سویٹزر لینڈ میں میناروں پر پابندی

سوئٹزرلینڈ کے مذہبی انتہا پسندوں کی طرف سے مسلمانوں کی مساجد میں مینار تعمیر کرنے کی مخالفت تحریک شروع کی گئی جسے سوئس قوم کی اکثریت کی حمایت حاصل ہو گئی۔

تُرک ثقافتی انجمن کی مسجد کا مینار جس پر سب سے پہلے مخالفت شروع ہوئی۔

تاریخ

ترمیم

سوئٹزرلیند میں قریبا 3 لاکھ دس ہزار مسلمان آباد ہیں جو 160 مساجد یا سینٹر نمازوں کو ادائیگی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔[1] لیکن باقاعدہ مسجد کے طور پر سارے ملک میں صرف 3 مساجد ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے سوئٹزرلینڈ میں مساجد کے میناروں کے متعلق ایک ریفرنڈم کرایا گیا جس میں حصہ لینے والوں کی اکثریت نے ملک میں میناروں پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا۔ اس معاملے کا آغاز سن 2007 میں اس وقت ہوا جب مختلف مسلمان تنظیموں نے سوئٹزرلینڈ کے تین مختلف شہروں میں میناروں کی تعمیر کی اجازت مانگی نیز سارے یورپ کے مسلمانوں کے لیے برن شہر میں ایک عالیشان سنٹر بنانے کا منصوبہ پیش کیا۔ جب عوام کے سامنے یہ منصوبے آئے تو کچھ لوگوں نے میناروں کی تعمیر کی مخالفت شروع کر دی۔ چنانچہ یکم مئی 2007 کو میناروں کی تعمیر کے خلاف ایک تحریک کا آغاز ہوا اور 29 جولائی 2008 تک اس تحریک کے حق میں ایک لاکھ سے زائد لوگوں کے دستخط اکٹھے کر لیے گئے تھے۔[2] جس کے بعد سوئس قانون کے مطابق اس موضوع پر ایک ریفرنڈم کرانا ضروری ہو گیا۔ یہ ریفرنڈم 92 نومبر 9002 کو منعقد کیا گیا۔

نتائج

ترمیم

تمام اندازوں کے برخلاف 5.57 فی صد لوگوں اور سوئٹزرلینڈ کے 23 میں سے ساڑھے 19 کینٹونز نے میناروں کی ممانعت کے حق میں ووٹ دیا ۔[3] سوئٹزرلینڈ کے قانون کے مطابق ایسے ریفرنڈم کو قانون کا حصہ بنانا ضروری ہے لیکن اس قانون کے سوئٹزرلینڈ کے دستور، جس میں آزادی مذہب کی ضمانت دی گئی ہے، کے ساتھ تضاد میں ہونے کی بنا پر بعض مسلمان تنظیموں نے سوئس سپریم کورٹ اور اسی طرح یورپین عدالت برائے انسانی حقوق میں اس کے خلاف اپیل کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ اس کا نتیجہ کیا نکلے گا؟ اس کے متعلق ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا۔

دلائل

ترمیم

میناروں کی تعمیر کے خلاف تحریک چلانے والے اپنے نقطہ نظر کے حق میں یہ دلیل دیتے ہیں کہ وہ مساجد کی تعمیر کے خلاف نہیں بلکہ صرف میناروں کی تعمیر کے خلاف ہیں نیز ان کا کہنا ہے کہ مینار مساجد کا ضروری حصہ نہیں[4] نیز یہ کہ مینار کے بغیر بھی مساجد تعمیر اور اسلام پر عمل کیا جا سکتا ہے [5] اور قرآن نیز دوسری اسلامی مقد س کتب میں میناروں کی ضرورت کا کوئی ذکر موجود نہیں۔ اسی طرح ان کا کہنا ہے کہ مینار دراصل اسلام کی مذہبی و سیاسی طاقت کا نشان ہیں اور اس لیے ان کی تعمیر کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ اس ضمن میں ترکی کے وزیر اعظم کی ایک تقریر کا بھی حوالہ دیا جاتا ہے جس میں انھوں نے ایک نظم پڑھی تھی جس میں یہ کہا گیا ہے کہ ”مساجد ہماری بیرکس اور گنبد ہمارے ہیلمٹ اور مینار ہماری سنگینیں ہیں“۔ اس سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ میناروں کی تعمیر صرف ایک سیاسی چیز ہے۔

اس کے مقابل پر سوئس مسلمانوں اور ان کے وکلاءکا کہنا ہے کہ 70 ہجری ہی سے مساجد کے ساتھ مینار تعمیر کیے جا رہے ہیں اور 1500 سال سے یہ مساجد کا ایک ضروری حصہ بن چکے ہیں [5] ان کا سیاسی طاقت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ دوسرے یہ کہ کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ فیصلہ کرے کہ مساجد میں کیا چیز شامل ہے اور کیا نہیں یہ فیصلہ صرف مسلمان ہی خود کر سکتے ہیں۔ تیسرے یہ کہ مسلمان لمبے عرصہ سے یہاں رہ رہے ہیں اور ان کی آئندہ نسلیں بھی یہیں رہیں گی۔ اس لیے آزادی مذہب کے اصول کے مطابق ان کو یہاں اپنی خواہشات کے مطابق مساجد تعمیر کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔

اشتہاری مہم

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. Bundesamt für Statistik, Volkszählung 2000
  2. Bundesamt für Justiz (Schweiz)، Volksinitiative «Gegen den Bau von Minaretten» آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ bj.admin.ch (Error: unknown archive URL)
  3. Minaret result seen as "turning point"۔ آرکائیو شدہ 2012-06-30 بذریعہ archive.today swissinfo, 29 نومبر 2009. Accessed 29 نومبر 2009
  4. Kath.net, Pierre Bürcher, Weihbischof von Lausanne, Genf und Freiburg und Präsident der „Arbeitsgruppe Islam“ der Schweizer Bischofskonferenz آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ kath.net (Error: unknown archive URL)، 3. Mai 2007.
  5. ^ ا ب Der Bund, Im Wahljahr gegen Minarette، 2. Mai 2007 (pdf)۔

=