شیخ مجیب الرحمٰن
بنگ بندھو یا شیخ مجیب الرحمٰن (پیدائش: 17 مارچ 1920ء، انتقال: 15 اگست 1975ء) مشرقی پاکستان کے بنگالی رہنما اور بنگلہ دیش کے بانی تھے۔
شیخ مجیب الرحمٰن | |||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|
(بنگالی میں: শেখ মুজিবুর রহমান) | |||||||
پہلا صدر بنگلہ دیش | |||||||
مدت منصب 11 اپریل 1971 – 12 جنوری 1972 | |||||||
وزیر اعظم | تاج الدین احمد | ||||||
| |||||||
دوسرا وزیر اعظم بنگلا دیش | |||||||
مدت منصب 12 جنوری 1972 – 24 جنوری 1975 | |||||||
صدر | ابو سعید چودھری محمد محمد اللہ | ||||||
| |||||||
چوتھا صدر بنگلہ دیش | |||||||
مدت منصب 25 جنوری 1975 – 15 اگست 1975 | |||||||
وزیر اعظم | محمد منصور علی | ||||||
| |||||||
معلومات شخصیت | |||||||
پیدائش | 17 مارچ 1920ء [1][2][3][4][5][6][7] تنگی پورہ ذیلی ضلع |
||||||
وفات | 15 اگست 1975ء (55 سال)[1][3][4][5][6][7][8] ڈھاکہ |
||||||
وجہ وفات | شوٹ | ||||||
مدفن | ڈھاکہ | ||||||
طرز وفات | قتل | ||||||
شہریت | برطانوی ہند پاکستان عوامی جمہوریہ بنگلہ دیش |
||||||
نسل | بنگالی | ||||||
مذہب | اسلام | ||||||
جماعت | بنگلہ دیش عوامی لیگ | ||||||
زوجہ | شیخ فضیلت النساء | ||||||
اولاد | حسینہ واجد شیخ ریحانہ شیخ کمال شیخ جمال Sheikh Rasel |
||||||
عملی زندگی | |||||||
مادر علمی | مولانا آزاد کالج کلکتہ جامعہ کلکتہ |
||||||
پیشہ | سیاست دان ، مصنف | ||||||
مادری زبان | بنگلہ | ||||||
پیشہ ورانہ زبان | بنگلہ | ||||||
اعزازات | |||||||
دستخط | |||||||
IMDB پر صفحات | |||||||
درستی - ترمیم |
ابتدائی زندگی
ترمیمشیخ مجیب الرحمٰن 17 مارچ 1920ء کو ضلع فرید پور میں پیدا ہوئے۔ 1947ء میں اسلامیہ کالج کلکتہ سے تاریخ اور علم سیاسیات میں بی-اے کیا۔ طالب علمی ہی کے زمانے سے انھوں نے سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کر دیا تھا۔ 1943ء سے 1947ء تک وہ کل ہند مسلم لیگ کی کونسل کے رکن رہے۔ 1945ء تا 1946ء وہ اسلامیہ کالج کے طلبہ کی یونین کے جنرل سیکرٹری رہے۔ 1946ء میں بنگال اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ 1947ء میں پاکستان بننے کے فوراً بعد مسلم لیگ سے مستعفی ہو کر پاکستان مسلم اسٹوڈنٹس لیگ قائم کر کے اردو کی مخالفت کرنا اس بات کو ظاہر کر دیتا ہے کہ شیخ مجیب شروع ہی سے مسلم قومیت کی بجائے بنگالی قومیت کے علمبردار تھے اور انھوں نے مسلم لیگ کے بہت سے دوسرے رہنماؤں کی طرح مسلم لیگ کا ساتھ محض اس لیے دیا کہ وہ اس زمانے میں مقبول تحریک تھی۔ اور اس میں شامل ہو کر اقتدار حاصل کیا جا سکتا تھا۔
عوامی لیگ
ترمیم1952ء میں جب حسین شہید سہروردی نے عوامی لیگ قائم کی تو مجیب الرحمن نے اس کی تشکیل میں حصہ لیا۔ 1953ء میں وہ عوامی لیگ کے جنرل سیکرٹری ہو گئے اور مارچ 1954ء کے انتخابات میں وہ جگتو فرنٹ کے امیدوار کی حیثیت سے مشرقی پاکستان کی صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ 1956ء میں آئین کی تیاری میں انھوں نے حصہ لیا لیکن اس آئین میں صوبائی خود مختاری کی جو حدود مقرر کی گئی تھیں مجیب الرحمن اس سے متفق نہیں تھے۔ 1952ء میں انھوں نے عالمی امن کانفرنس، پیکنگ میں اور 1956ء میں عالمی امن کانفرنس، اسٹاک ہوم میں شرکت کی۔ اسی سال کے آخر میں وہ پارلیمانی وفد کے سربراہ کی حیثیت سے اشتراکی چین بھی گئے۔ فروری 1966ء میں انھوں نے پہلی مرتبہ نیشنل کانفرنس لاہور کے اجلاس میں چھ نکات پیش کیے۔
چھ نکات
ترمیممجیب کے مشہور زمانہ چھ نکات جن کی بنیاد پر اس نے الیکشن لڑا تھا
- 1۔قرارداد لاہور کے مطابق آئین کو حقیقی معنوں میں ایک فیڈریشن کی ضمانت دیتے ہوئے بالغ رائے دہی کی بنیاد پر منتخب مقننہ کی بالا دستی اور پارلیمانی طرز حکومت پر مبنی ہونا چاہیے۔
- 2۔وفاقی حکومت صرف دو محکمے یعنی دفاع اور امور خارجہ اپنے پاس رکھے گی ، جب کہ دیگر محکمے وفاق کی تشکیل کرنے والی وحدتوں میں تقسیم کر دیے جائیں گے ۔
- 3۔
- (الف) ملک کے دونوں بازوئوں میں دو علاحدہ مگر باہمی طور پر تبدیل ہو جانے والی کرنسی متعارف کرائی جائے… یا
- (ب) پورے ملک کے لیے ایک ہی کرنسی رائج کی جائے ، تا ہم اس کے لیے موثر آئینی دفعات کی تشکیل ضروری ہے تا کہ مشرقی پاکستان سے مغربی پاکستان کو رقو مات کی ترسیل روکی جا سکے ۔ مشرقی پاکستان کے لیے علاحدہ بینکنگ ریز روز قائم اور الگ مالیاتی پالیسی اختیار کی جائے ۔
- 4۔محاصل اور ٹیکسوں کی وصولی کے اختیار کو وفاق کی وحدتوں کے پاس رکھا جا ئے ۔ مرکز کے پاس ایسا کوئی اختیار نہیں ہونا چاہیے تا ہم فیڈریشن وفاقی وحدتوں کے ٹیکسوں میں حصے دار ہو گی تا کہ وہ اپنی ضروریات پور ی کر سکے ۔ ایسے وفاقی فنڈز پورے ملک سے جمع ہونے والے ٹیکسوں کے طے شدہ فیصد تناسب پر مشتمل ہوں گے ۔
- 5۔
- (الف) دونوں بازوئوں میں زر مبادلہ کی آمدنی کے لیے دو علاحدہ اکائونٹس ہونے چاہیں اور
- (ب) مشرقی پاکستان کی آمدنی کومشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کی آمدنی کو مغربی پاکستان کے کنٹرول میں ہونا چاہیے۔
- (ج) مرکز کی زر مبادلہ کی ضروریات ، دونوں بازوئوں کو مساوی طور پر یا کسی طے شدہ تناسب کے مطابق پوری کرنا ہوں گی ۔
- (د)ملکی مصنوعات کی دونوں بازوئوں کے درمیان میں آزادانہ نقل و حمل پر کوئی ڈیوٹی عائد نہیں کی جائے گی۔
- (ہ)آئین کی رو سے وفاقی وحدتوں کو یہ اختیارات حاصل ہوں گے کہ وہ غیر ممالک میںتجارتی مشن کے قیام کے ساتھ تجارتی معاہدے نیز تجارتی تعلقات قائم کرسکیں۔
- 6۔مشرقی پاکستان کے لیے ملیشیا یا ملٹری فورس کا قیام ۔
مجیب نے ٹرین کے ذریعے مغربی پاکستان کے شہروں کا دورہ کیا۔ مغربی پاکستانی ہجوم نے "شیخ صاحب زندہ باد" کے نعروں سے ان کا استقبال کیا۔ کوئٹہ، بلوچستان میں لوگوں کی بڑی تعداد نے ان کا استقبال کیا۔ انھوں نے مغربی پاکستانی ہجوم سے اردو کے بھاری بنگالی لہجے میں بات کی، چھ نکاتی اور ہم چھوئے دوفا مانگتا سب کے لیے بات کی۔
بنگلہ دیش کا قیام
ترمیممجیب الرحمن اپنی انتہا پسندانہ سرگرمیوں کی وجہ سے کئی مرتبہ گرفتار کیے گئے۔ 1949ء میں ان کو ڈھاکہ یونیورسٹی سے نکال دیا گیا تھا اور وہ تین سال جیل میں رہے۔ اس کے بعد 1958ء اور 1959ء میں ایوب خان کے دور اقتدار میں رہے، پھر اگرتلہ سازش کے الزام میں مئی 1966ء میں گرفتار ہوئے، لیکن فروری 1969ء میں گول میز کانفرنس میں شرکت کے لیے بعض سیاسی رہنماؤں (جن میں ذوالفقار علی بھٹو پیش پیش تھے) کے دباؤ ڈالنے پر ان کو رہا کر دیا گیا اور مقدمہ واپس لے لیا گیا۔ دسمبر 1970ء میں جب پاکستان کے عام انتخابات ہوئے تو شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ نے بے مثال کامیابی حاصل کر کے مشرقی پاکستان کی نمائندگی کا آئینی حق حاصل کر لیا اور پاکستان کا نیا آئین چھ نکات کی بنیاد پر بنانے کا اعلان کیا جب صدر یحییٰ خان نے دستور ساز اسمبلی کا اجلاس طلب نہیں کیا تو مارچ 1971ء میں مجیب الرحمن نے عدم تعاون کی تحریک شروع کر دی جس کی وجہ سے 25 مارچ 1971ء کو فوج نے ان کو گرفتار کر لیا اور مشرقی پاکستان میں فوجی کارروائی شروع کر دی۔ دسمبر 1971ء میں جب یہ کارروائی ناکام ہو گئی اور ڈھاکہ میں پاکستانی فوجیوں نے مجیب الرحمن کی حمایت میں لڑنے والے بھارتی فوجوں کے سامنے ہتھیار ڈال دیے تو 8 جنوری 1972ء کو مجیب الرحمن کو رہا کر دیا گیا اور وہ لندن اور دہلی کے راستے 10 جنوری کو ڈھاکہ پہنچے اور 12 جنوری کو انھیں بنگلہ دیش کا وزیر اعظم نامزد کر دیا گیا۔
بطور حکمران
ترمیمکیونکہ عوامی لیگ سوشلزم اور سیکولر ازم کی حامی تھی، اس لیے بنگلہ دیش کی حکومت نے انہی بنیادوں پر اصلاحات کا کام شروع کیا۔ پٹ سن، کپڑے سازی اور جہاز سازی کی صنعتوں کی قومی ملکیت میں لے لیا گیا۔ نیا آئین سال بھر کے اندر تیار کر لیا گیا جس کے تحت بنگلہ دیش کو ایک سوشلسٹ اور سیکولر جمہوریہ قرار دیا گیا۔ نئے آئین کے تحت مارچ 1973ء کے انتخابات میں عوامی لیگ نے 300 میں سے 292 نشستوں پر قبضہ کر لیا۔ شیخ مجیب الرحمن نے ان تمام جماعتوں (بالخصوص جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ) کو جنھوں نے وحدت پاکستان کے لیے کام کیا تھا، خلاف قانون قرار دے دیا۔
مجیب الرحمن نے ہندوستان سے خصوصی تعلقات قائم کیے کیونکہ بنگلہ دیش کو پاکستان سے الگ کرانے میں سب سے بڑا ہاتھ ہندوستان کا تھا۔ چنانچہ 1973ء میں ہندوستان سے دوستی کا معاہدہ کیا گیا۔ ہندوستان نے اپنی امداد کی بھاری قیمت وصول کی۔ ہندوستانی فوجیوں نے بنگلہ دیش خالی کرنے سے پہلے بے شمار کارخانوں کی مشینیں ہندوستان منتقل کر دیں۔ خصوصی مراعات کی وجہ سے تجارتی معاملات میں ہندوستان کو برتری حاصل ہو گئی اور بنگلہ دیش کی معیشت ہندوستان کی محتاج ہو گئی۔[9] سازگار فضا دیکھ کر مغربی بنگال کے ہندوؤں نے بھی مشرقی پاکستان واپس آنا شروع کر دیا۔ 1974ء میں ملک میں زبردست قحط پڑا۔
آخری ایام
ترمیمان تمام اسباب نے بنگلہ دیش میں ایک بار پھر بے چینی کی لہر دوڑا دی اور عوامی لیگ اور مجیب الرحمن کے خلاف آوازیں اٹھنے لگیں۔ مجیب الرحمن نے اس بے چینی کو سختی سے دبانا چاہا۔ دسمبر 1974ء میں ہنگامی حالات کا اعلان کر دیا گیا اور آئینی حقوق معطل کر دیے گئے۔ آئین میں بھی کئی ترمیمیں کی گئیں، ملک میں صدارتی نظام نافذ کر دیا گیا اور جنوری 1975ء۔ شیخ مجیب صدر اور منصور علی وزیر اعظم بنے۔ شیخ مجیب الرحمٰن اور ان کے خاندان کے افراد کو 15 اگست 1975 کے اوائل میں فوجی افسران کے ایک گروپ نے قتل کر دیا۔ جس کے نتیجے میں ملک کا ریاستی ڈھانچہ منہدم ہو گیا۔ قاتل مختلف طریقوں سے مقدمہ چلانے سے بچنے کے لیے ملک سے فرار ہونے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ بنگلہ دیش کے مختلف علاقوں میں شیخ مجیب الرحمان کے قتل کے خلاف مظاہروں کے دوران جھڑپوں میں سو سے زائد افراد مارے گئے۔
23 جون 1996 کو، شیخ مجیب الرحمان کی بیٹی شیخ حسینہ کی قیادت میں بنگلہ دیش عوامی لیگ کی حکومت کے قیام کے بعد، شیخ مجیب الرحمان اور ان کے خاندان کے افراد کے قتل کے خلاف اکتوبر کو دھان منڈی پولیس اسٹیشن میں ایک بیان درج۔ 2 اکتوبر 1996 کو دھن منڈی پولیس اسٹیشن میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ اس مقدمے کی سماعت یکم مارچ 1997 کو ڈھاکہ کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج عدالت میں شروع ہوئی۔ 30 اپریل 2001 کو 12 ملزمان کی سزائے موت کی توثیق کی گئی۔ ان میں سے 6 کو پھانسی دے دی گئی ہے۔
حوالہ جات
ترمیم- ^ ا ب جی این ڈی آئی ڈی: https://d-nb.info/gnd/118748874 — اخذ شدہ بتاریخ: 14 اکتوبر 2015 — اجازت نامہ: CC0
- ↑ مدیر: الیکزینڈر پروکورو — عنوان : Большая советская энциклопедия — اشاعت سوم — باب: Муджибур Рахман — جی این ڈی آئی ڈی: https://d-nb.info/gnd/118748874 — اخذ شدہ بتاریخ: 25 فروری 2017
- ^ ا ب عنوان : Encyclopædia Britannica — دائرۃ المعارف بریطانیکا آن لائن آئی ڈی: https://www.britannica.com/biography/Mujibur-Rahman — بنام: Mujibur Rahman — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
- ^ ا ب ایس این اے سی آرک آئی ڈی: https://snaccooperative.org/ark:/99166/w6614tgr — بنام: Sheikh Mujibur Rahman — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
- ^ ا ب Brockhaus Enzyklopädie online ID: https://brockhaus.de/ecs/enzy/article/mujibur-rahman — بنام: Mujibur Rahman — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
- ^ ا ب مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — عنوان : اوپن ڈیٹا پلیٹ فارم — بی این ایف - آئی ڈی: https://catalogue.bnf.fr/ark:/12148/cb13554834z — بنام: Mujibura Rahamaṇa — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
- ^ ا ب عنوان : Gran Enciclopèdia Catalana — گرین انسائکلوپیڈیا کیٹلینا آئی ڈی: https://www.enciclopedia.cat/ec-gec-0053986.xml — بنام: Mujibur Rahman
- ↑ Munzinger person ID: https://www.munzinger.de/search/go/document.jsp?id=00000012825 — بنام: Scheich Mujibur Rahman — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
- ↑ ملت اسلامیہ کی مختصر تاریخ از ثروت صولت، ناشر اسلامک پبلیکیشنز لاہور