھا قدرتی سونے کا ٹکڑا جس میں تھوڑی چاندی بھی ملی ہوتی ہے۔

سونا 1064ڈگری سنٹی گریڈ پر پگھلتا ہے۔ جب سونے کو پگھلایا جاتا ہے تو اس میں موجود بہت ساری دھاتیں جیسے زنک اور قلعی وغیرہ ہوا کی آکسیجن سے مل کر آکسائیڈ میں تبدیل ہو جاتی ہیں، جو اوپر تیرنے لگتا ہے اور بآسانی الگ کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اتنی سخت حرارت پر بھی سونا آکسائیڈ بناتا ہے، نہ ہی چاندی۔ یعنی سونے کو جلانے سے کئی دوسری کثافتیں تو الگ ہو جاتی ہیں، مگر چاندی الگ نہیں ہوتی۔ کُپی کے طریقے (کٹھالی کا طریقہ) سے سیسہ بھی الگ کیا جا سکتاہے، مگر چاندی پھر بھی الگ نہیں ہوتی۔

شورے کا تیزاب

ترمیم

شورے کا تیزاب یا نائٹرک ایسڈ چاندی کو اپنے اندر حل کر لیتا ہے، مگر سونے کو حل نہیں کر پاتا۔ اس مقصد کے لیے چاندی ملے سونے کو رولرز کے درمیان سے گزار کر باریک ورق میں تبدیل کر لیا جاتا ہے۔ پھر اسے مرتکز نائٹرک ایسڈ میں ڈال کر گرم کرتے ہیں۔ جب ساری چاندی گھل جاتی ہے تو تیزاب کو چھان کر سونے کا چورا الگ کر لیا جاتا ہے، جسے پگھلا کر دوبارہ ڈلی بنا لی جاتی ہے۔ تیزاب میں سے چاندی کو نکالنے کے لیے اس میں سے بجلی (ڈی سی کرنٹ) گزاری جاتی ہے یا اس میں فیرس سلفیٹ ملایا جاتا ہے۔ سلور نائیٹریٹ کے محلول میں تانبے کی پتری یا نلکی لٹکانے سے بھی چاندی تہ نشین ہو جاتی ہے۔ اس عمل کو سمنٹنگ (cementing) کہتے ہیں۔

شورے کا تیزاب سونے میں سے چاندی بھی الگ کر لیتا ہے اور اس کے ساتھ ہی پلاٹینم اور پلاڈیئم بھی الگ کر لیتا ہے، لیکن رھوڈیئم، اریڈیئم، روتھینیئم اور اوسمیئم اب بھی اسی سونے میں موجود رہ جاتے ہیں۔ عام طور پر سونے میں ان آخری چاروں دھاتوں کی مقدار نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔

نائٹرک ایسڈ کا طریقہ اس وقت زیادہ کارگر ہوتا ہے جب چاندی کی مقدار 75 فیصد سے زیادہ ہو۔ اگر سونے میں چاندی اس سے کم ہے تو ایسے سونے میں کچھ چاندی ملا کر اسے پگھلا لیا جاتا ہے تاکہ بعد میں تیزاب بہتر طریقے سے سونا الگ کر سکے۔ نائٹرک ایسڈ میں بہتر حل کرنے کے لیے ملاوٹ والے سونے میں چاندی ملا کر پگھلانا inquartation کہلاتا ہے۔

اگر سونے سے چاندی الگ کرنے کے لیے نائٹرک ایسڈ کی بجائے گندھک کا تیزاب (سلفیورک ایسڈ) استعمال کیا جائے تو اس عمل کو affination کہتے ہیں۔[1]

Aqua Regia

ترمیم

آکوا ریجیا یعنی آب سلطانی، اس سے مراد وہ تیزاب ہوتا ہے جو سونے کو بھی اپنے اندر حل کر لیتا ہے۔ یہ تیزاب حجم کے لحاظ سے تین حصے نمک کے تیزاب (ہائیڈروکلورک ایسڈ) اور ایک حصہ شورے کے تیزاب (نائیٹرک ایسڈ) کو ملا کر بنایا جاتا ہے اور فوراً ہی استعمال کر لیا جاتا ہے۔ یہ تیزاب سونے، پلاڈیئم اور پلاٹینم کو تو حل کر سکتا ہے مگر ٹائٹینیئم، اریڈیئم، روتھینیئم، ٹینٹیلم، نیوبیئم، اوسمیئم، رھوڈیئم اور ٹنگسٹن کو حل نہیں کر پاتا۔ چاندی اس تیزاب سے عمل کر کے رسوب (precipitate) بناتی ہے اور تہ نشین ہو جاتی ہے۔

اس کے بعد اس تیزاب کو چھان کر چاندی کا رسوب الگ کر لیا جاتا ہے اور پھر اس تیزاب میں کوئی تخفیفی مرکب (reducing agent) بتدریج ملایا جاتا ہے، مثلاً فیرس سلفیٹ، سلفر ڈائی آکسائیڈ گیس یا سوڈیئم بائی سلفائیٹ۔ سلفر ڈائی آکسائیڈ حاصل کرنے کا ایک آسان طریقہ محلول میں Sodium metabisulfite یعنی SMB ملانا ہے۔ اس کو ملانے سے سونا رسوب بن کر نیچے بیٹھ جاتا ہے، جسے چھان کر پگھلا لیا جاتا ہے۔ اس تیزاب میں اگر پلاڈیئم، پلاٹینیئم یا دوسری کوئی دھات موجود بھی ہو تو وہ سونے کے ساتھ رسوب نہیں بناتی اور تیزاب میں ہی رہ جاتی ہے۔ اس طرح 99.99 فیصد خالص سونا حاصل ہو جاتا ہے۔
یہ معلوم کرنے کے لیے کہ کیا تیزاب میں سے سارا سونا باہر آ چکا ہے، اسے قلعی کے کلورائیڈ (stannous chloride) سے جانچا جاتا ہے۔

یہ طریقہ اس وقت زیادہ کارگر ہوتا ہے جب سونے میں چاندی 10 فیصد سے زیادہ نہ ہو۔

حوالہ جات

ترمیم

مزید دیکھیے

ترمیم