سید ناصر حسین موسوی
علامہ سید ناصر حسین موسوی معروف بہ ناصرالملۃ ،'ایک نامور شیعہ عالم دین اور متکلم فقیہ مجتہد تھے ـ شہر لکھنؤ کے رہنے والے تھے ـ علامہ سید حامد حسین موسوی کے بیٹے تھے۔ ـ
ولادت
ترمیمآپ کی ولادت 19 جمادى الثانی سنہ 1284ھ مطابق 18 اکتوبر سنہ 1867ء میں ہوئی۔
نسب نامہ: ناصر الملت سيد ناصر حسين ابن صاحب عاقبت الانوار سید مير حامد حسين ابن مفتى سيد محمد قلى ابن سيد محمد حسين المعروف بالسيد الله كرم ابن سيد حامد حسين ابن سيد زين العابدين ابن سيد محمد المشهور بالسيد البولاقی ابن سيد محمد المعروف بالسيد مدا ابن سيد حسين المشهور بالسيد ميتم ابن سيد حسين ابن سيد جعفر ابن السيد علي ابن سيد كبير الدين ابن سيد شمس الدين ابن سيد جمال الدين ابن سيد شهاب الدين أبی المظفر حسين الملقب بسيد السادات والمعروف بالسيد علاء الدين أعلى بزرك ابن سيد محمد المعروف بالسيد عز الدين ابن سيد شرف الدين أبی طالب المشهور بالسيد الأشرف ابن سيد محمد الملقب بالمهدی المعروف بالسيد محمد المحروق ابن سید حمزہ ابن سید علی ابن سید أبی محمد ابن سید جعفر ابن سید مهدی ابن سید أبی طالب ابن سید علی ابن سید حمزہ ابن سید أبی القاسم حمزہ ابن امام موسیٰ الكاظم علیہ السّلام
تعلیم
ترمیمآپ نے اپنے والد علام کے ساتھ ساتھ علامہ مفتی سید محمد عباس شوشتری اور دیگر اساتذہ سے کسب علم کیا اور عربی اور فارسی ادب پر مسلط ہو گئے ـ آپ نے کتاب عبقات الانوار کی تالیف میں اپنے والد کی مدد کی۔
علامہ سید محسن امین عاملی کی نگاہ میں
ترمیمآپ کی علمی شخصیت کے بارے میں علامہ سید محسن امین عاملی یوں رقمطراز ہیں :
”امام فی الرجال والحدیث واسع التتبع كثیر الاطلاع قوی الحافظۃ لا یكاد یسألہ أحد عن مطلب الا ویحیلہ الی مظانہ من الكتب مع الإشارۃ إلی عدد الصفحات وكان أحد الأساطین والمراجع فی الھند ولہ وقار وھیبۃ فی قلوب العامۃ واستبداد فی الرأی ومواظبۃ علی العادات وھو معروف بالأدب والعربیۃ معدود من أساتذتھما والیہ یرجع فی مشكلاتھما۔ ولہ خطبہ مشتملۃ علی عبارات جزلۃ وألفاظ مستطرفۃ ولہ شعر جید۔ ومن تلامیذہ الزعیم الھندی الشھیر أبو الكلام آزاد، قرأ علیہ نھج البلاغۃ فی سنتین ومن ھنا تشیع آزاد بالروح الشیعیۃ قرأ علی والدہ وعلی المفتی السید محمد عباس“. [1]
علامہ شیخ آقا بزرگ تہرانی کی نگاہ میں
ترمیمعلامہ شیخ آقا بزرگ تہرانی کے الفاظ یہ ہیں :
”علامۃ محدث فقیہ متکلم متتبع ماھر“. [2]
تالیفات
ترمیم1: نفحات الأزھار فی فضائل الأئمۃ الأطھار(16 جلدوں پر مشتمل)
2: إسباغ النائل بتحقیق المسائل(9 جلدوں پر مشتمل)
3: ما ظھر من الفضائل لأمیر المؤمنین یوم خیبر
4: إثبات رد الشمس لأمیر المؤمنین ودفع ما أورد علیہ من الشبهات
5: المواعظ
6: مسند فاطمۃ بنت الحسین
7: دیوان الخطب
8: نفحات الأنس فی وجوب السورۃ
9: الانشاء
10: سبائك الذھبان فی الرجال والأعیان
11: فھرست أنساب السمعانی
12: إفحام الأعداء والخصوم فی نفی تزویج عمر بأم كلثوم . [3]
وفات اور مدفن
ترمیمیکم رجب المرجب سنہ 1361ھ مطابق 15 جولائی سنہ 1942ء کو لکھنؤ میں آپ کی وفات ہوئی اور آپ کی وصیت کے مطابق آپ کا جنازہ آگرہ میں شہید ثالث قاضی نور اللہ شوشتری کے مزار میں دفن کیا گیا۔[4]
اولاد
ترمیمآپ کے دو بیٹے تھے۔
١. بڑے بیٹے نصیر الملت مولانا سید محمد نصیر جنھوں نے لکھنؤ میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد نجف اشرف (عراق) میں تعلیم حاصل کی اور وہاں سے واپسی کے بعد لکھنؤ میں قیام کیا۔ آپ لاولد تھے۔
٢. دوسرے بیٹے سعید الملت مولانا سید محمد سعید موسوی (سعید الملت) تھے۔ آپ نے بھی لکھنؤ کی تعلیم کے بعد نجف اشرف (عراق) میں تعلیم حاصل کی اور پھر لکھنؤ واپس آکر والد علام اور جد علام کی تالیفات کے احیاء اور بقاء کا اہتمام کرتے رہے، ـ آپ کا انتقال بھی لکھنؤ میں ہوا اور آگرہ میں شہید ثالث قاضی نوراللہ شوشتری کے مزار میں والد علام کے پہلو میں آپ کو دفن کیا گیا۔
٣. ایک دختر جو راجا سید نظیر حسین رضوی کی اہلیہ تھیں۔ آپ کے بیٹے مولانا سید مظفر حسین رضوی المشہور بہ طاہر جرولی صاحب۔
٢۔ مولانا سید محمد سعید کے تین بیٹے اور ایک بیٹی۔
٢-١. مولانا سید علی ناصر سعید عبقاتی ایمشہور بہ آغا روحی۔ آپ کے دو بیٹے: مولانا سید عباس ناصر سعید عبقاتی اور سید مرتضیٰ ناصر سعید عبقاتی۔
٢-٢. سید حسین ناصر سعید عبقاتی۔ آپ کے ایک پسر سید حمزہ ناصر سعید عبقاتی۔
٢-٣. مولانا سید علی حیدر المشہور بہ مولانا سید سجاد ناصر سعید عبقاتی۔ آپ کے ایک دختر اور ایک پسر سید رضا ناصر سعید عبقاتی۔
٢-٤. ایک دختر اہلیہ سید کاظم رضوی جرولی جن کے تین پسر سید جلال کاظم، سید جمال کاظم اور سید دانیال کاظم۔