سکندر بخت Sikander Bakht(پیدائش: 25 اگست 1957ء کراچی) پاکستان کے سابق کرکٹر ہیں جنھوں نے 25 ٹیسٹ اور 27 ایک روزہ میچز کھیلے۔ وہ کرکٹ پر مختلف پاکستانی چینلوں میں تبصرہ نگار کے طور پر بھی نظر آتے ہیں۔ انھوں نے پاکستان کے ساتھ ساتھ کراچی' پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز' پبلک ورکس ڈیپارٹمنٹ' سندھ اور یونائیٹڈ بینک کی طرف سے کرکٹ کھیلی۔

سکندر بخت ٹیسٹ کیپ نمبر 74
ذاتی معلومات
مکمل نامسکندر بخت
پیدائش25 اگست 1957(1957-08-25)
کراچی, سندھ, پاکستان
بلے بازیدائیں ہاتھ کا بلے باز
گیند بازیدائیں ہاتھ کا تیز گیند باز
حیثیتگیند باز
بین الاقوامی کرکٹ
قومی ٹیم
پہلا ٹیسٹ (کیپ 74)اکتوبر 1976  بمقابلہ  نیوزی لینڈ
آخری ٹیسٹجنوری 1983  بمقابلہ  بھارت
پہلا ایک روزہ (کیپ 25)30 دسمبر 1977  بمقابلہ  انگلینڈ
آخری ایک روزہ6 فروری 1989  بمقابلہ  نیوزی لینڈ
ملکی کرکٹ
عرصہٹیمیں
پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کرکٹ ٹیم
کیریئر اعداد و شمار
مقابلہ ٹیسٹ ایک روزہ فرسٹ کلاس لسٹ اے
میچ 26 27 186 100
رنز بنائے 146 31 1,944 187
بیٹنگ اوسط 6.34 7.75 14.18 8.90
100s/50s -/- -/- -/3 -/-
ٹاپ اسکور 22* 16* 67 28
گیندیں کرائیں 4870 1277 25,305 4,490
وکٹ 67 33 553 119
بالنگ اوسط 36.00 26.06 25.61 22.74
اننگز میں 5 وکٹ 3 0 29
میچ میں 10 وکٹ 1 0 3
بہترین بولنگ 8/69 4/34[1] 8/69 4/15
کیچ/سٹمپ 7/– 105/– 82/– 23/–
ماخذ: ای ایس پی این کرک انفو، 23 جنوری 2015

ٹیسٹ کرکٹ ترمیم

1976ء میں سکندر بخت کو نیوزی لینڈ کے خلاف کراچی ٹیسٹ میں ٹیم کا حصہ بنایا گیا۔ سکندر بخت نے کیوی وکٹ کیپر وارن لیز کو بولڈ کرکے اپنی پہلی ٹیسٹ وکٹ حاصل کی۔ وارن لیز اس کیوی اننگ کے ٹاپ سکورر تھے اور ٹیم کے سکور کو 468 تک لے جانے میں مددگار ثابت ہوئے تھے۔ پہلی اننگ میں 68/1 کے بعد انھوں نے دوسری اننگ میں 38/2 کی وکٹیں حاصل کیں۔ اس طرح پہلے ٹیسٹ میں 3 وکٹیں لے کر انھوں نے اپنے کیریئر کا اچھا آغاز کیا۔ 1977ء میں ویسٹ انڈیز کے خلاف کنگسٹن ٹیسٹ ان کی بہترین کارکردگی کا آئینہ دار تھا جب انھوں نے ٹیسٹ میں 126/5 کی کارکردگی کے ساتھ ویسٹ انڈیز کی تیز وکٹوں پر اپنے جوہر دکھائے۔ اس میں پہلی اننگ میں گورڈن گرینیج کولس کنگ جبکہ دوسری باری میں انھوں نے ایک مرتبہ پھر گورڈن گرینج کی وکٹ حاصل کی جبکہ کولس کنگ اور ایلون کالی چرن بھی ان کا شکار بنے۔ ٹیسٹ پاکستان ہار گیا تھا مگر سکندر بخت نے اپنی بولنگ سے شائقین کے دل جیت لیے تھے[2] 1978ء میں پاکستان اور انگلستان کے درمیان 5 ٹیسٹ میچ کھیلے گئے۔ سکندر بخت نے مجموعی طور پر اس سیریز میں 10 وکٹیں حاصل کیں جس میں کراچی 79/3، برمنگھم کے ٹیسٹ میں 132/4، لارڈز کے ٹیسٹ میں 115/2 اور لیڈز کے ٹیسٹ میں 26/1 شامل تھے۔ اسی سیزن میں بھارت کی کرکٹ ٹیم نے پاکستان کا دورہ کیا۔ کراچی کے ٹیسٹ میں سکندر بخت نے 118 رنز کے عوض 3 کھلاڑی آئوٹ کیے جبکہ بیٹنگ میں 22 ناقابل شکست رنز بنائے۔ 1979ء میں پاکستان نے نیوزی لینڈ کا دورہ کیا۔ حیرت انگزیز طور پر سکندر بخت نے اس سیریز میں 12 وکٹ سمیٹے۔ کرائسٹ چرچ میں 102/4، نیپئر میں 67/4 اور آکلینڈ میں 132/4 کی عمدہ کارکردگی کے ساتھ انھوں نے سیریز کا اختتام کیا۔ اس کے بعد پاکستان کی کرکٹ ٹیم آسٹریلیا کے دورے پر گئی۔ پرتھ کے ٹیسٹ میں 33/1 کے علاوہ وہ موثر کارکردگی دکھانے سے قاصر رہے۔ اس کے بعد اسی سیزن میں پاکستان کی کرکٹ ٹیم بھارت کے دورہ پر روانہ ہوئی۔ دوسرے ٹیسٹ میں دہلی کے مقام پر انھوں نے 69 رنز دے کر 8 بھارتی کھلاڑیوں کی وکٹیں لیں۔ انھوں نے کپتان سنیل گواسکر31، چیتن چوہان 11، دلیپ ونگسارکر 1، راجر بنی 1، سید کرمانی 5، کپل دیو 15، کرسن گھاوری 0، شیولال یادیو 4 کو اپنے چنگل میں پھنسایا۔ اس اعلیٰ کارکردگی کی بدولت بھارت کی کرکٹ ٹیم 126 رنز پر ڈھیر ہو گئی۔ جبکہ پاکستان نے پہلی اننگز میں 273 رنز وسیم راجا 97، آصف اقبال 64 کی بدولت بھارت پر برتری حاصل کرلی۔ پاکستان نے دوسری اننگز میں وسیم راجا 61، ظہیر عباس 50 کی مدد سے 242 رنز سکور کیے۔ بھارت نے دوسری اننگز میں 390 رنز کے ہدف میں 364 رنز 6 وکٹوں پر بنا لیے تھے۔ اس اننگ میں دلیپ ونگسارکر 146، شیو لال یادیو 60 اور چیتن چوہان کے 40 رنز کی بدولت نہ صرف یقینی شکست کو ٹالا بلکہ جیت کے بھی قریب پہنچ گئے۔ سکندر بخت نے اس نے اننگ ایک بار پھر اچھی بولنگ کی مگر قدرے مہنگے 121 رنز کے عوض 3 وکٹوں کا اختتام کر دیا اور میچ میں 190 رنز کے عوض 11 وکٹیں حاصل کرگئے۔ ممبئی کے دوسرے ٹیسٹ میں انھوں نے 85/7، کانپور کے تیسرے ٹیسٹ میں 119/5 اور چنائی کے چوتھے ٹیسٹ میں 142/1 کے ساتھ دورے کا اختتام کیا جبکہ کولکتہ کے آخری ٹیسٹ میں انھیں کوئی وکٹ نہ مل سکی۔ اسی سیزن میں ویسٹ انڈیز کے خلاف واحد ٹیسٹ میں فیصل آباد کے مقام پر وہ کوئی وکٹ حاصل نہ کرسکے۔ 1981ء میں پاکستان کی کرکٹ ٹیم نے ایک بار پھر آسٹریلیا کے دورہ کیا مگر یہ دورہ سکندر بخت کے لیے زیادہ خوش قسمت ثابت نہ ہوا اور صرف پرتھ کے پہلے ٹیسٹ میں 126 رنز کے عوض 4 وکٹیں وہ لے پائے جبکہ برسبین کے ٹیسٹ میں انھیں ایک ہی وکٹ حاصل ہو سکی اور میلبورن کے ٹیسٹ میں وہ کوئی وکٹ حاصل نہ کرسکے۔ 1982ء میں پاکستان نے انگلستان کا دورہ کیا مگر وہ زیادہ کامیاب دکھائی نہ دیے۔ 2 ٹیسٹوں میں 3 وکٹوں کے ساتھ وہ خود بھی مایوس تھے۔ جبکہ اگلے سال بھارت کے دورہ فیصل آباد کے مقام پر جو ان کا آخری ٹیسٹ تھا انھوں نے ایک ہی وکٹ حاصل کی اور یوں ان کا ٹیسٹ کیریئر اپنے اختتام کو پہنچا۔

ون ڈے کیریئر ترمیم

سکندر بخت نے 1977ء میں انگلستان کے خلاف سیالکوٹ کے میچ میں ون ڈے ڈیبیو کیا اور گراہم روپ ان کی پہلی وکٹ بنے جسے انھوں نے 7 رنز پر ہارون رشید کے ہاتھوں کیچ کروایا۔ 1978ء میں پاکستان نے انگلستان کا دورہ کیا تو وہ ٹیم کے ہمراہ تھے۔ مانچسٹر میں انھوں نے 56 رنز دے کر 3 کھلاڑیوں کو آئوٹ کیا۔ بدقسمتی سے پاکستان کی ٹیم 85 رنز پر آئوٹ ہو کر یہ میچ 132 رنز سے ہار گئی۔ اوول کے اگلے میچ میں وہ صرف ایک وکٹ لے پائے۔ بھارت کے خلاف سیالکوٹ میں انھوں نے 2 کھلاڑیوں کو آئوٹ کیا۔ 1979ء میں دوسرے عالمی کپ میں کینیڈا کے خلاف انھوں نے اچھی بولنگ کی۔ 18 رنز کے عوض ایک وکٹ لے اڑے۔ تاہم نوٹنگھم میں آسٹریلیا کے خلاف انھوں نے 3/34 کی کارکردگی دکھائی اور لیڈز میں انگلستان کے خلاف 32/3 کے ساتھ سب کی نظروں میں آگئے لیکن ویسٹ انڈیز کے خلاف اہم میچ میں اوول کے مقام پر انھیں کوئی وکٹ نہ مل سکی۔ 1980ء میں ویسٹ انڈیز نے پاکستان کا دورہ کیا مگر سیالکوٹ اور لاہور کے میچوں میں وہ صرف ایک ہی وکٹ لے سکے۔ 1981-82ء میں آسٹریلیا میں منعقد ہونے والی بینسن اینڈ ہیجز ورلڈ سیریز میں ویسٹ انڈیز اور آسٹریلیا کے خلاف انھوں نے 12 وکٹیں حاصل کیں جن میں میلبورن میں آسٹریلیا کے خلاف 4/34 ان کی بہترین بولنگ تھی۔ پاکستان نے یہ میچ 4 وکٹوں سے جیت لیا تھا۔ سکندر بخت نے رک ڈارلنگ 41، گریگ چیپل 3، ایلن بارڈر 6 اور کم ہیوز 67 کو اپنا نشانہ بنایا۔ پاکستان نے مقررہ ہدف آخری اوور میں پورا کیا۔ جاویدمیانداد 72، مدثر نذر 44 اور عمران خان نے ناقابل شکست 28 رنز بنائے جبکہ برسبین میں ویسٹ انڈیز کے خلاف 29/3 بھی ان کی اعلیٰ کارکردگی کا آئینہ دار تھے جہاں پاکستان بارش سے متاثرہ میچ میں ایک وکٹ سے شکست کھا گیا۔ پاکستان نے 9 وکٹوں پر 170 رنز بنائے جس میں مدثر نذر 40، عمران خان 31 اور جاوید میانداد 25 رنز شامل تھے تاہم ویسٹ انڈیز 107 رنز 9 وکٹوں پر بنا کر بھی یہ میچ جیت گیا۔ سکندر بخت نے لیری گومز 13، کلائیو لائیڈ 1 اور جیفری ڈوجون 13 کو ہزیمت سے دوچار کیا تھا۔ اسی سیزن میں سری لنکا کی کرکٹ ٹیم نے پاکستان کا دورہ کیا۔ لاہور اور کراچی کے 2 میچوں میں سکندر بخت 3 وکٹیں حاصل کرسکے۔ اسی طرح اسی سیزن میں انگلستان کے دورے میں بھی وہ صرف ایک وکٹ ہی تھام سکے۔ آسٹریلیا کے خلاف حیدرآباد کے میچ میں 24/1 اور اپنے آخری ون ڈے میچ میں نیوزی لینڈ کے خلاف ڈونیڈن کے میچ میں 43/1 کے ساتھ انھوں نے اپنا ایک روزہ کیریئر اختتام پزیر کیا۔

اعداد و شمار ترمیم

سکندر بخت نے 25 ٹیسٹ میچوں کی 35 اننگز میں 12 مرتبہ ناٹ آئوٹ رہ کر 146 رنز سکور کیے۔ 6.34 کی اوسط سے ہونے والے سکور میں 22 ناقابل شکست رنز ان کی کسی ایک اننگ کا سب سے زیادہ سکور تھا۔ انھوں نے 27 ایک روزہ مقابلوں کی 11 اننگ میں 7 مرتبہ ناٹ آئوٹ رہ کر محض 31 رنز بنائے۔ 16 ناٹ آئوٹ ان کی کسی ایک اننگ کا سکور اور 7.75 فی اننگ اوسط تھی۔ سکندر بخت نے 186 میچوں کی 202 اننگز میں 65 مرتبہ ناٹ آئوٹ رہ کر 1944 رنز بنائے۔ 14.18 کی اوسط سے بننے والے ان رنزوں میں 67 ان کی کسی ایک اننگ کا سب سے زیادہ سکور تھا۔ سکندر بخت نے ٹیسٹ میچوں میں 7' ایک روزہ مقابلوں میں 4 اور فرسٹ کلاس میچوں میں 82 کیچز پکڑے۔ سکندر بخت نے 26 ٹیسٹوں میں 2412 رنز دے کر 67 وکٹیں اپنے نام کیں۔ 69/8 ان کی کسی اننگ میں بہترین بولنگ اور 11/190 کسی ایک ٹیسٹ میں بہترین بولنگ کا ریکارڈ تھا جو انھوں نے 36.00 کی اوسط سے اپنے نام کیا جبکہ ایک روزہ مقابلوں میں 860 رنز دے کر 33 وکٹوں کے مالک بنے۔ 4/34 ان کی بہترین کارکردگی تھی۔ فرسٹ کلاس میچوں میں انھوں نے 14167 رنز دے کر 553 وکٹ حاصل کیے۔ 69/8 ان کی بہترین کارکردگی تھی جس سے انھیں 25.61 کی اوسط حاصل ہوئی۔ 29 مرتبہ کسی ایک اننگ میں 5 اور 3 دفعہ کسی ایک اننگ میں 10 وکٹ ان کے کھاتے میں دیکھے جا سکتے ہیں[3]

مزید دیکھیے ترمیم

حوالہ جات ترمیم