سر سید وزیر حسن ( 1874ء- 1947ء) ایک بھارتی ماہر قانون اور سیکرٹری تھے جو بعد میں آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر بھی بنے۔ جوڈیشل کمیشن عدالت میں ایک پریکٹشنر کے طور پر وہ بھارت کے پہلے چیف جسٹس آف اوودھ چیف کورٹ ( 1930ء تا 1934ء) مقرر ہوئے تھے۔[1] مسلم لیگ کے 24 ویں اجلاس میں ان کا صدارتی خطاب 11- 12 اپریل 1936ء کو بمبئی میں منقعد ہوا جس میں ہندو مسلم اتحاد کے مطالبہ پر غور کیا گیا اور یہ علاحدہ مسلم ریاست کے مطالبہ سے قبل کا اجلاس تھا۔ علاحدہ مسلم ریاست کا مطالبہ اس سے اگلے برس محمد علی جناح کی طرف سے کیا گیا تھا۔[2][3][4][5]

سید وزیر حسن
اودھ چیف کورٹ کے چیف جسٹس
مدت منصب
1930–1934
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1874ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
جونپور ضلع   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات اگست1947ء (72–73 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
لکھنؤ   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت برطانوی ہند   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مذہب اسلام
جماعت آل انڈیا مسلم لیگ   ویکی ڈیٹا پر (P102) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ وکیل   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اعزازات
 نائٹ بیچلر    ویکی ڈیٹا پر (P166) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

1873ء میں سید ظہیر کے گھر ان کی پیدائش ہوئی جو ضلع جون پور کے اشرافیہ کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور ان سے ریاست کی دیکھ بھال کی امید تھی مگر انھوں نے موقع و حالات کو دیکھتے ہوئے اپنے والد کے ساتھ لڑ جھگڑ کر انگریزی تعلیم حاصل کرنے کا فیصلہ کیا۔ اور قانون کی تعلیم علی گڑھ یونیورسٹی اور میعور سینٹرل کالج الہ آباد سے حاصل کرنے کے لیے علاحدہ ہو گئے۔ ان کے چار بھائی بھی تھے۔ سید جعفر حسن، سید شبیر حسن، اس وقت کے نامور شاعر جو "قتیل لکھنؤی " سید اصغر حسن کے نام سے مشہور تھے اور سید کاظم حسین تھے۔ ان کی دو بہنیں بھی تھیں ( نام نامعلوم)۔ ان کے دو بیٹے سید سجاد ظہیر اور سید علی ظہیر تھے۔ پروفیسر سید نور الحسن ان کے پوتے تھے۔ ان کی بیوی لیڈی وزیر حسن نے 1930ء میں پرودھ ترک کر دیا جو گاندھی کی غیر تعاون کی تحریک تھی۔ اس نے اپنی فرنچ شفون کی ساڑھیاں ترک کر کے کھڈی کا بنا کپڑا پہننا شروع کیا اور چرخہ کاتنے لگی۔ وہ بھوپال سے تعلق رکھتی تھی اور پہلی لڑکی تھی جس نے مڈل اسکول کا چھٹی کا انتحان پاس کیا تھا۔ مسلم لیگ کا صدارتی خطاب 1936ء بمبئی میں سید وزیر حسن کی زیر صدارت ہوا، ان کا اگست 1947ء میں انتقال ہوا اور تدفین بھی وہیں ہوئی۔ وہ بہت تیز ذہانت، وسیع علم اور قابلیت کے حامل فرد تھے۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے سیکرٹری کی حیثیت سے ان کی مولانا آزاد سے میٹنگ نے پارٹی کے لیے فیصلہ ثبت کر گئی تھی یہ پارٹی کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا تھا جس میں جناح کے ماتحت صدر نے سالانہ اجلاس لکھنؤ میں شروع کیا۔ اس اجلاس میں برطانوی حکومت سے وفاداری اور مسلمانوں کے حقوق کی بجائے ہندوستان کے لیے مناسب خود مختار حکومت کا قیام کا فیصلہ کیا گیا اور لکھنؤ معاہدہ کے تحت بھارتی نیشنل کانگریس سے بھی دستخط کروائے گئے۔[6]

مزید پڑھیے

ترمیم
  • Zaidi، A. Moin (1975)۔ Evolution of Muslim Political Thought in India. (President Address of Sir Wazir Hasan)۔ Indian Institute of Applied Political Research by Michiko & Panjathan۔ ص 207

حوالہ جات

ترمیم
  1. Gosh-e-Azad: Biography of Maulana Azad[مردہ ربط] ICCR.
  2. Muhammad، Shan (2002)۔ Education and politics: from Sir Syed to the present day : the Aligarh School۔ APH Publishing۔ ISBN:81-7648-275-7۔ مورخہ 2018-12-25 کو اصل سے آرکائیو شدہ
  3. Pirzada، Syed Sharifuddin (1969)۔ Foundations of Pakistan: All-India Muslim League documents, 1906–1947, Volume 2۔ National Pub. House
  4. Singh، Nagendra Kr (2001)۔ Encyclopaedia of Muslim Biography: S-Z۔ A.P.H. Pub. Corp.۔ ص 439۔ ISBN:81-7648-235-8
  5. Saʻīd، Ahmad (1997)۔ Muslim India, 1857–1947: a biographical dictionary۔ Lahore, Pakistan: Institute of Pakistan Historical Research۔ ص 335
  6. Sir Syed Wazir Hasan Profile