ابتدائی کیمیا میں دھاتوں کی عمل پذیری (reactivity series) سے مراد دھاتی عناصر کی ایک ایسی ترتیب ہوتی ہے جس میں سب سے زیادہ عامل دھات سب سے اوپر ہوتی ہے اور سب سے کم عامل دھات سب سے نیچے۔ اس سے مختلف دھاتوں کا پانی اور تیزاب سے تعاملات کو یاد رکھنا آسان ہو جاتا ہے۔ چند دوسرے سادہ کیمیائی تعاملات (chemical reactions) میں بھی یہی ترتیب کارگر رہتی ہے۔

دھاتوں کا کیمیائی برتاو ترمیم

تمام دھاتیں مثبت آیون (positive ion) بناتی ہیں۔ علم کیمیا میں آیون سے مراد ایسے ایٹم ہوتے ہیں جن پر الیکٹرون کی کمی یا زیادتی کی وجہ سے چارج ہو۔ اگر الیکٹرون کی کمی ہوتی ہے تو چارج مثبت ہوتا ہے۔ اگر الیکٹرن کی تعداد بڑھ جائے تو چارج منفی ہوتا ہے۔ زیادہ عامل دھاتیں زیادہ آسانی سے مثبت آیون بناتی ہیں اور کم عامل دھاتیں بڑی مشکل سے مثبت آیون بناتی ہیں۔

دھات دھاتی آیون دھات کی عاملیت دھات کا حصول
سیزیئم Cs+ پانی سے عمل کرتی ہیں پگھلی کچ دھات میں سے بجلی گزار کر دھات حاصل کی جاتی ہے
روبیڈیئم Rb+
پوٹاشیئم K+
سوڈیئم Na+
لیتھیئم Li+
ریڈیئم Ra2+
بیریئم Ba2+
اسٹرونشیئم Sr2+
کیلشیئم Ca2+
میگنیشیئم Mg2+ تیزاب سے عمل کرتی ہیں
ایلومینیئم Al3+
ٹائی ٹینیئم Ti4+ مرتکز تیزاب سے عمل کرتی ہے Pyrometallurgical extraction using میگنیشیم, or less commonly other alkali metals, ہائیڈروجن or کیلشیم in the Kroll process
مینگینیز Mn2+ تیزاب سے عمل کرتی ہیں کچ دھات میں کوک (کاربن) ملا کر گرم کر نے سے دھات حاصل ہوتی ہے۔
جست Zn2+
کرومیئم Cr3+
لوہا Fe2+
کیڈمیئم Cd2+
کوبالٹ Co2+
نکل Ni2+
قلعی Sn2+
سیسہ Pb2+
اینٹیمنی Sb3+ طاقتور تکسیدی تیزاب سے عمل کرتی ہیں کچ دھات گرم کر کے دھات الگ کی جاتی ہے
بسمتھ Bi3+
تانبا Cu2+
ٹنگسٹن W3+
پارہ Hg2+
چاندی Ag+
پلاٹینم Pt2+
سونا Au3+

اس ترتیب میں اوپر سے نیچے کی طرف ترمیم

  • دھاتوں کی عمل پذیری کم ہوتی چلی جاتی ہے۔ سونا اور پلاٹینم بہت ہی کم عامل دھاتیں ہیں جبکہ سوڈیئم اور پوٹاشیئم انتہائی عامل دھاتیں ہیں۔
  • الیکٹرون سے دستبرداری کی صلاحیت کم ہوتی چلی جاتی ہے۔ سوڈیئم اور پوٹاشیئم بڑی آسانی سے الیکٹرون نکال کر مثبت آیون (positive ion) بنا سکتے ہیں لیکن تانبا اتنی آسانی سے نہیں بناتا۔
  • زنگ لگنے یا چمک ماند پڑنے کا رجحان کم ہوتا چلا جاتا ہے۔ بالکل نیچے والی دھاتوں کو تو گرم کرنے پر بھی زنگ نہیں لگتا۔
  • کچ دھات سے دھات حاصل کرنا آسان ہوتا چلا جاتا ہے۔
  • تخفیفی صلاحیت یعنی اپنے الیکٹرون سے دستبردار ہونے کی صلاحیت کم ہوتی چلی جاتی ہے۔

آکسیجن سے تعامل ترمیم

سوڈیئم اور پوٹاشیئم کا شمار عامل ترین دھاتوں میں ہوتا ہے۔ یہ دھاتیں اتنی زیادہ عامل ہیں کہ انھیں ہوا میں نہیں رکھا جا سکتا ورنہ یہ ہوا کی آکسیجن، کاربن ڈائی آکسائیڈ اور نمی سے عمل کر کے مرکبات میں تبدیل ہو جائینگی۔ ہوا سے بچانے کے لیے سوڈیئم، پوٹاشیئم، لیتھیئم وغیرہ کو کیراسین (مٹی کا تیل) میں ڈبو کر رکھا جاتا ہے۔ پوٹاشیئم، سوڈیئم، لیتھیئم، کیلشیئم اور میگنیشیئم ہوا کی آکسیجن سے عمل کرتی ہیں اور ہوا میں جل سکتی ہیں۔
عمل پذیری کی ترتیب میں میگنیشیئم کے نیچے کی دھاتیں یعنی ایلومینیئم سے لے کر تانبے تک، آکسیجن سے عمل تو کرتی ہیں مگر بہت آہستہ۔ اگر ان دھاتوں کو گرم کیا جائے تو آکسیجن سے ان کا عمل تیز ہو جاتا ہے۔ ان میں ایلومینیئم کا آکسیجن سے عمل سب سے تیز ہوتا ہے اور تانبے کا سب سے آہستہ۔
میگنیشیئم کمرے کے درجہ حرارت پر ہوا کی آکسیجن سے عمل نہیں کرتا اور اس لیے اسے کیراسین میں ڈبو کر رکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ مگر جلانے پر میگنیشیئم آگ پکڑ لیتا ہے اور بہت تیز روشنی اور حرارت پیدا کرتا ہے اور میگنیشیئم آکسائیڈ میں تبدیل ہو جاتا ہے۔
زنک کو ہوا میں جلانے کے لیے سخت گرمی کی ضرورت پڑتی ہے۔
لوہے کو ہوا میں سخت گرم کرنے پر بھی یہ نہیں جلتا۔ نم ہوا میں اسے آہستہ آہستہ زنگ لگ جاتا ہے۔ بھٹی میں پگھلے ہوئے لوہے پر کبھی کبھی شعلے لپکتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ زنک یا کسی دوسری کثافت کے بخارات ہوتے ہیں جو آگ پکڑ سکتے ہیں۔
تانبا لوہے سے بھی کم عمل پذیری رکھتا ہے اور گرم کرنے پر بھی نہ جلتا ہے نہ آکسائیڈ بناتا ہے۔ لیکن اگر تانبے کو بہت زیادہ دیر تک بہت تیز حرارت پر رکھا جائے تو اس کے اوپر CuO کی تہ بن جاتی ہے جس کے نیچے Cu2O ہوتا ہے۔
پلاٹینم اور سونا ہوا کی آکسیجن سے بالکل عمل نہیں کرتے۔

پانی سے تعامل ترمیم

اوپر کی دھاتیں جیسے پوٹاشیئم سوڈیئم لیتھیئم اور کیلشیئم ٹھنڈے پانی سے بھی عمل کر کے ہائیڈروجن گیس بناتی ہیں جبکہ تانبا، چاندی اور سونا گرم پانی سے بھی تعامل کر کے ہائیڈروجن نہیں بنا سکتے۔ پوٹاشیئم کا تو پانی سے عمل اتنا تیز ہوتا ہے کہ بننے والی ہائیڈروجن خود بخود جل اٹھتی ہے۔
میگنیشیئم سے لوہے تک کی دھاتیں پانی سے تو عمل نہیں کرتیں مگر بھاپ سے عمل کر کے ہائیڈروجن اور دھاتی آکسائیڈ بناتی ہیں۔ بھاپ سے لوہے کے عمل کے لیے لوہے کو گرم سرخ کرنا پڑتا ہے۔
قلعی، سیسہ، تانبہ، چاندی، سونا اور پلاٹینم نہ پانی سے عمل کرتے ہیں نہ بھاپ سے ۔

تیزاب سے تعامل ترمیم

پوٹاشیئم سوڈیئم لیتھیئم اور کیلشیئم ہلکے گندھک کے تیزاب یا نمک کے تیزاب سے بڑی تیزی سے عمل کر کے ہائیڈروجن گیس خارج کرتی ہیں اور دھاتی نمک (سلفیٹ یا کلورائیڈ) بناتی ہیں۔
میگنیشیئم، ایلومینیئم، زنک، لوہا، قلعی اور سیسہ بھی، لیکن ذرا آہستہ، یہی عمل کرتے ہیں۔ ان میں بھی میگنیشیئم سب سے تیز اور سیسہ سب سے سست رفتار ہے۔
تانبہ، چاندی، پلاٹینم اور سونا ان ہلکے تیزابوں سے عمل نہیں کرسکتے کیونکہ ان کی فعالیت ہائیڈروجن سے کم ہے اس لیے وہ تیزاب میں موجود ہائیڈروجن کو بے دخل نہیں کر پاتے۔ لیکن یہ دھاتیں طاقتور تکسیدی (oxidizing) تیزابوں سے عمل کر سکتی ہیں جیسے مرتکز گندھک کا تیزاب (concentrated sulfuric acid) یا شورے کا تیزاب (nitric acid)۔
دھاتیں عام طور پر ہلکے تیزاب سے کچھ اس طرح عمل کرتی ہیں۔

  • نمک کے تیزاب (ہائیڈروکلورک ایسڈ) سے دھاتی کلورائیڈ اور ہائیڈروجن بنتے ہیں۔
  • گندھک کے تیزاب (سلفیورک ایسڈ) سے دھاتی سلفیٹ اور ہائیڈروجن بنتے ہیں۔
  • شورے کے تیزاب (نائیٹرک ایسڈ) سے دھاتی نائیٹریٹ تو بنتا ہے مگر ہائیڈروجن کی بجائے نائیٹروجن کے آکسائیڈ بنتے ہیں۔[1]

بے دخلی (displacement reaction) ترمیم

عمل پذیری کی اس ترتیب میں اوپر کی زیادہ عامل دھاتیں نیچے کی کم عامل دھاتوں کو ان کے مرکبات میں سے بے دخل کر سکتی ہیں۔

 
نیلا تھوتھا (کاپر سلفیٹ)۔ اس خشک کاپر سلفیٹ میں لگ بھگ 25 فیصد تانبا اور 36 فیصد پانی ہوتا ہے۔

اگر نیلے تھوتھے (کاپر سلفیٹ) کے آبی محلول میں لوہے کی کیل آدھی ڈبو دی جائے تو کچھ ہی منٹوں میں محلول کا رنگ خود بخود بدل جاتا ہے یعنی نیلے سے ہرا ہو جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دھاتوں کی عمل پذیری کی اس ترتیب میں لوہا اوپر ہے اور تانبا نیچے۔ اس لیے تانبے کے آیون محلول چھوڑ کر لوہے پر جم جاتے ہیں اور ان کی جگہ لوہے کے ایٹم آیون بن کر محلول میں اتر جاتے ہیں۔ تانبے کے آیون نیلے ہوتے ہیں اور لوہے کے سبز۔ اس طرح کیل کا وہ حصہ جو محلول میں ڈوبا ہوا تھا اس پر تانبے کی پرت خود بخود چڑھ جاتی ہے کیونکہ زیادہ عامل لوہے نے کم عاملیت والے تانبے کو محلول سے بے دخل کر دیا۔ اگر اس عمل کو الٹی سمت میں لے جانا ہے تو یہ خود بخود نہیں ہو سکتا۔ اس عمل کو الٹا چلانے کے لیے محلول میں سے بجلی گزارنی پڑے گی اور کیل پر بیٹری کا مثبت (پوزیٹیو) سرا کسی تار سے جوڑنا پڑے گا۔

Fe (s) + CuSO4 (aq) → Cu (s) + FeSO4 (aq)

تانبا لوہے کے سلفیٹ میں سے لوہے کو تو بے دخل نہیں کر سکتا مگر چاندی کے نائیٹریٹ میں سے چاندی کو بے دخل کر سکتا ہے کیونکہ تانبے کی عاملیت لوہے سے کم مگر چاندی سے زیادہ ہے۔ چاندی کے نائیٹریٹ کے محلول میں تانبے کی پٹی ڈبونے سے چاندی کا تہ نشین ہونا اور تانبے کا گل جانا سیمنٹنگ (cementing) کہلاتا ہے۔ اگر چاندی کے محلول میں سیسے کا کوئی مرکب بھی حل شدہ حالت میں موجود ہو تو بھی محلول میں سے صرف چاندی تہ نشین ہو گی اور سیسہ محلول میں ہی رہ جائے گا کیونکہ تانبا سیسے کو بے دخل نہیں کر سکتا۔[2] اگر نیلے تھوتھے کے محلول کا ایک قطرہ زنک، لوہے یا قلعئی پر ڈالا جائے تو ان پر دھبہ پڑ جاتا ہے مگر تانبے چاندی اور سونے پر نیلے تھوتھے کے محلول سے دھبہ نہیں پڑتا۔

سوڈیئم اور پوٹاشیئم کے مرکبات میں سے سوڈیئم اور پوٹاشیئم الگ کرنے کے لیے ایلومینیئم یا کاربن کو استعمال نہیں کیا جا سکتا کیونکہ سوڈیئم اور پوٹاشیئم کی عاملیت ایلومینیئم اور کاربن کی عاملیت سے کہیں زیادہ ہے۔

تھرمائیٹ ری ایکشن ترمیم

 
ٹوٹی ہوئی ریلوے لائن کی تھرمائیٹ ویلڈنگ کے ذریعے مرمت کی جا رہی ہے۔

ایلومینیئم اس عمل پذیری کی ترتیب میں کرومیئم، مینگنیز اور لوہے سے اوپر ہے یعنی ایلومینیئم کی فعالیت ان تینوں دھاتوں سے زیادہ ہے۔ اگر کرومیئم، مینگنیز اور لوہے کی آکسائیڈ کچ دھات کو ایلومینیئم کے سفوف (پاوڈر) کے ساتھ ملا کر گرم کریں تو ایلومینیئم زیادہ فعال ہونے کی وجہ سے کرومیئم، مینگنیز اور لوہے سے آکسیجن کھینچ نکالتا ہے۔ اس طرح دھاتی ایلومینیئم خود تو آکسائیڈ میں تبدیل ہو جاتا ہے اور کرومیئم، مینگنیز اور لوہا اپنے آکسائیڈ سے بے دخل ہو کر دھاتی شکل میں باہر آجاتے ہیں۔ اس لیے اس طریقے (thermite process) کو بعض کچ دھاتوں سے دھات کے حصول کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس عمل میں بڑی حرارت خارج ہوتی ہے۔ کبھی کبھی اس طریقے سے ٹوٹی ہوئی ریل کی پٹریوں کی ویلڈنگ کی جاتی ہے۔[3]
ایلومینیئم کی عمل پذیری کاربن سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ ایلومینیئم پاوڈر راکٹ کے ایندھن میں استعمال ہوتا ہے۔

زنگ ترمیم

 
زنگ سے بچانے کے لیے لوہے کی جستی چادر جسے انگریزی میں گیلوانائزڈ شیٹ کہتے ہیں۔ اس پر زنک کے کرسٹل بننے سے مخصوص ڈیزائن بن جاتا ہے۔

چونکہ ایلومینیئم لوہے سے بہت زیادہ عاملیت رکھتا ہے اس لیے ایلومینئم پر تو بڑی تیزی سے زنگ لگنا چاہیے۔ مگر یہ عام مشاہدہ ہے کہ بظاہر ایلومینئم کو زنگ نہیں لگتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ لوہے کے زنگ (یعنی آکسائیڈ) کا رنگ لوہے سے بہت مختلف ہوتا ہے اور بآسانی نظر آ جاتا ہے۔ اس کے علاوہ لوہا زنگ لگنے سے پھیلتا ہے جس کی وجہ سے اس کی پپڑیاں جھڑنے لگتی ہیں۔ جب سطح کا لوہا پپڑی بن کر جھڑ جاتا ہے تو گہرائی کے لوہے میں بھی زنگ لگنا شروع ہو جاتا ہے۔ اس کے برعکس ایلومینیئم زنگ لگنے سے نہیں پھیلتا اور نہ ہی اس سے کوئی پپڑی جھڑتی ہے۔ ایلومینئیم آکسیجن سے فوراً عمل تو کر لیتا ہے مگر ایلومینیئم آکسائیڈ کی یہ انتہائی باریک سی تہ ایک سخت ڈھال کی طرح کام کرتی ہے جس میں سے آکسیجن نہیں گذر سکتی۔ اس طرح ڈھال کے نیچے کے ایٹم اب آکسیجن کے عمل سے محفوظ ہو جاتے ہیں۔ اگر رگڑ لگنے سے یہ ڈھال ٹوٹ بھی جائے تو فوراً ہی دوبارہ بن جاتی ہے۔ ایلومینئم آکسائیڈ کا رنگ بھی ایلومینیئم ہی جیسا ہوتا ہے اس لیے ایلومینیئم کا زنگ نظر بھی نہیں آتا۔ بے انتہا باریک ہونے کی وجہ سے یہ ڈھال بجلی کے بہاوْ میں کوئی بڑی رکاوٹ نہیں بنتی۔ اس ڈھال یا passivation layer کی موٹائی صرف 4 نینو میٹر ہوتی ہے۔ اینوڈائزڈ ایلومینیئم (anodized aluminium) میں یہ ڈھال موٹی ہوتی ہے اور بجلی کی راہ میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔
ایلومینیئم کی طرح نکل اور کرومیئم پر بھی آکسائیڈ کی تہ بن جاتی ہے جو بقیہ ایٹموں کو آکسیجن کی پہنچ سے دور کر دیتی ہے۔ اسٹین لیس اسٹیل میں بڑی مقدار میں نکل اور کرومیئم موجود ہوتا ہے جو اسے زنگ سے بچاتا ہے۔[4]

زنگ سے بچانے کے لیے لوہے پر رنگ کر دیا جاتا ہے یا زنک (جست) یا قلعی (Tin) کی تہ چڑھا دی جاتی ہے تاکہ ہوا کی آکسیجن لوہے تک نہ پہنچ پائے۔

الیکڑوکیمیکل سیریز ترمیم

دھاتوں کی عمل پذیری کی ترتیب بہت معمولی ردو بدل کے بعد یہ الیکڑو کیمیکل سیریز (electrochemical series) بن جاتی ہے۔

Li> K> Sr> Na> Ca> Mg> Al> Zn> Cr> Fe> Cd> Co> Ni> Sn> Pb> H> Cu> Ag> Hg> Pt> Au

مزید دیکھیے ترمیم

حوالے ترمیم

  1. "Chemical Properties of Metals, Metals and Non-metals, Science Help, Online Science Tutoring | Tutorvista.com"۔ 16 دسمبر 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 04 اپریل 2014 
  2. Displacement from solution
  3. Shooting a Thermite Weld on the Railroad from Start to Finish
  4. "Why does stainless steel remain stainless?"۔ 01 فروری 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 فروری 2016