سيد فيض الكريم
سید فیض الکریم (پیدائش: 10 جنوری 1973ء) ایک بنگلہ دیشی اسلامی عالم، سیاست دان اور ماہر تعلیم ہیں۔ حامیوں ميں انھیں شیخ چرمونائی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ وہ اس وقت اسلامی تحریک بنگلہ دیش کے سینئر نائب امیر کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ وہ بنگلہ دیش مجاہد کمیٹی اور بنگلہ دیش قرآن تعلیمی بورڈ کے نائب صدر اور بے وفاق المدارس العربيہ بنگلہ دیش کے مرکزی رکن بھی ہیں۔ طالب علمی کے دور میں انھوں نے اسلامی طلبہ تحریک کے مرکزی صدر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ 2020 ء میں بنگلہ دیش کے مجسمہ سازی کی بحث میں ان پر وسیع پیمانے پر بحث ہوئی۔
مولانا سید فیض الکریم | |
---|---|
সৈয়দ ফয়জুল করিম | |
فیض الکریم کی تصویر | |
سینیر نائب امیر، اسلامی تحریک بنگلہ دیش | |
دیگر نام | شیخ چرمونائی |
ذاتی | |
پیدائش | چرمونائی، باریسال | 10 جنوری 1973
مذہب | اسلام |
قومیت | بنگلہ دیشی |
والدین |
|
فرقہ | سنی |
فقہی مسلک | حنفی |
تحریک | دیوبندی |
سیاسی جماعت | اسلامی تحریک بنگلہ دیش |
بنیادی دلچسپی | حدیث، سیاست |
دیگر نام | شیخ چرمونائی |
مرتبہ | |
استاذ | احمد شفیع |
تعلیم
ترمیمفیض الکریم 10 جنوری 1973 کو ضلع باریسال کے چرمونائی گاؤں میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام سید فضل الکریم اور دادا کا نام ہے سید اسحاق۔ اس کے کل ٦ بھائی اور ١ بہن ہیں۔ انھوں نے اپنی تعلیم کا آغاز چرمونائی جامعہ راشدیہ اسلامیہ اسلامیہ سے کیا۔ انھوں نے 1990 میں نصاب عالیہ سے فارغ ہوئے۔ لیکن انھوں نے عالیہ کے ساتھ ساتھ مدارس قومیہ کے کلاسوں میں بھی شراکت لیا کرتے تھے۔ اس کے بعد انھوں نے باریسال کے ساگردی اسلامیہ کامل مدرسہ سے فقہ اور حدیث میں پہلی تقسیم پاس کی
۔آپ نے کچھ عرصہ جامعہ اسلامیہ دار العلوم مدنیہ سے تعلیم حاصل کی۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد آپ نے چرمونائی جامعہ راشدیہ اسلامیہ کے عالیہ نصاب میں بطور استاد شمولیت اختیار کی۔ بعد میں وہ طویل عرصے تک عالیہ اور قومی دونوں نصابوں کے نائب مہتمم رہے۔ 25 نومبر 2006ء کو اپنے والد کی وفات کے بعد انھوں نے اسلامی تحریک بنگلہ دیش اور بنگلہ دیش مجاہد کمیٹی میں مختلف عہدوں پر خدمات انجام دیں۔ طالب علمی کے زمانے سے ہی وہ اسلامی طالب علم تحریک سے وابستہ ہیں۔ بعد میں انھوں نے اس کی مرکزی کمیٹی کے چیئرمین کے طور پر خدمات انجام دیں۔ [1]
تنقید
ترمیم2016 میں ڈھاکہ یونیورسٹی کے بارے میں ان کے ایک بیان پر کافی تنازع پیدا ہوا تھا۔ انھوں نے دعوی کیا کہ ہندوؤں کی مخالفت کی وجہ سے 1911 میں ڈھاکہ یونیورسٹی قائم نہیں کی جا سکی۔ 1921ء میں ایک مسلمان شخص خواجہ سلیم اللہ کی تجویز پر یہ یونیورسٹی کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔ تو یہ ایک مسلم یونیورسٹی ہے اور وہاں کوئی ملحد نہیں ہو سکتا۔نصاب کے بارے میں انھوں نے کہا کہ "جس نصاب میں محمد نہیں ہوگی، ان کے سوانح حیات نہیں ہوگی، عمر کی کوئی سوانح حیات نہیں ہوگی، جہاں اتنے بڑے بڑے لوگوں کی سوانح عمریاں نہیں ہوں گی- بنگلہ دیش میں ایسی نصاب کتاب نہیں پڑھائی جا سکتی اور نہ اسے پڑھنے کی اجازت ہوگی۔"[2]
شیخ مجیب کا مجسمہ
ترمیم13 نومبر 2020 کو انھوں نے جترباری کے گینڈریا میں شیخ مجیب الرحمٰن کے زیر تعمیر مجسمے کی مخالفت میں ایک بیان دیا۔ بعد میں اس سے قومی بحث ہوئی۔ اپنی تقریر میں انھوں نے کہا کہ ہم تحریک لڑیں گے، لڑیں گے، لڑیں گے۔ میں خون نہیں دینا چاہتا، اگر دینا شروع کیا تب یہ نہیں رکے گا۔ اگر روس کے لوگ لینن کے 72 فٹ کے مجسمے کو کرین سے اٹھا کر سمندر میں پھینک سکتے ہیں تو شیخ صاحب کا مجسمہ آج یا کل اٹھا کر بوری گنگا میں پھینک دیا جائے گا۔ کئی رد عمل کے بعد ان کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کیا گیا اور پی بی آئی نے اس کیس کی تحقیقات اپنے ذمہ لے لیں۔[3][4]
مزید دیکھیے
ترمیممراجع
ترمیم- ↑ عوامی کمیشن (فروری 2022)۔ الورق الابیض: بنگلہ دیش میں بنیاد پرست فرقہ وارانہ دہشت گردی کے 2000 دن۔۔ مہاخالی، ڈھاکہ 1212: بنیاد پرست اور فرقہ وارانہ دہشت گردی کی تحقیقات کے لیے عوامی کمیشن۔ صفحہ: 800–801
- ↑ "ঢাকা বিশ্ববিদ্যালয় নিয়ে চরমোনাই পীরের ভাইয়ের বিতর্কিত মন্তব্য" [چرمونائی پیر کے بھائی کا ڈھاکہ یونیورسٹی کے بارے میں متنازعہ بیان]۔ amp.dw.com (بزبان بنگالی)۔ ڈیچ ویلے۔ 13 January 2027۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 مئی 2022
- ↑ "বঙ্গবন্ধুর ভাস্কর্যের বিরোধিতা : মামুনুল-বাবু নগরীর মামলায় প্রতিবেদন ৩ মার্চ" (بزبان بنگالی)۔ Dainik Amader Samay۔ 3 February 2021۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 مئی 2022
- ↑ "ইসলামে ভাস্কর্য ও মূর্তি উভয়ই নিষিদ্ধ মুফতি ফয়জুল করীম"۔ Jugantar۔ 28 November 2021۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 مئی 2022